دلچسپ اور عجیب و غریب ’’بد شگونیاں‘‘

اسپیشل فیچر
بدشگونی بنیادی طور پر جہالت اور عقیدے کی کمزوری سے جنم لیتی ہے۔ بدشگونیوں سے انسان کا ساتھ جنم جنم سے چلا آ رہا ہے جبکہ ہمارے مذہب اسلام میں تو بدشگونی کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بدشگونی نہ صرف غیر مہذب ملکوں میںپروان چڑھتی ہے بلکہ بیشتر جدید اور مہذب ریاستیں بھی اس کا شکار ہو چکی ہیں۔ بعض اوقات تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مغرب ، دنیا کے بیشتر دیگر خطوں سے کہیں زیادہ بدشگونیوں کا غلام بنتا جا رہا ہے۔
اگر بدشگونی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔سب سے پرانی بدشگونی کا سراغ تاریخ کی کتابوں میں 44 قبل مسیح میں روم سے ملتا ہے۔جب جولیس سیزر کی بیوی کالپرنیا نے رات کو خواب میں اپنے خاوند کو خون میں لت پت دیکھا۔ اگلے روز صبح اس نے جولیس کو سینٹ جانے سے روکا لیکن جولیس نہ رکا اور اسی روز جولیس قتل کردیا گیا تھا۔
کہتے ہیں امریکی صدر ابراہم لنکن نے اپنے قتل سے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ وائٹ ہاوس میں ایک جنازہ رکھا ہوا ہے ، جب اس نے دریافت کیا کہ یہ کس کا جنازہ ہے ، تو اسے جواب ملا کہ ''صدر کا‘‘۔تین دن بعد وہ ولکس بوتھ کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا تھا۔
زمانۂ قدیم ہی میں افریقی قبائل کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر اچانک کسی شخص کے سامنے دائیں جانب اڑتا پرندہ گزر جائے تو یہ خوش بختی کی علامت اور اگر پرندہ بائیں جانب اڑتا گزر جائے تو یہ بدبختی کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔
روم کے شہنشاہ آگستس کے بارے منقول ہے کہ وہ کوئی بھی بڑا کام کرنے سے پہلے آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھا کرتے تھے۔اگر پرندے سیدھی لائن میں محو پرواز ہوتے تو وہ کام کرتے ، بصورت دیگر وہ کام ملتوی کر دیا کرتے تھے۔
1923ء میں جاپان کی داستانوں میں ایک کسان کا ذکر ملتا ہے جس نے ایک رات خواب دیکھا کہ زمین بری طرح ہچکولے لے رہی ہے اور سمندر بے قابو ہوا چاہتا ہے۔اس نے اگلے روز گاؤں والوں کو اپنا خواب سنایا تو لوگ ہنس پڑے ، پھر چند روز کے بعد ایک بہت بڑا زلزلہ آیا ، ہزاروں لوگ ہلاک ہو گئے جبکہ اس کے بعد اس کسان کو منحوس تصور کیا جانے لگا۔
1922ء میں ہاورڈ کارٹر نامی ایک ماہر آثار قدیمہ کا ذکر ملتا ہے جس نے فرعون مصر توت عنج آمون کی قبر دریافت کر کے کھدائی کرائی تھی۔ کہتے ہیں اس کے چند دن بعد ملک میں ایک مہلک وبا پھوٹ پڑی تھی، جس سے سینکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ایک عرصہ تک لوگ اسے '' فرعون کی بد دعا‘‘ سے تعبیر کرتے رہے تھے۔
فلپائن کے دیہی علاقوں میں آج بھی اگر کوئی اجنبی کسی بچے کو گھور لے اور وہ بچہ اتفاق سے بیمار ہو جائے تو اسے ''اسوگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جب تک وہ اجنبی شخص اس بچے کے ماتھے پر تھوکے گا نہیں بچہ ٹھیک نہیں ہو گا۔
نیپال میں آج بھی لوگ کوہ ہمالیہ پر چڑھنے والے عزیز و اقارب کیلئے پہاڑی دیوتا سے ہاتھ جوڑ کر مدد مانگتے ہیں اور اسے خوش کرنے کیلئے چڑھاوے چڑھاتے ہیں تاکہ وہ ان کے پیاروں کی مدد کرے۔
