سرن کائنات کے رازوں کی بازیافت
اسپیشل فیچر
سرن جسے یورپی جوہری تحقیقی مرکز بھی کہتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی ذرّاتی طبیعیات کی لیبارٹری ہے۔ یہ فرانس اور سوئٹز رلینڈ کی سرحد پر واقع ہے ، اس ادارے کا قیام 1954ء میں عمل میں آیا اور اس میں 23 یورپی ممالک شامل ہیں۔ سرن کا بنیادی مقصد کائنات کے بنیادی اجزاکو سمجھنا ہے۔ اس کے سائنسدان مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کائنات کیسے کام کرتی ہے۔ اس کے لیے وہ بڑے پیمانے پر تجربات کرتے ہیں جن میں ذرات کو انتہائی تیز رفتار سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ اس تصادم سے نئے ذرات پیدا ہوتے ہیں جن کا مطالعہ کر کے سائنسدان کائنات کے رازوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کائنات 13ارب 80 کروڑ سال پرانی ہے جبکہ زمین کو تشکیل پائے ہوئے تقریباًپانچ ارب سال ہو چکے ہیں۔ ہماری کائنات نے ایک خوفناک دھماکے سے جنم لیا تھا۔ یہ دھماکہ بگ بینگ کہلاتا ہے۔ بگ بینگ کے بعد کائنات میں تقریباً 1100ارب بڑی اور چھوٹی کہکشائیں پیدا ہوئیں۔ ہر کہکشاں میں زمین سے کئی گنا بڑے اربوں سیارے اور کھربوں ستارے موجود ہیں۔ یہ کائنات ابھی تک پھیل رہی ہے۔یہ کہاں تک جائے گی‘ یہ کتنی بڑی ہے اور اس میں کتنے بھید چھپے ہیں، ہم انسان تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس کا صرف 4فیصد جانتے ہیں۔ کائنات کے96فیصد راز تاحال ہمارے احاطۂ شعور سے باہرہیں۔یہ96 فیصد نامعلوم بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ 44فیصد حصہ وہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم اسے نہیں جانتے۔سائنسدان اس 44 فیصد حصے کو ''Dark matter‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ڈارک میٹر سپر انرجی ہے۔ ہمارا سورج اس انرجی کے سامنے صحرا میں ذرے کے برابر ہے۔سائنسدان کائنات کے باقی 52 فیصد نامعلوم کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم اسے نہیں جانتے۔ ہمیں کائنات کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد کو سمجھنا ہو گا۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ بگ بینگ کیسے اور کیوں ہوا اور اس کے فوری بعد کیا ہوا تھا جس سے کائنات نے جنم لیا ۔ انسان کے پاس یہ حقیقت جاننے کے لیے دو طریقے ہیں‘ ہم کوئی ایسی ٹائم مشین بنائیں جو ہمیں 13ارب 80 کروڑ سال پیچھے اُس وقت میں لے جائے جب بگ بینگ ہوا تھا اور کائنات وجود میں آنے لگی۔ یہ ظاہر ہے ممکن نہیں۔ دوسرا طریقہ سائنسدان لیبارٹری میں ''Big Bang‘‘ کریں اور کائنات کی پیدائش کے پورے عمل کا مشاہدہ کر لیں۔ یہ طریقہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ؛چنانچہ سائنسدانوں نے 1952ء میں اس پر کام شروع کیا۔
اس نادر کام کے لیے جنیواکے مضافات میں فرنے کے مقام پر جگہ تلاش کی گئی اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس نے مل کر لیبارٹری بنانا شروع کر دی۔یہ لیبارٹری CERNکہلاتی ہے۔یہ کام دو ملکوں اور چند سو سائنسدانوں کے بس کی بات نہیں تھی ؛چنانچہ آہستہ آہستہ دنیا کے 38 ممالک کی 179 یونیورسٹیاں اور فزکس کے 4 ہزار ماہرین اس منصوبے میں شامل ہو گئے۔ سائنسدانوں نے پہلے حصے میں زمین سے 100 میٹر نیچے 27کلو میٹر لمبی دھاتی سرنگ بنائی۔اس سرنگ میں ایسے مقناطیس لگائے گئے جو کشش ثقل سے کروڑ گنا طاقتور ہیں۔مقناطیس کے اس فیلڈ کے درمیان دھات کا 22 میٹر اونچا اور 15 ہزار ٹن وزنی چیمبر بنایا گیا‘ یہ چیمبر کتنا بھاری ہے آپ اس کا اندازہ آئفل ٹاور سے لگا لیجیے کہ دنیا کے اس سب سے بڑے دھاتی سٹرکچر کا وزن 7300ٹن ہے۔سرن کا چیمبر اس سے دگنا بھاری ہے۔سائنسدانوں کو اس عمل میں چالیس سال لگ گئے۔سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے۔ یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا ماخذ ہے۔یہ لوگ اس غیر مادی دنیا کو ''Antimatter‘‘ کہتے ہیں۔یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے، کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربویں حصے میں فنا ہو جاتا ہے۔ سرن کے سائنسدانوں نے چند ماہ قبل Antimatter کو 17 منٹ تک قابو میں رکھا۔ یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ یہ لوگ اگر Antimatter کو لمبے عرصے کے لیے قابو کر لیتے ہیں تو پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت چند سیکنڈز میں پوری ہو سکتی ہے‘ دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی۔سرن ایک انتہائی مشکل اورمہنگا پراجیکٹ ہے اور سائنسدان یہ مشکل کام65 سال سے کر رہے ہیں۔
سرن لیبارٹری اور پاکستان میں اس لحاظ سے ایک تعلق موجود ہے کہ پاکستانی نژاد نوبل انعام یافتہ ماہر فزکس ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوری نے سرن میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا ریکٹر اس وقت بھی سرن کے لان میں یادگار کے طور پر نصب ہے۔سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کا نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے بلکہ پاکستان کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کیا ہے۔ پاکستانی سائنسدان مختلف شعبوں میں سرن میں کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم شعبوں میں ذرّاتی طبیعیات، طبیعیات کی تھیوری اور کمپیوٹر سائنس شامل ہیں۔ ان سائنسدانوں نے مختلف تجربات میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور کئی اہم دریافتوں میں حصہ لیا ہے۔2015ء میں پاکستان کو سرن کی ایسوسی ایٹ رکنیت بھی مل گئی۔ پاکستان یہ رکنیت حاصل کرنے والا پہلا غیر یورپی ملک ہے۔ پاکستان اور سرن نے 1994ء میں ایک تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس کے بعد کئی پروٹوکولز پر بھی دستخط کیے گئے اور پاکستان نے CMS اور ATLAS تجربات میں تعاون کیا۔ پاکستان ALICE اور CMS تجربات میں بھی حصہ لے رہا ہے جبکہ پاکستان ایکسلریٹر ڈیویلپمنٹس میں بھی شامل ہے جو پاکستان کو CERN کے لیے ایک اہم شراکت دار بنا رہا ہے۔