طنزو مزاح:پیاری ڈ کا ر!
اسپیشل فیچر
کونسل کی ممبری نہیں چاہتا، قوم کی لیڈری نہیں مانگتا، میں تو صرف ایک''ڈکار‘‘ طلب کرتا ہوں۔ چاہتا یہ ہوں کہ اپنے طوفانی پیٹ کے بادلوں کوحلق میں بلاؤں اور پوری گرج کے ساتھ باہر برساؤں۔ یعنی کڑاکے دار ڈکار لوں۔ پرکیا کروں یہ نئے فیشن والے مجھ کو زور سے ڈکارلینے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ڈکار آنے لگے تو ہونٹوں کو بھیچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اسے چپ چاپ اڑا دو۔ آوازسے ڈکار لینی بڑی بے تہذیبی ہے۔
مجھے یاد ہے یہ جیمس لا ٹوش،کالج میں مہمان تھے۔ رات کے کھانے میں مجھ جیسے ایک گنوار نے زور سے ڈکار لے لی۔ سب جنٹلمین اس بیچارے دہقان کو نفرت سے دیکھنے لگے، برابر ایک شوخ و طرار فیشن ایبل تشریف فرما تھے۔ انہوں نے نظر حقارت سے ایک قدم اورآگے بڑھا دیا۔ جیب سے گھڑی نکالی اوراس کو بغور دیکھنے لگے۔ غریب ڈکاری پہلے ہی گھبرا گیا تھا۔ مجمع کی حالت میں متاثر ہو رہا تھا۔ برابرمیں گھڑی دیکھی گئی تو اس نے بے اختیار ہوکرسوال کیا جناب کیا وقت ہے۔
شریر فیشن پرست بولا گھڑی شاید غلط ہے، اس میں نو بجے ہیں مگر وقت بارہ بجے کا ہے کیونکہ ابھی توپ کی آواز آئی تھی۔ بیچارہ ڈکارلینے والا سن کر پانی پانی ہوگیا کہ اس کی ڈکارکو توپ سے تشبیہ دی گئی۔
اس زمانہ میں لوگوں کو سیلف گورنمنٹ کی خواہش ہے۔ اہل وطن کوعام مفلسی کی شکایت ہے۔ میں تو نہ وہ چاہتا ہوں۔ نہ اس کا شکوہ کرتا ہوں۔ مجھ کو توسرکار سے صرف آزاد ڈکار کی آرزو ہے۔ میں اس سے ادب سے مانگوں گا، خوشامد سے مانگوں گا، جدوجہد کروں گا۔ ایجی ٹیشن مچاؤں گا۔ پرزور تقریریں کروں گا۔کونسل میں جاکر سوالوں کی بوچھار سے آنریبل ممبروں کا دم ناک میں کردوں گا۔
لوگو! میں نے تو بہت کوشش کی کہ چپکے سے ڈکار لینے کی عادت ہوجائے۔ ایک دن سوڈا واٹر پی کر اس بھونچال ڈکارکو ناک سے نکالنا بھی چاہتا تھا مگر کم بخت دماغ میں الجھ کررہ گئی۔ آنکھوں سے پانی نکلنے لگا اور بڑی دیر تک کچھ سانس رکا رکا سا رہا۔
ذرا تو انصاف کرو۔ میرے ابّا ڈکار زورسے لیتے تھے۔ میری اماں کو بھی یہی عادت تھی۔ میں نے نئی دنیا کی ہم نشینی سے پہلے ہمیشہ زور ہی سے ڈکار لی۔ اب اس عادت کو کیونکر بدلوں۔ ڈکار آتی ہے تو پیٹ پکڑلیتا ہوں۔ آنکھیں مچکا مچکا کے زور لگاتا ہوں کہ موذی ناک میں آجائے اور گونگی بن کر نکل جائے۔ مگرایسی بدذات ہے۔ نہیں مانتی۔ حلق کو کھرچتی ہوئی منہ میں گھس آتی ہے اور ڈنکا بجا کر باہر نکلتی ہے۔
کیوں بھائیو!تم میں سے کون کون میری حمایت کرے گا اور نئی روشنی کی فیشن ایبل سوسائٹی سے مجھ کو اس اکسٹریمسٹ حرکت کی اجازت دلوائے گا۔ خلقت تو مجھ کو ''حزب الاحرار‘‘ یعنی گرم پارٹی میں تصور کرتی ہے اور میرا یہ حال ہے کہ اپنی گرم ڈکار تک کو گرما گرمی اور آزادی سے کام میں نہیں لاسکتا۔ ٹھنڈی کرکے نکالنے پرمجبورہوں۔ ہائے میں پچھلے زمانہ میں کیوں نہ پیدا ہوا۔ خوب بے فکری سے ڈکاریں لیتا۔ ایسے وقت میں جنم ہوا ہے کہ بات بات پر فیشن کی مہر لگی ہوئی ہے۔
تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں ماش کی دال کھانے والے یتیموں میں شامل ہو جاؤں گا کیسے خوش قسمت لوگ ہیں۔ دکانوں پر بیٹھے ڈکاریں لیا کرتے ہیں۔ اپنا اپنا نصیبا ہے۔ ہم ترستے ہیں اور وہ نہایت مصرفانہ انداز میں ڈکاروں کو برابر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ پیاری ڈکار میں کہاں تک لکھے جاؤں۔ لکھنے سے کچھ حاصل نہیں، صبر بڑی چیز ہے۔