مصر کے فرعونی دور میں رات کے وقت الو کی آواز کو موت یا بدروح کی آمد کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ گھر میں بدروحوں کو بھگانے کیلئے فوراً موم بتیاں یا دئیے روشن کر دئیے جاتے تھے۔ زمانۂ قدیم میں جنوبی امریکہ کے ازتیک اور ان کا قبائل میں آئینہ ٹوٹنے کو '' روح کے ٹوٹنے ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اس لئے فوری طور پر اس ٹوٹے آئینے کو جلا دیا جاتا تھا تاکہ روح کہیں بھٹک نہ جائے۔
انڈونیشیا میں صدیوں سے خوشبودار چاولوں سے بنا ایک پکوان '' ناسی کوننگ‘‘ ان خاص مواقع پر بنایا جاتا ہے جب کوئی اپنے نئے گھر میں منتقل ہو رہا ہوتا ہے یا کوئی شخص اپنا نیا کاروبار شروع کرتا ہے ، اس کے پس پردہ عقیدہ یہ ہے کہ ان چاولوں کی خوشبو سے گھر اور کاروبار میں برکت آئے گی۔انڈونیشیا ہی میں ''ناسی تمپنگ‘‘ سبزی، گوشت اور چاولوں سے بنی اس ڈش کو بنانے سے گھر میں دولت آنے کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔
مغربی دنیا میں 13 کے ہندسے کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔بعض اچھے بھلے مہذب ملکوں کے ہوٹلوں میں 13 نمبر کمرہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح بعض عمارتوں میں تیرہویں منزل بھی نہیں ہوتی۔کالی بلی راستہ کاٹ لے تو دنیا کے بیشتر ممالک میں اسے بدشگونی سمجھا جاتا ہے جبکہ مصر میں کالی بلی کو مقدس سمجھا جاتا ہے لیکن یورپ کے بیشتر مقامات پر کالی بلی کو جادوگری سے جوڑا جاتا ہے۔
کچھ علاقوں میں کسی اہم کام کے دوران اگر چھینک آجائے تو لوگ بدشگونی کے طور پر اپنا ارادہ بدل لیتے ہیں۔ بعض علاقوں میں کالی تتلی کے گھر میں آجانے کو کسی پیارے کی موت کی خبر سے جوڑا جاتا ہے۔ افریقی قبائل میں اگر صبح سویرے مکڑی نظر آجائے تو اسے ایک برے دن کی شروعات کے طور پر جانا جاتا ہے ، لیکن کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں مکڑی نظر آنے کو دولت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں بھی ہمارا بدشگونیوں سے ساتھ بہت پراناچلا آ رہا ہے ، دائیں آنکھ پھڑکنے کو خطرے کی علامت، دائیں ہتھیلی پر خارش دولت کی نوید جبکہ بائیں ہتھیلی پر خارش دولت کے جانے کی اطلاع ۔یہ اور ایسی ہی سینکڑوں ''بدشگونیاں‘‘ روزمرہ زندگی کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور ہیں۔
جہاں تک بدشگونیوں کا روزمرہ زندگیوں سے تعلق ہے عامیوں پر ہی کیا موقوف ، یہاں تو بادشاہ وقت بھی بدشگونیوں کاشکار رہتے رہے ہیں۔اس کی ایک مثال انڈونیشیا کے ایک جزیرہ جاوا کی دی جا سکتی ہے جہاں1620ء میں اچانک طاعون طرز کی وباء پھوٹ پڑی، جس سے ہزاروں ہلاکتیں ہونے لگیں۔ یہ دور شہنشاہ اگنگ کا تھا۔شہنشاہ نے حکم دیا کہ تمام شہری 49 دن تک اپنے اپنے گھروں میں محصور رہیں اور متواتر'' سیور لودہ‘‘ نامی سالن استعمال کریں۔ واضح رہے کہ سیور لودہ سات موسمی سبزیوں کی آمیزش ، چٹ پٹے مسالحوں اور ناریل کے دودھ میں پک کر ایک شوربے کی شکل میں تیار ہوتا ہے۔ جاوا کی ثقافت میں ویسے بھی سات کے ہندسے کو روحانی خوشحالی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آج بھی لوگ جاوا میں خیر و برکت کیلئے سیور لودہ استعمال کرتے ہیں۔
بدشگونیوں کا تعلق خالصتاً توہمات ، کمزور عقیدے، اعتماد کی کمی اور نفسیاتی عوامل کے گرد گھومتا ہے جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اس لئے اس مضمون کو محض دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے لوگوں کی سوچ اور عقیدے کو مدنظر رکھ کر پڑھا جائے۔