نوجوان الجھن کا شکار کیوں؟

نوجوان الجھن کا شکار کیوں؟

اسپیشل فیچر

تحریر : وقاص ریاض


تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی، شعور اور بقا کی بنیاد ہوتی ہے اور طالب علم قوم کا مستقبل سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں کل آبادی کاتقریباً65 فیصدبنتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت طالب علموں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کے مستقبل کے معمار ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی حالات ایسے ہیں کہ اکثر طلبہ منزل کی سمت واضح نہ ہونے کے باعث الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ایسے میں طلبہ کی صحیح رہنمائی، مشورہ اور کردار سازی ازحد ضروری ہو جاتی ہے تاکہ نوجوان تعلیمی، اخلاقی، سماجی اور پیشہ ورانہ میدانوں میں کامیاب ہو سکیں۔
تعلیم کا مقصد صرف ڈگری نہیں
ہمارے ہاں تعلیم کو صرف ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور والدین اور اساتذہ طالب علموں کو اکثر نمبروں کی دوڑ میں لگائے رکھتے ہیں، جبکہ تعلیم کا اصل مقصد شعور، سوچ، تحقیق، اخلاق اور ہنر کی تربیت ہوتا ہے۔ ایک باشعور طالب علم وہی ہوتا ہے جو کتابوں سے زیادہ سیکھنے پر توجہ دے، سوال کرے، تحقیق کرے اور تخلیقی سوچ اپنائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مطالعہ کی عادت اپنائیں۔ہمارے ملک کے نوجوانوں میں مطالعہ کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا، غیر متعلقہ مواد اور غیر نصابی سرگرمیوں میں وقت کا ضیاع ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ صرف نصاب ہی نہیں بلکہ حالات حاضرہ، تاریخ، سائنس، مذہب، ادب اور معاصر موضوعات کابھی مطالعہ کریں۔ روزانہ کم از کم 30 منٹ کا مطالعہ ایک کامیاب زندگی کی طرف قدم ہے مگر یہ کم از کم حد ہے‘ اس میں اپنی کوشش سے جو اضافہ کر سکے یہ اس کیلئے مفید ہے۔ یہ بھی مد نظر رکھیں کہ کامیاب زندگی کی بنیاد وقت کی قدر اور نظم و ضبط ہے۔ ایک طالب علم کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں باقاعدگی، منصوبہ بندی اور وقت کے درست استعمال کو شعار بنانا چاہیے۔ سونے، جاگنے، پڑھنے، آرام کرنے، اور تفریح کرنے کے اوقات طے کریں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔
موبائل اور سوشل میڈیا کا متوازن استعمال
اس دور میں موبائل فون اور سوشل میڈیا ایک طرف معلومات کا خزانہ ہیں،مگر وہیں یہ وقت کا بہت بڑا ضیاع بھی بن چکے ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر بے مقصد گھنٹوں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو تعلیمی ویڈیوز، لیکچرز، آئی ٹی کورسز اور معلوماتی مواد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کا جائزہ لے اور اسے مثبت سمت میں بدلے۔یاد رکھیں کہ آج کا دور صرف ڈگری کا نہیں بلکہ مہارتوں کا ہے۔آئی ٹی، گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، کنٹینٹ رائٹنگ، فری لانسنگ، زبانیں سیکھنا اور سوشل میڈیا مینجمنٹ جیسی صلاحیتیں ہر طالب علم کو اپنے وقت کے ساتھ سیکھنی چاہئیں۔چھٹیوں یا فالتو وقت میں کوئی آن لائن کورس کریں، یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ سیکھے ہوئے ہنر مستقبل میں بہت کام آئیں گے ۔
تعلیم کا اصل مقصد
تعلیم کا اصل مقصد کردار سازی ہے۔ ہمارے ملک اور معاشرے کو اچھے گریڈز کے ساتھ ساتھ اچھے انسانوں کی بھی ضرورت ہے۔ ایک طالب علم کو ایمانداری، سچائی، عاجزی، تحمل اور احترام جیسے اوصاف کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ معاشرے میں اگر تبدیلی لانی ہے تو اس کی ابتدا تعلیمی اداروں سے ہونی چاہیے۔ترقی یافتہ قوموں میں اساتذہ کو سب سے بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔
دوستوں کا انتخاب
آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ طالب علم کی کامیابی میں دوستوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ نیک، محنتی اور سنجیدہ سوچ رکھنے والے دوست آپ کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ وقت ضائع کرنے والے دوست زندگی برباد کر سکتے ہیں۔ اس لیے صحبت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔ طالب علم کو صرف کتابی علم ہی نہیں بلکہ اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنے معاشرے سے بھی جڑے رہنا چاہیے۔ حالات حاضرہ، ملکی مسائل، سیاسی و سماجی مسائل، اور معاشرتی خدمات کا شعور ہونا چاہیے۔ یہ طلبہ کل کے لیڈر ہیں، انہیں ابھی سے ملک سے محبت، خدمت اور دیانتداری کا سبق سیکھنا ہو گا۔
مایوسی کو شکست دیں
ہمارے نوجوانوں اور طلبا میں مایوسی، ڈپریشن اور بے مقصدیت متعدی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ معاشرتی دباؤ، تعلیمی ذمہ داریاں اور روشن مستقبل کے مواقع کی کمی ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ مایوسی کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر کوئی طالب علم محنت کرے، ثابت قدم رہے، خود پر بھروسہ رکھے اور دعا کے ساتھ کوشش جاری رکھے تو وہ ضرور کامیاب ہوگا۔پاکستانی طلبہ میں بے پناہ ذہانت اور صلاحیت ہے، لیکن ان کو صحیح رہنمائی، ماحول اور مواقع کی ضرورت ہے۔ یہ رہنمائی اساتذہ، والدین، میڈیا، اور خود طالب علم کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہمارے طالب علم سنجیدہ ہوں، وقت کی قدر کریں، تعلیم کو مقصدِ حیات بنائیں اور مثبت رویہ اختیار کریں تو کوئی شک نہیں کہ وہ خود کو سنوار سکتے ہیں اور پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
موسم سے چھیڑ چھاڑٹیکساس کو لے ڈوبی؟

