نوجوان الجھن کا شکار کیوں؟

اسپیشل فیچر
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی، شعور اور بقا کی بنیاد ہوتی ہے اور طالب علم قوم کا مستقبل سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں کل آبادی کاتقریباً65 فیصدبنتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت طالب علموں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کے مستقبل کے معمار ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی حالات ایسے ہیں کہ اکثر طلبہ منزل کی سمت واضح نہ ہونے کے باعث الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ایسے میں طلبہ کی صحیح رہنمائی، مشورہ اور کردار سازی ازحد ضروری ہو جاتی ہے تاکہ نوجوان تعلیمی، اخلاقی، سماجی اور پیشہ ورانہ میدانوں میں کامیاب ہو سکیں۔
تعلیم کا مقصد صرف ڈگری نہیں
ہمارے ہاں تعلیم کو صرف ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور والدین اور اساتذہ طالب علموں کو اکثر نمبروں کی دوڑ میں لگائے رکھتے ہیں، جبکہ تعلیم کا اصل مقصد شعور، سوچ، تحقیق، اخلاق اور ہنر کی تربیت ہوتا ہے۔ ایک باشعور طالب علم وہی ہوتا ہے جو کتابوں سے زیادہ سیکھنے پر توجہ دے، سوال کرے، تحقیق کرے اور تخلیقی سوچ اپنائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مطالعہ کی عادت اپنائیں۔ہمارے ملک کے نوجوانوں میں مطالعہ کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا، غیر متعلقہ مواد اور غیر نصابی سرگرمیوں میں وقت کا ضیاع ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ صرف نصاب ہی نہیں بلکہ حالات حاضرہ، تاریخ، سائنس، مذہب، ادب اور معاصر موضوعات کابھی مطالعہ کریں۔ روزانہ کم از کم 30 منٹ کا مطالعہ ایک کامیاب زندگی کی طرف قدم ہے مگر یہ کم از کم حد ہے‘ اس میں اپنی کوشش سے جو اضافہ کر سکے یہ اس کیلئے مفید ہے۔ یہ بھی مد نظر رکھیں کہ کامیاب زندگی کی بنیاد وقت کی قدر اور نظم و ضبط ہے۔ ایک طالب علم کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں باقاعدگی، منصوبہ بندی اور وقت کے درست استعمال کو شعار بنانا چاہیے۔ سونے، جاگنے، پڑھنے، آرام کرنے، اور تفریح کرنے کے اوقات طے کریں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔
موبائل اور سوشل میڈیا کا متوازن استعمال
اس دور میں موبائل فون اور سوشل میڈیا ایک طرف معلومات کا خزانہ ہیں،مگر وہیں یہ وقت کا بہت بڑا ضیاع بھی بن چکے ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر بے مقصد گھنٹوں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو تعلیمی ویڈیوز، لیکچرز، آئی ٹی کورسز اور معلوماتی مواد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کا جائزہ لے اور اسے مثبت سمت میں بدلے۔یاد رکھیں کہ آج کا دور صرف ڈگری کا نہیں بلکہ مہارتوں کا ہے۔آئی ٹی، گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، کنٹینٹ رائٹنگ، فری لانسنگ، زبانیں سیکھنا اور سوشل میڈیا مینجمنٹ جیسی صلاحیتیں ہر طالب علم کو اپنے وقت کے ساتھ سیکھنی چاہئیں۔چھٹیوں یا فالتو وقت میں کوئی آن لائن کورس کریں، یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ سیکھے ہوئے ہنر مستقبل میں بہت کام آئیں گے ۔
تعلیم کا اصل مقصد
تعلیم کا اصل مقصد کردار سازی ہے۔ ہمارے ملک اور معاشرے کو اچھے گریڈز کے ساتھ ساتھ اچھے انسانوں کی بھی ضرورت ہے۔ ایک طالب علم کو ایمانداری، سچائی، عاجزی، تحمل اور احترام جیسے اوصاف کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ معاشرے میں اگر تبدیلی لانی ہے تو اس کی ابتدا تعلیمی اداروں سے ہونی چاہیے۔ترقی یافتہ قوموں میں اساتذہ کو سب سے بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔
دوستوں کا انتخاب
آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ طالب علم کی کامیابی میں دوستوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ نیک، محنتی اور سنجیدہ سوچ رکھنے والے دوست آپ کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ وقت ضائع کرنے والے دوست زندگی برباد کر سکتے ہیں۔ اس لیے صحبت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔ طالب علم کو صرف کتابی علم ہی نہیں بلکہ اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنے معاشرے سے بھی جڑے رہنا چاہیے۔ حالات حاضرہ، ملکی مسائل، سیاسی و سماجی مسائل، اور معاشرتی خدمات کا شعور ہونا چاہیے۔ یہ طلبہ کل کے لیڈر ہیں، انہیں ابھی سے ملک سے محبت، خدمت اور دیانتداری کا سبق سیکھنا ہو گا۔
مایوسی کو شکست دیں
ہمارے نوجوانوں اور طلبا میں مایوسی، ڈپریشن اور بے مقصدیت متعدی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ معاشرتی دباؤ، تعلیمی ذمہ داریاں اور روشن مستقبل کے مواقع کی کمی ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ مایوسی کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر کوئی طالب علم محنت کرے، ثابت قدم رہے، خود پر بھروسہ رکھے اور دعا کے ساتھ کوشش جاری رکھے تو وہ ضرور کامیاب ہوگا۔پاکستانی طلبہ میں بے پناہ ذہانت اور صلاحیت ہے، لیکن ان کو صحیح رہنمائی، ماحول اور مواقع کی ضرورت ہے۔ یہ رہنمائی اساتذہ، والدین، میڈیا، اور خود طالب علم کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہمارے طالب علم سنجیدہ ہوں، وقت کی قدر کریں، تعلیم کو مقصدِ حیات بنائیں اور مثبت رویہ اختیار کریں تو کوئی شک نہیں کہ وہ خود کو سنوار سکتے ہیں اور پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکتے ہیں۔