توازن کھانے میں، سکون زندگی میں

اسپیشل فیچر
جدید دور کی تیز رفتار زندگی، بے شمار ذمے داریاں، سوشل میڈیا کا دباؤ اور خوبصورتی کے غیر حقیقی معیارات انسان کو ایک ایسی دوڑ میں دھکیل چکے ہیں جس میں جسمانی وزن کم کرنا اکثر ذہنی سکون کھوئے بغیر نہیں ہوتا۔ صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنا بلاشبہ ایک مثبت عمل ہے مگر جب یہ کوشش توازن سے ہٹ کر صرف جسمانی شکل و صورت کی تبدیلی تک محدود ہو جائے تو یہ ہماری ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ آج کی سائنسی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ خوراک کی مقدار میں کمی، بالخصوص بغیر سائنسی یا طبی رہنمائی کے، نہ صرف ہمارے جسم کو بلکہ ہمارے دماغ اور جذباتی توازن کو بھی متاثر کرتی ہے۔
خوراک میں بے ترتیبی اور ذہنی دباؤ: سائنسی تحقیق کیا کہتی ہے؟
امریکا کے نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سروے (NHANES) کے تحت 28 ہزار سے زائد افراد پر کی جانے والی تحقیق جو حال ہی میں جرنل BMJ Nutritionمیں شائع ہوئی، اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ غذا میں غیر ضروری یا اچانک کمی ذہنی صحت کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روزانہ کی کیلوریز میں غیر فطری کمی مردوں اور زیادہ وزن رکھنے والے افراد کے لیے ڈپریشن اور ذہنی بے چینی کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔محققین نے واضح کیا ہے کہ صرف کیلوریز کی مقدار نہیں بلکہ خوراک کا معیار بھی یکساں اہم ہے۔ وہ افراد جو الٹرا پراسیسڈغذا، ریفائن کاربوہائیڈریٹس، پراسیس گوشت اور فاسٹ فوڈز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کا خطرہ کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب ہم خوراک کی مقدار کم کرتے ہیں یا صرف ''ڈائٹنگ‘‘ کے نام پر کسی مخصوص غذا تک خود کو محدود کر لیتے ہیں تو جسم کو وہ بنیادی غذائی اجزا، جیسے پروٹین، آئرن، اومیگا 3، وٹامن بی12، زنک، اور فولک ایسڈ نہیں مل پاتے جو دماغی کارکردگی کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں۔ نتیجتاً نیند کی کمی، توجہ میں خلل، جسمانی تھکن، بے چینی اور آخرکار ڈپریشن جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
ڈپریشن محض جذباتی کیفیت نہیں بلکہ ایک مکمل دماغی اور جسمانی مرض ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ بیماری نہ صرف اداسی، مایوسی اور کم ہمتی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے بلکہ نیند کی خرابی، بھوک میں تبدیلی، توانائی میں کمی، اور بعض اوقات جسمانی درد و تکلیف کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہر شعبہ زندگی میں توازن، اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: کھاؤ، پیو اور اسراف نہ کرو، بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف: 31)
نبی کریم ﷺ کی خوراک سے متعلق تعلیمات بھی نہایت معتدل تھیں۔ آپ ﷺ فرماتے:آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا برتن کوئی نہیں بھرا۔ آدمی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ چند لقمے کھا لے جو اس کی کمر سیدھی رکھیں، اور اگر زیادہ کھانا ہی ہو تو ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے رکھے۔ (ترمذی) دین اسلام کی یہ تعلیمات ہمیں نہ صرف جسمانی صحت، اعتدال، توازن بلکہ ذہنی و روحانی سکون کا راستہ دکھاتی ہیں۔
آج سوشل میڈیا اور شوبز کی دنیا نے خوبصورتی کا جو معیار قائم کیا ہے، اس کی تقلید میں نوجوان نسل غذا ترک کر کے صرف 'سلم‘ نظر آنے کی کوشش میں ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے۔ ہر تیسرا نوجوان کم کھانے کو کامیابی اور ڈائٹنگ کو 'فیشن‘ سمجھتا ہے۔ نتیجہ؟ غذائی قلت، وٹامن کی قلت، انزائٹی، نیند کے مسائل اور بالآخر ڈپریشن۔
دنیا بھر میں ہونے والی مختلف تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ افراد جو میڈیٹرینین ڈائٹ (زیتون کا تیل، مچھلی، سبزیاں، گری دار میوے) کا استعمال کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کے امکانات 35 فیصد کم ہوتے ہیں۔ یورپی غذائی نیٹ ورک کے مطابق جن ممالک میں پراسیسڈ فوڈز کا زیادہ استعمال ہوتا ہے وہاں ڈپریشن کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق متوازن غذا دماغی صحت کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی دوا یا سائیکوتھراپی۔ڈپریشن سے بچنے کے لیے اعتدال، متوازن غذا، جسمانی سرگرمی، نیند کی پابندی اور روحانی سکون بنیادی اجزا ہیں۔ نماز، تلاوتِ قرآن، ذکر اور دعا روحانی سکون کے ایسے خزانے ہیں جنہیں سائنس اب ''Mindfulness‘‘ اور'' Spiritual Healing‘‘ کے نام سے قبول کر چکی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خوراک کو جسمانی ضرورت سے بڑھ کر اعتدال کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے نفسیاتی و روحانی توازن کا ذریعہ سمجھا جائے۔ اعتدال کے ساتھ کھانا کھانے کو ایک عبادت کے جذبے سے کھائیں، اپنے جسم کو اللہ کی امانت جان کر اس کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ سادگی، میانہ روی، شکر گزاری اور تسلیم و رضا جیسے اسلامی اصول ذہنی دباؤ کے خلاف مضبوط قلعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