موسم سے چھیڑ چھاڑٹیکساس کو لے ڈوبی؟

رین میکر کے سی ای او نے موسمی ترمیم کے کردار پر خاموشی توڑ دیامریکی ریاست ٹیکساس کے وسطی علاقوں میں حالیہ دنوں میں آنے والے ہولناک سیلاب نے جہاں سیکڑوں زندگیاں متاثر کیں، وہیں اس قدرتی آفت کے اسباب پر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی اطلاعات اور ایک نجی کمپنی کی کلاؤڈ سیڈنگ کارروائی نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آیا انسان کا موسم میں دخل اندازی کرنا ان تباہ کن نتائج کا باعث تو نہیں بنا؟ سیلاب سے محض دو روز قبل Rainmaker نامی کمپنی نے جس علاقے میں مصنوعی بارش کرنے کی کوشش کی، وہی علاقہ بعد میں شدید طوفان اور پانی کی لپیٹ میں آ گیا اور اب عوامی غصے اور سائنسی وضاحتوں کے درمیان ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے کہ کیا کلاؤڈ سیڈنگ جیسے تجربات واقعی محفوظ ہیں یا نہیں؟4 جولائی کو وسطی ٹیکساس میں اچانک آنے والے سیلاب نے ہلاکتوں کا ایک اندوہناک سلسلہ چھیڑ دیا۔ ایک سمر کیمپ میں موجود کم از کم 27 کم عمر لڑکیاں ہلاک ہو گئیں، جب کہ مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 93 تک پہنچ گئی۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ کیر کائونٹی (Kerr County) کو قرار دیا گیا جہاں سیلاب نے گھروں، سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔اس ہولناک واقعے سے محض دو دن قبل ''رین میکر‘‘ ( Rainmaker) نامی کمپنی نے کیر کائونٹی سے تقریباً 130 میل جنوب مشرق میں 2 جولائی کو کلاؤڈ سیڈنگ کی ایک کارروائی انجام دی تھی۔ اس عمل کے تحت بادلوں میں ''سلور آئیوڈائیڈ‘‘نامی کیمیکل شامل کیا گیا تاکہ بارش کو متحرک کیا جا سکے۔یہ انکشاف سوشل میڈیا پر عوامی غصے اور قیاس آرائیوں کا باعث بن گیا۔ بعض صارفین نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ''رین میکر‘‘ نے جہاں بادلوں پر تجربہ کیا، وہی علاقہ دو دن بعد تاریخ کے بدترین سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا۔ کمپنی کے سی ای او آگسٹس ڈوریکو (Augustus Doricko) پر عوامی غم و غصہ اور قیاس آرائیوں کا دباؤ بڑھا تو انہوں نے امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ ''Rainmaker‘‘ کا اس سیلاب سے کوئی تعلق نہیں،ہمارے ماہر موسمیات نے قومی موسمیاتی سروس کی طرف سے فلیش فلڈ وارننگ جاری ہونے سے ایک دن پہلے ہی اپنی سرگرمیاں احتیاطاً معطل کر دی تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰ کہ کلاؤڈ سیڈنگ منصوبے عام طور پر صرف کروڑوں گیلن بارش پیدا کرتے ہیں، جو سیکڑوں مربع میل کے رقبے پر پھیلی ہوتی ہے۔ یہ مقدار ان کھربوں گیلن کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے جو طوفانی بارشوں کے نتیجے میں پیدا ہوئیں اور سیلاب کا باعث بنیں۔ٹیکساس کے محکمہ برائے لائسنسنگ و ریگولیشن (TDLR) جو ریاست میں کلاؤڈ سیڈنگ کی نگرانی کرتا ہے کے ترجمان نے ڈیلی میل کو تصدیق کی کہ جن بادلوں کو نشانہ بنایا گیا تھا وہ چھوٹے اور تنہا تھے اور 2 جولائی کو شام 4 بجے تک مکمل طور پر تحلیل ہو چکے تھے۔ محکمہ کے ترجمان کے مطابق سائنسی مطالعات سے ظاہر ہوا ہے کہ بہترین صورت حال میں بھی کلاؤڈ سیڈنگ سے بارش میں اوسطاً صرف 10 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔مثالی حالات میں کلاؤڈ سیڈنگ موجود نمی والے بادلوں میں معمولی سے درمیانے درجے تک اضافہ کر سکتی ہے، لیکن یہ شدید طوفان یا سیلاب پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔کمپنی کے سی ای او آگسٹس ڈوریکو نے بھی یہی موقف اختیار کیا اور فاکس نیوز کے میزبان ول کین کو بتایا کہ 2 جولائی کو کمپنی کی کارروائی سے ایک سینٹی میٹر سے بھی کم بارش ہوئی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا رین میکر کی جانب سے بادلوں میں شامل کیا گیا ''سلور آئیوڈائیڈ‘‘طوفان کو طاقتور بنانے کا سبب بن سکتا تھا؟ تو ڈوریکو نے دوٹوک انداز میں کہا:بالکل نہیں، اگر وہ فضا میں باقی بھی رہتا تو بھی نہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ کلاؤڈ سیڈنگ میں استعمال ہونے والے ایروسول (ہوائی ذرات) بارش شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر تحلیل ہو جاتے ہیں۔اگر انہیں کھلی فضا میں چھوڑا جاتا تو وہ کچھ دیر تک باقی رہ سکتے تھے۔لیکن اوّل تو ہم نے انہیں بادلوں میں ڈالا نہ کہ کھلی فضا میں اور دوم جو بھی مقدار باقی رہتی، وہ اگلے چند گھنٹوں یا دنوں میں اتنی منتشر ہو چکی ہوتی کہ اس کا کوئی اثر باقی نہ رہتا۔ ڈوریکو نے مزید کہاکہ اس کی مقدار بہت ہی کم ہوتی، محض پس منظر کی گرد جیسی۔انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں اس معاملے پر ملنے والی بے پناہ توجہ پر وہ حیران نہیں ہیں، کیونکہ مجھے سوالات، الزامات، حتیٰ کہ دھمکیاں تک موصول ہو رہی ہیں۔اگرچہ سوشل میڈیا اور عوامی حلقے کلاؤڈ سیڈنگ پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، لیکن سائنسی شواہد اور ماہرین کی آراء کے مطابق اس طوفان اور سیلاب کا تعلق قدرتی عوامل سے تھا نہ کہ انسان کے تیار کردہ موسمی تجربات سے۔ تاہم یہ واقعہ ایک بار پھر اس بحث کو زندہ کر گیا ہے کہ موسمی ترمیم جیسے سائنسی عمل کس حد تک محفوظ ہیں اور ان پر کتنی سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔ٹیکساس فلیش فلڈنگ کا شکار کیوں ہوا؟ماحولیاتی سائنسدان کین لیپرٹ(Ken Leppert) نے وضاحت کی کلائوڈ سیڈنگ ایسے بادل یا طوفان پیدا نہیں کر سکتی جو پہلے سے موجود ہی نہ ہوں۔جن طوفانوں نے ٹیکساس میں بارش اور سیلاب پیدا کئے، وہ واقعے سے دو دن پہلے موجود ہی نہیں تھے۔ٹیکساس کا ہِل کنٹری علاقہ، جو ریاست کے وسطی حصے میں واقع ہے، وہ فطری طور پر سیلاب (فلیش فلڈنگ) کا شکار رہتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی خشک اور سخت مٹی بارش کو جذب کرنے کے بجائے سطح پر پھسلا دیتی ہے، جس سے پانی تیزی سے بہنے لگتا ہے۔3 جولائی کو دوپہر کے وقت جب سیلاب کا ابتدائی الرٹ جاری کیا گیا، تو اسی رات نیشنل ویدر سروس نے کم از کم 30 ہزار افراد کیلئے ایک ہنگامی وارننگ جاری کی۔4 جولائی کو آنے والے فلیش فلڈز کا آغاز ایک انتہائی شدید طوفان سے ہوا، جس نے زیادہ تر 12 انچ بارش رات کے اندھیرے میں برسا دی۔ مقامی رپورٹس کے مطابق اس قدر زیادہ بارش ہوئی کہ گواڈیلوپ دریا (Guadalupe River ) کی سطح 93 سال میں پہلی بار تقریباً ایک فٹ سے زیادہ بلند ہو گئی۔ 

