AI کی دوڑ دنیا دو حصوں میں تقسیم
اسپیشل فیچر
جدید دنیا میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کے میدان میں ہونے والی حیرت انگیز پیش رفت نے جہاں ترقی یافتہ ممالک کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے، وہیں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ آج کی دنیا ایک ایسی دوڑ میں مصروف ہے جس میں صرف وہی کامیاب ہو سکتا ہے جس کے پاس وسائل، تحقیقاتی ادارے اور ٹیکنالوجی تک رسائی ہو۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) اب محض سائنسی تحقیق کا شعبہ نہیں رہا بلکہ یہ عالمی معیشت، قومی سلامتی، تعلیم، طب، زراعت اور صنعت کیلئے ایک فیصلہ کن عنصر بن چکا ہے۔ امریکہ، چین، برطانیہ اور چند دیگر ممالک AI کی ترقی میں سب سے آگے ہیں، جہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ ان ممالک کے پاس وہ تعلیمی ادارے، ڈیٹا سینٹرز، ماہرین اور جدید ترین کمپیوٹرز موجود ہیں جو اس ترقی کو ممکن بناتے ہیں۔
دوسری جانب افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے متعدد ممالک ابھی تک بنیادی انفرا سٹرکچر، انٹرنیٹ کی سہولت اور جدید تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ ان کے پاس نہ تو وہ مالی وسائل ہیں، نہ تحقیق و ترقی کی گنجائش اور نہ ہی ٹیکنالوجی کی منتقلی کا کوئی مؤثر نظام۔ نتیجتاً یہ ممالک AI کے اس انقلاب سے کٹتے جا رہے ہیں اور ان کیلئے عالمی معیشت میں مقابلہ کرنا مزید مشکل ہو رہا ہے۔
AI کی ترقی نے ''ڈیجیٹل تفریق‘‘ (Digital Devide) کو مزید بڑھا دیا ہے۔ جن ممالک میں AI پر مبنی خودکار نظام رائج ہو چکے ہیں، وہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور قومی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر غریب ممالک میں نہ صرف روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں بلکہ انسانی محنت پر انحصار کرنے والی معیشتیں بحران کا شکار ہو رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، تعلیم، صحت، زراعت اور قدرتی آفات سے نمٹنے جیسے شعبوں میں بھی AI کی کمی ترقی پذیر دنیا کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مثلاً AI کی مدد سے زرعی پیداوار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، مگر پاکستان جیسے ملکوں میں اب بھی روایتی طریقوں پر انحصار ہے۔
یہ وقت ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور ترقی یافتہ ممالک AI کی مساوی تقسیم کے لیے پالیسیاں مرتب کریں۔ ''ٹیکنالوجی ٹرانسفر‘‘، ''ڈیجیٹل ایجوکیشن‘‘ اور''اوپن سورس AI سسٹمز‘‘ جیسے اقدامات کے ذریعے ترقی پذیر دنیا کو اس دوڑ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، ترقی پذیر ممالک کو خود بھی اپنی پالیسیوں میں ٹیکنالوجی کو ترجیح دینی ہو گی۔ نجی شعبے اور تعلیمی اداروں کو AI ریسرچ میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر خود کو ثابت کر سکیں۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا صرف ٹیکنالوجی سے محرومی نہیں بلکہ آنے والے وقت میں سیاسی، سماجی اور معاشی پسپائی کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر دنیا کو ایک متوازن، منصفانہ اور ترقی یافتہ عالمی نظام کی طرف لے جانا ہے تو AI کی رسائی سب کیلئے یقینی بنانا ہو گی، ورنہ دنیا مزید تقسیم ہو جائے گی۔ ایک جانب وہ ممالک ہوں گے جن کے پاس ٹیکنالوجی کی طاقت ہو گی اور دوسری جانب وہ جو صرف اس کے نتائج بھگتیں گے۔