جیکٹ جو کہیں بھی سلا دے !

جیکٹ جو کہیں بھی سلا دے !

دنیا کی تیز رفتار زندگی، مسلسل کام اور بڑھتا ہوا دباؤ انسانی نیند پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ اگر بات جاپان جیسے ملک کی ہو جہاں ''زیادہ کام اور کم آرام‘‘ ایک معمول بن چکا ہے تو وہاں نیند کی کمی ایک قومی مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ایسے میں جاپانی ڈیزائن فرم ''کونیل‘‘ (KONEL) نے ایک ایسی جدید جیکٹ متعارف کرائی ہے جو روشنی اور موسیقی کی مدد سے انسان کو کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت سکون کی نیند سُلا سکتی ہے۔ یہ جیکٹ بظاہر ایک عام لیکن اوور سائز فر جیکٹ ہے، جو روزمرہ پہنی جا سکتی ہے لیکن اس کی خاص بات اس کا سلیپ موڈ ہے جو صرف ہُڈ چڑھانے سے فعال ہو جاتا ہے۔ جاپانی کمپنی ''کونیل‘‘ کی تیار کردہ جیکٹ پہننے والا شخص محض چند لمحوں میں ایک پرسکون کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ یہ یوگی کمبل سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے جو لباس اور بستر کا امتزاج تھا۔ اس جیکٹ میں جدید ترین سینسر، آڈیو اور لائٹنگ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ جیکٹ کا مقصد ہے کہ پہننے والے کے اردگرد کا ماحول مختصر وقت میں ''نیند کیلئے موزوں‘‘ بنا دیا جائے۔ یہ جیکٹ پہننے والے کی دل کی دھڑکن اور جسمانی درجہ حرارت کی بنیاد پر مخصوص آوازیں اور لائٹنگ پیدا کرتی ہے تاکہ نیند کیلئے موزوں ماحول بن سکے۔ یہ جیکٹ آہستہ آہستہ مخصوص روشنی خارج کرتی ہے جو انسانی دماغ کو پرسکون کرنے میں مدد دیتی ہے، ساتھ ہی سلو میوزک کی مدد سے دماغ کو ریلیکس کر کے سونے میں آسانی فراہم کی جاتی ہے۔ جیکٹ میں لگے سینسر صارف کی نیند اور ذہنی دباؤ کو مسلسل مانیٹر کرتے ہیں۔ اگر دباؤ کم نہ ہو تو سسٹم ازخود زیادہ مؤثر آوازیں پیدا کرتا ہے تاکہ نیند میں مدد ملے۔ اس کی اندرونی ساخت کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ پہننے والے کو گرمائش اور جسمانی سکون بھی فراہم کرے۔یہ جیکٹ اس امر کی غماز ہے کہ جدید دور میں جہاں مسائل بڑھ رہے ہیں، وہاں ان کے حل بھی تکنیکی نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ جاپان جیسا ملک جو روبوٹ، آٹومیشن اور ڈیزائننگ میں عالمی سطح پر نمایاں ہے، اب نیند جیسے ذاتی مسئلے کو بھی اختراعی انداز میں حل کر رہا ہے۔یہ جیکٹ صرف جاپان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں نیند کی کمی کے شکار افراد کیلئے بھی کارآمد ہو سکتی ہے۔ دفتری ملازمین، مسافر، طلباء اور یہاں تک کہ گھریلو خواتین بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ ایجاد تجارتی سطح پر کامیاب ہو گئی تو مستقبل میں ''سلیپ ویئر‘‘ ایک نئی صنعت کے طور پر ابھر سکتی ہے، جس میں کپڑے صرف جسم ڈھانپنے کیلئے نہیں بلکہ انسانی ذہن کو آرام دینے کیلئے بھی استعمال ہوں گے۔یہ جیکٹ فی الحال ایک تصوراتی نمونہ ہے جسے ''ایکسپو 2025ء‘‘ اوساکا میں 24 جون سے 7 جولائی تک نمائش کیلئے رکھا گیا، جہاں لوگوں نے اس کی آزمائش بھی کی۔جاپانی فرم کونیل کی تیار کردہ یہ جیکٹ محض ایک ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ایک معاشرتی ضرورت کا عملی جواب بھی ہے۔ نیند کی کمی جیسے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر ایسی ایجادات انسان کو ذہنی سکون اور جسمانی آرام دے سکیں تو یہ نہ صرف صحت بلکہ پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ کون جانتا ہے، آنے والے وقت میں شاید ہر تھکے ہارے انسان کی الماری میں ایسی جیکٹ موجود ہو، جو ایک بٹن دبانے سے سُلا دے!نیند کی کمی، جاپانی معاشرے کا بڑا مسئلہجاپان نیند کی کمی کا شکار دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے ایک رپورٹ کے مطابق جاپانی افراد یورپی ممالک کے مقابلے میں روزانہ ڈیڑھ گھنٹہ کم سوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو سالانہ تقریباً ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں ملازمین اوسطاً 6 گھنٹے سے بھی کم سوتے ہیں۔ یہاں ''کاروشی‘‘ یعنی زیادہ کام کی وجہ سے موت جیسا لفظ لغت کا حصہ بن چکا ہے۔ نیند کی شدید کمی دماغی دباؤ، جسمانی تھکن اور کارکردگی میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ دفاتر، ریلوے اسٹیشنز اور کیفے میں نیند لینے والے افراد اب جاپان کا عام منظر بن چکے ہیں۔ اس پس منظر میں نیند کیلئے مخصوص جیکٹ کی ایجاد وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔ 

مستقبل کا گرین انقلاب!

مستقبل کا گرین انقلاب!

آج جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں کہ انہیں کس ہنر پر توجہ دینی چاہیے، تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج سے محض پانچ سال بعد پاکستان میں سب سے زیادہ مانگ ''گرین انرجی‘‘ (Green Energy) کی ہو گی۔ اس سے جڑی ایک بڑی انڈسٹری تشکیل پائے گی، جس میں اگر آپ آج کسی ایک شعبے پر مہارت حاصل کر لیں تو مستقبل میں آپ کی کامیابی یقینی ہے۔یہ تحقیق کسی خیالی تصور پر مبنی نہیں بلکہ حالیہ حکومتی پالیسیوں، سرمایہ کاری کے عالمی رجحانات اور عالمی منڈی کی ضروریات پر گہری نظر کے بعد کی گئی ہے۔ 2030ء کے بعد پاکستان میں سب سے منافع بخش اور تیزی سے ترقی کرنے والا کاروبار ''Renewable Energy & Mobility Value Chain‘‘ ہو گا۔ اس میں شمسی توانائی، بیٹری اسٹوریج، برقی گاڑیوں (خصوصاً موٹر سائیکل اور رکشے) کی مقامی تیاری، فنانسنگ اور چارجنگ نیٹ ورکس جیسے شعبے شامل ہیں۔یہ شعبہ کیوں سب سے آگے ہو گا؟ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، قومی سطح پر حکومت کی یہ حکمت عملی ہے کہ 2030ء تک ملک میں بجلی کا 60 فیصد حصہ قابلِ تجدید ذرائع (Renewables) سے حاصل کیا جائے گا اور نئی گاڑیوں کا 30 فیصد حصہ برقی ہو گا۔ اس کے علاوہ حکومت نے درآمدی ڈیوٹی میں کمی، سبسڈی اسکیمیں اور 100 ارب روپے کا ای وی فنڈ متعارف کروا کر اس شعبے کو نئی سمت عطا کی ہے۔ دوسری طرف، سولر ماڈیولز کی درآمد میں پچھلے برسوں کی نسبت پانچ گنا اضافہ ہوا ہے اور شہروں میں فیول کی قیمتوں اور فضائی آلودگی میں اضافے نے شہریوں کو برقی گاڑیوں کی جانب متوجہ کیا ہے۔ورلڈ بینک کی جانب سے 20 بلین ڈالر کے تعاون سے جاری CPF پروگرام، سی پیک کا دوسرا مرحلہ اور اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل (SIFC) کے ذریعے قائم کیے جانے والے گرین انڈسٹریل زونز اس بات کی دلیل ہیں کہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لی آئن بیٹریز کی قیمتوں میں واضح کمی اور نیٹ میٹرنگ جیسے ماڈلز کی بدولت اب شمسی توانائی کے نظام گھریلو اور کاروباری طبقے کیلئے مزید قابلِ حصول ہو چکے ہیں۔مزید برآں، اگر ہم مقامی صنعت کے تیار کردہ سولر پینلز، بیٹری پیک اور الیکٹرک گاڑیوں کے پرزہ جات کو سی پیک لاجسٹک روٹس کے ذریعے برآمد کریں تو ہمیں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی بڑی منڈیوں میں قدم جمانے کا موقع مل سکتا ہے۔عملی طور پر کئی کاروباری ماڈلز نوجوانوں کیلئے بہترین مواقع پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ''روف ٹاپ سولر اسٹوریج‘‘ ماڈل کے تحت آپ شمسی توانائی کے نظام نصب کر کے صارفین کو بجلی بطور خدمت فراہم کر سکتے ہیں، جس میں وہ صرف استعمال شدہ یونٹ کا بل ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح، چینی سیلز درآمد کر کے مقامی سطح پر بیٹری پیک تیار کرنے اور برقی گاڑیوں کی فوری بیٹری سویپنگ جیسی خدمات فراہم کرنے سے نہ صرف مقامی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے بلکہ ملازمتوں کے بھی نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ برقی موٹر سائیکلوں کی تیاری میں پاور ٹرین، موٹر کنٹرولرز اور IOT ٹریکنگ جیسے اجزاء شامل کر کے معیاری اور کم خرچ مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں۔ اسپیشل اکنامک زونز میں ''گرین حبز‘‘ قائم کیے جائیں، جہاں صنعتوں کو شمسی، ونڈ اور بیٹری اسٹوریج کے ذریعے 24/7 بجلی مہیا کی جا سکے، تو یہ علاقائی ترقی اور برآمدات کا نیا باب کھول سکتا ہے۔اس میدان میں مسابقتی برتری حاصل کرنے کیلئے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے، فِن ٹیک کے ساتھ انضمام کی اشد ضرورت ہے، جس کے ذریعے سستی قسطوں پر فنانسنگ، موبائل والٹ بلنگ اور شریعت کے مطابق لیزنگ سروسز فراہم کی جا سکیں۔ اسٹیٹ بینک کے ڈیجیٹل بینکنگ وژن کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ سہولت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ مقامی سپلائی چین کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے۔ کاپر اور لیتھیم کی ری سائیکلنگ، سولر گلاس کی مقامی تیاری اور PCSIR جیسے تحقیقی اداروں کی مدد سے بیٹری کی مقامی تحقیق و ترقی کے ذریعے ہم درآمدی انحصار کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، آفٹر سیلز سروس کا مؤثر نیٹ ورک قائم کیا جائے، جو آن سائٹ سروس اور وارنٹی کلیمز کی فوری تکمیل کو یقینی بنائے۔ سب سے بڑھ کر گرین سرٹیفیکیشن کا حصول آپ کو نہ صرف مقامی سطح پر سبقت دے گا بلکہ عالمی منڈی میں سستے گرین بانڈز اور کاربن کریڈٹس کی برآمد کے مواقع بھی میسر آئیں گے ۔اگرچہ گرین انرجی اور برقی نقل و حمل کا شعبہ مستقبل میں مرکزی حیثیت اختیار کرے گا، تاہم چند دیگر ابھرتے ہوئے شعبے بھی اپنی جگہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسے کہ ڈیجیٹل خدمات اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا شعبہ، جو آنے والے سالوں میں پاکستان کی IT ایکسپورٹ کو 15 سے 20 فیصد سالانہ ترقی دے سکتا ہے۔ اسی طرح ایگری ٹیک اور ورٹیکل فارمنگ جیسے ماڈلز، خاص طور پر چاول و کپاس کی پیداوار میںIoT اور ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال پاکستان کی زرعی برآمدات میں مدد دے سکتے ہیں۔ فارماسیوٹیکل اور بائیوٹیکنالوجی کا شعبہ بھی متحرک ہے، جہاں API کی مقامی تیاری، حلال فارما مصنوعات، اور ویکسین کی تیاری سے درآمدات پر انحصار کم ہو گا اور5 بلین ڈالر تک کی برآمدات ممکن ہو سکیں گی۔آخر میں لازمی لاجسٹکس اور کوئیک کامرس جیسے ماڈلز، جہاں 30 منٹ میں آرڈر کی ترسیل کا ہدف ہو، مستقبل کی ای کامرس معیشت میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔ یقیناً یہ تمام شعبے مستقبل میں مضبوط رہیں گے، مگر گرین انرجی برقی موبیلیٹی سب سے جامع اور پائیدار ٹریلین روپے کا ایکو سسٹم تشکیل دے گا، جس میں توانائی، ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ، فنانسنگ اور ڈیجیٹل سروسز جیسے بڑے شعبے ایک دوسرے سے جڑ جائینگے۔ اگر آپ ابھی سے R&D، ٹیلنٹ اور پارٹنرشپ میں سرمایہ کاری شروع کر دیں تو 2030ء کے بعد کا سماجی و مالی فائدہ یقینی طور پر آپ ہی کو حاصل ہوگا۔ 

طنزو مزاح:پیاری ڈ کا ر!

طنزو مزاح:پیاری ڈ کا ر!

کونسل کی ممبری نہیں چاہتا، قوم کی لیڈری نہیں مانگتا، میں تو صرف ایک''ڈکار‘‘ طلب کرتا ہوں۔ چاہتا یہ ہوں کہ اپنے طوفانی پیٹ کے بادلوں کوحلق میں بلاؤں اور پوری گرج کے ساتھ باہر برساؤں۔ یعنی کڑاکے دار ڈکار لوں۔ پرکیا کروں یہ نئے فیشن والے مجھ کو زور سے ڈکارلینے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ڈکار آنے لگے تو ہونٹوں کو بھیچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اسے چپ چاپ اڑا دو۔ آوازسے ڈکار لینی بڑی بے تہذیبی ہے۔ مجھے یاد ہے یہ جیمس لا ٹوش،کالج میں مہمان تھے۔ رات کے کھانے میں مجھ جیسے ایک گنوار نے زور سے ڈکار لے لی۔ سب جنٹلمین اس بیچارے دہقان کو نفرت سے دیکھنے لگے، برابر ایک شوخ و طرار فیشن ایبل تشریف فرما تھے۔ انہوں نے نظر حقارت سے ایک قدم اورآگے بڑھا دیا۔ جیب سے گھڑی نکالی اوراس کو بغور دیکھنے لگے۔ غریب ڈکاری پہلے ہی گھبرا گیا تھا۔ مجمع کی حالت میں متاثر ہو رہا تھا۔ برابرمیں گھڑی دیکھی گئی تو اس نے بے اختیار ہوکرسوال کیا جناب کیا وقت ہے۔ شریر فیشن پرست بولا گھڑی شاید غلط ہے، اس میں نو بجے ہیں مگر وقت بارہ بجے کا ہے کیونکہ ابھی توپ کی آواز آئی تھی۔ بیچارہ ڈکارلینے والا سن کر پانی پانی ہوگیا کہ اس کی ڈکارکو توپ سے تشبیہ دی گئی۔ اس زمانہ میں لوگوں کو سیلف گورنمنٹ کی خواہش ہے۔ اہل وطن کوعام مفلسی کی شکایت ہے۔ میں تو نہ وہ چاہتا ہوں۔ نہ اس کا شکوہ کرتا ہوں۔ مجھ کو توسرکار سے صرف آزاد ڈکار کی آرزو ہے۔ میں اس سے ادب سے مانگوں گا، خوشامد سے مانگوں گا، جدوجہد کروں گا۔ ایجی ٹیشن مچاؤں گا۔ پرزور تقریریں کروں گا۔کونسل میں جاکر سوالوں کی بوچھار سے آنریبل ممبروں کا دم ناک میں کردوں گا۔ لوگو! میں نے تو بہت کوشش کی کہ چپکے سے ڈکار لینے کی عادت ہوجائے۔ ایک دن سوڈا واٹر پی کر اس بھونچال ڈکارکو ناک سے نکالنا بھی چاہتا تھا مگر کم بخت دماغ میں الجھ کررہ گئی۔ آنکھوں سے پانی نکلنے لگا اور بڑی دیر تک کچھ سانس رکا رکا سا رہا۔ ذرا تو انصاف کرو۔ میرے ابّا ڈکار زورسے لیتے تھے۔ میری اماں کو بھی یہی عادت تھی۔ میں نے نئی دنیا کی ہم نشینی سے پہلے ہمیشہ زور ہی سے ڈکار لی۔ اب اس عادت کو کیونکر بدلوں۔ ڈکار آتی ہے تو پیٹ پکڑلیتا ہوں۔ آنکھیں مچکا مچکا کے زور لگاتا ہوں کہ موذی ناک میں آجائے اور گونگی بن کر نکل جائے۔ مگرایسی بدذات ہے۔ نہیں مانتی۔ حلق کو کھرچتی ہوئی منہ میں گھس آتی ہے اور ڈنکا بجا کر باہر نکلتی ہے۔ کیوں بھائیو!تم میں سے کون کون میری حمایت کرے گا اور نئی روشنی کی فیشن ایبل سوسائٹی سے مجھ کو اس اکسٹریمسٹ حرکت کی اجازت دلوائے گا۔ خلقت تو مجھ کو ''حزب الاحرار‘‘ یعنی گرم پارٹی میں تصور کرتی ہے اور میرا یہ حال ہے کہ اپنی گرم ڈکار تک کو گرما گرمی اور آزادی سے کام میں نہیں لاسکتا۔ ٹھنڈی کرکے نکالنے پرمجبورہوں۔ ہائے میں پچھلے زمانہ میں کیوں نہ پیدا ہوا۔ خوب بے فکری سے ڈکاریں لیتا۔ ایسے وقت میں جنم ہوا ہے کہ بات بات پر فیشن کی مہر لگی ہوئی ہے۔تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں ماش کی دال کھانے والے یتیموں میں شامل ہو جاؤں گا کیسے خوش قسمت لوگ ہیں۔ دکانوں پر بیٹھے ڈکاریں لیا کرتے ہیں۔ اپنا اپنا نصیبا ہے۔ ہم ترستے ہیں اور وہ نہایت مصرفانہ انداز میں ڈکاروں کو برابر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ پیاری ڈکار میں کہاں تک لکھے جاؤں۔ لکھنے سے کچھ حاصل نہیں، صبر بڑی چیز ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

پلوٹو کا پہلا قریبی مشاہدہ14 جولائی 2015ء کو امریکی خلائی ادارے ناسا کے مشن نیو ہورائزنز نے پلوٹو کے قریب سے گزر کر اس سیارچے کا پہلا قریبی مشاہدہ مکمل کیا۔ یہ خلائی جہاز 2006ء میں ناسا کے نیو فرنٹیئرز پروگرام کے تحت لانچ کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد پلوٹو اور اس کے گرد موجود اجسام کا فلائی بائی (قریب سے گزر کر مشاہدہ) مطالعہ کرنا تھا۔ نیو ہورائزنز نے پلوٹو کی سطح، اس کے چاندوں اور فضا سے متعلق ایسی شاندار تصاویر اور سائنسی ڈیٹا زمین پر بھیجا، جنہوں نے سائنس دانوں کے تصورات کو وسعت دی اور پلوٹو کو ایک متحرک اور پیچیدہ دنیا کے طور پر پیش کیا۔ڈائنا مائٹ کا پہلی بار مظاہرہ14 جولائی 1867ء کو سویڈن کے مشہور کیمیا دان اور انجینئر الفریڈ نوبیل نے پہلی بار اپنی ایجاد ڈائنامائٹ کا عملی مظاہرہ کیا، جس نے دنیا میں تعمیرات، کان کنی اور جنگی سازوسامان کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ نوبیل نہ صرف کیمیا کے ماہر تھے بلکہ انہوں نے بوفوس اسٹیل مل خرید کر اسے سویڈن کی جنگی صنعت کا اہم ستون بنا دیا۔ ان کی جنگی ایجادات کے باعث دنیا میں ہونے والی تباہی نے انہیں بے چین رکھا، جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ نوبیل انعامات کے قیام کیلئے وقف کر دیا، تاکہ انسانیت کی فلاح کیلئے کام کرنے والے افراد کو ہر سال عزت و اعزاز سے نوازا جا سکے۔عراقی فوجی بغاوت14 جولائی 1958ء کو عراق میں ایک فوجی بغاوت برپا ہوئی جسے تاریخ میں ''14 جولائی کا انقلاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بغاوت کی قیادت بریگیڈیئر عبدالکریم قاسم نے کی، جس کے نتیجے میں عراق کے بادشاہ فیصل دوم کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔شاہ فیصل دوم، ولی عہد عبد الالٰہی اور وزیراعظم نوری السعید کو قتل کر دیا گیا۔ بغداد ریڈیو پر بغاوت کا اعلان ہوا اور عراقی جمہوریہ کے قیام کی خبر دی گئی۔ اس انقلاب نے عراق اور اردن کے درمیان قائم ہاشمی عرب فیڈریشن کو بھی تحلیل کر دیا، جو صرف چھ ماہ قبل قائم ہوئی تھی۔ یہ واقعہ نہ صرف عراق کی داخلی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں شاہی حکومتوں کے زوال کی ایک علامت بھی بن گیا۔فرانس میں دہشت گردی14 جولائی 2016ء کو فرانس کے ساحلی شہر نیس میں آزادی کے قومی دن بیسٹائل ڈے کی تقریبات اس وقت قیامت میں تبدیل ہو گئیں جب ایک 19 ٹن وزنی کارگو ٹرک جشن مناتے شہریوں کے ہجوم پر چڑھا دیا گیا۔ حملے میں 86 افراد ہلاک اور 434 سے زائد زخمی ہو گئے۔ مرنے والوں میں خواتین، بچے اور سیاح شامل تھے۔ٹرک ڈرائیور کا تعلق تیونس سے تھا جو فرانس میں مقیم تھا۔ اس نے ٹرک کو تقریباً دو کلومیٹر تک ہجوم پر دوڑایا۔ بعد ازاں، پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آور مارا گیا۔یہ واقعہ فرانس کی تاریخ میں دہشت گردی کے بدترین سانحے کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔  

 لیگولینڈ: تھیم پارک ایمپائر

لیگولینڈ: تھیم پارک ایمپائر

''لیگو‘‘ (LEGO) نہ صرف دنیا کا مقبول ترین کھلونا ہے بلکہ اس نے ایک مکمل ''تھیم پارک ایمپائر‘‘بھی قائم کر رکھی ہے، جسے ''لیگولینڈ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ LEGO گروپ نے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور خاندانوں کیلئے مشترکہ تفریح کے تصور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مختلف ممالک میں لیگولینڈ تھیم پارکس قائم کیے ہیں۔ یہ پارکس نہ صرف کھلونوں کی دنیا کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں بلکہ تعلیم، تفریح اور انجینئرنگ کا حسین امتزاج بھی ہیں۔ ان پارکس کا مقصد بچوں اور خاندانوں کو نہ صرف تفریح فراہم کرنا ہے بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی فروغ دینا ہے۔سب سے پہلے گزشتہ ہفتے عوام کیلئے کھولے جانے والے گیارہویں لیگو لینڈ کی کریں گے جو چین کے شہر شنگھائی میں تیار کیا گیا ہے، اس کے بعد دنیا میں پائے جانے والے دیگر 10 لیگو لینڈز کی مختصراً بات کر یں گے۔ لیگولینڈ شنگھائی ریزورٹلیگولینڈ شنگھائی ریزورٹ 3لاکھ18 ہزار مربع میٹر (تقریباً 31 ایکڑ) کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دنیا بھر میں گیارہواں اور سب سے بڑا لیگولینڈ ریزورٹ ہے۔افتتاحی تقریب میں چینی حکام، LEGO گروپ کے نمائندے اور عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس موقع پر مختلف رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ ریزورٹ کے گیٹ کھلتے ہی ہزاروں افراد نے اندر کا رخ کیا اور LEGO کی دنیا میں کھو گئے۔لیگو لینڈ شنگھائی ریزورٹ میں متعدد تھیم زونز، انٹرایکٹو گیمز، LEGO سے بنی ہوئی مشہور عمارات اور بچوں کیلئے مخصوص رولر کوسٹرز ہیں۔ پارک میں بچوں کی تفریح کیلئے مختلف شعبے بنائے گئے ہیں۔''لیگو سٹی‘‘نامی حصے میں بچے خود پائلٹ، فائرفائٹر یا پولیس آفیسر بن سکتے ہیں۔ ''منی لینڈ‘‘ میں LEGO بلاکس سے چین کی مشہور عمارتیں مثلاً دیوارِ چین، بیجنگ کا فوربڈن سٹی اور شنگھائی کا اسکائی لائن بنایا گیا ہے۔ ''زون ایڈونچر‘‘ میں ایڈونچر اور مہم جوئی کے شوقین بچے اور بڑے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔''لیگو فرینڈز‘‘ میں بچوں کو کہانیوں پر مبنی مشن اور چیلنجز ملتے ہیں۔''لیگو ہوٹل‘‘کے کمروں کی سجاوٹ مکمل طور پر لیگو تھیم پر مبنی ہے۔شنگھائی میں لیگولینڈ ریزورٹ کا قیام چین کی سیاحتی صنعت کیلئے ایک اہم سنگِ میل سمجھا جا رہا ہے۔ ملک میں سیاحت کو مزید فروغ دینے کیلئے یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ریزورٹ سے نہ صرف مقامی معیشت کو سہارا ملے گا بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔''لیگولینڈ بلنڈ‘‘ ،ڈنمارکدنیا میں پائے جانے والے لیگولینڈ تھیم پارکس دنیا میں پائے جانے والے دیگر 10 لیگو لینڈز کی مختصراً بات کر تے ہیں۔لیگولینڈ بلڈنگ، ڈنمارکدنیا کا پہلا لیگولینڈ پارک 1968ء میں LEGO کے آبائی وطن ڈنمارک کے شہر بلنڈ میں قائم ہوا۔ ''لیگو لینڈ بلنڈ‘‘ (LEGOLAND Billund) کا شعبہ ''منی لینڈ‘‘ سب سے مشہور مقام ہے، جہاں یورپی شہروں کی مشہور عمارات LEGO سے بنائی گئی ہیں۔لیگولینڈ کیلیفورنیا، امریکہیہ پہلا امریکی لیگولینڈ پارک ہے، جس میں ''لیگو تھیم‘‘ واٹر پارک اور سی لائف ایکویریم بھی شامل ہیں۔کیلیفورنیا میں واقع اس پارک کا افتتاح 1999ء میں کیا گیا تھا۔لیگولینڈ فلوریڈا ،امریکہیہ پارک ایک سابقہ تھیم پارک ''سائپریس گارڈنز‘‘ (Cypress Gardens)کی جگہ قائم کیا گیا اور اب یہ لیگولینڈ کی بڑی سائٹس میں سے ایک ہے۔ یہ 2011ء میں عوام کیلئے کھولا گیا تھا۔لیگولینڈ ونڈسر ، برطانیہلندن کے قریب ونڈسر کے مقام پر اس پارک کا افتتاح 1996ء میں کیا گیا تھا۔ یہ یورپ میں دوسرا لیگولینڈ پارک تھا اور برطانیہ میں بچوں کیلئے سب سے زیادہ وزٹ کیے جانے والے مقامات میں شامل ہے۔لیگولینڈ جرمنی جرمنی کے وسط میں واقع گنزبرگ (Günzburg) کے مقام پر یہ پارک 2002ء میں قائم کیا گیا۔ اس پارک کے شعبے ''منی لینڈ‘‘ میں یورپ کی مشہور عمارتوں کے LEGO ماڈلز تیار کئے گئے ہیں۔لیگولینڈ ملائیشیایہ پہلا لیگولینڈ پارک ہے جو ایشیا میں کھولا گیا۔ یہاں LEGO واٹر پارک اور ہوٹل بھی موجود ہے۔ملائیشیا میں یہ جوہور بہرو (Johor Bahru) کے مقام پر 2012ء میں قائم کیا گیا۔لیگولینڈ دبئیلیگو لینڈ نے اپنا ساتواں پارک 2016ء میں متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں کھولا۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کا پہلا لیگولینڈ پارک تھا۔ اس پارک میں گرمی کے باعث ان ڈور ایکٹیویٹیز پر خاص توجہ دی گئی ہے۔لیگولینڈ جاپان جاپان میں لیگو مصنوعات کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 2017ء میں اس پارک کی تعمیر کی گئی۔ یہاں بھی ''لیگو تھیمڈ‘‘ ہوٹل موجود ہے۔ لیگولینڈ نیویارک، امریکہ2021ء میں بننے والا یہ امریکہ میں سب سے بڑا لیگولینڈ پارک ہے، جو شمال مشرقی امریکہ کے بچوں کیلئے ایک اہم تفریحی مرکز ہے۔لیگولینڈ ساؤتھ کوریا10واں لیگولینڈ پارک جنوبی کوریا میں بنایا گیا۔ 2022ء میں اس پارک کا افتتاح کیا گیا جو ایک جزیرے پر قائم کیا گیا تھا۔یہ اپنی منفرد ساخت اور قدرتی مناظر کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔مستقبل کے پراجیکٹسLEGO گروپ دنیا کے مختلف خطوں میں نئے پارکس کے قیام پر غور کر رہا ہے، جن میں بھارت، روس، اور برازیل جیسے ممالک شامل ہو سکتے ہیں۔لیگولینڈ پارکس صرف تفریحی مقامات نہیں بلکہ بچوں کی تخلیقی تربیت، خاندانوں کی اجتماعی مصروفیت اور ٹیکنالوجی و انجینئرنگ کی عملی جھلک پیش کرنے والے تعلیمی مراکز بھی ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ان پارکس نے LEGO برانڈ کو عالمی ثقافت کا حصہ بنا دیا ہے، اور یہ سفر ابھی جاری ہے۔