طنزومزاح:کرکٹ میچ
اسپیشل فیچر
اسکول کے زمانے میں ہم ہاکی کھیلاکرتے تھے اور کچھ اچھا ہی کھیلتے تھے کہ ہم کو اسکول کی اس ٹیم میں لے لیا گیا تھا جو ٹورنامنٹ کھیلنے والی تھی۔ چنانچہ ہم ٹورنامنٹ کے میچوں میں کھیلے اور خوش قسمتی سے ہماری ٹیم فائنل میں بھی پہنچ گئی۔ پہنچ کیا گئی، بلکہ جیت ہی جاتی اگر ہماری نظریں عین اس وقت جب کہ ہم آسانی سے گول بچا سکتے تھے تماشائیوں میں والد صاحب پر نہ پڑ جاتیں جو آئے تو تھے میچ دیکھنے مگر آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑا رہے تھے اور کچھ عجیب رقت انگیز چہرہ بنا ہواتھا ان کا۔
ہم نے ان کو دل ہی دل میں کہا کہ آج کہاں آگئے اور وہاں شور ہوا گول ہوجانے کا۔ اس شور سے ہم بھی چونکے اور والد صاحب نے بھی آنکھیں کھول دیں اور کچھ ایسی قہر آلود نگاہوں سے دیکھا کہ ہم کو ہاکی سے طبیعت اچاٹ کرکے رکھ دی۔
اب ہماری ٹیم لاکھ لاکھ زور لگاتی ہے گول اتارنے کیلئے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس طرف کی ٹیم کے کسی کھلاڑی کے والد صاحب تماشائیوں میں تھے ہی نہیں۔ نتیجہ یہ کھیل ختم ہوگیا اور ہماری ٹیم ہار گئی۔ اب جس کو دیکھیے وہ ہم ہی کو اس کاذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔
''بھئی یہ ہوا کیا تھا۔ سو گئے تھے کیا؟‘‘
''کمال کردی تم نے گیند ٹہلاتا ہوا تمہارے سامنے سے گول میں چلا گیا اور تم منہ اٹھائے کھڑے رہے۔ حد کردی تم نے بھی‘‘۔
''ہارنے کا افسوس نہیں ہے۔ مگر یہ تو مفت کی ہار ہوئی‘‘۔
تماشائیوں میں سے ایک صاحب کہتے ہوئے نکل گئے۔ ''رشوت میں افیم ملی تھی کھانے کو، گولی کھاکر گول کرا لیا۔‘‘
اب کسی کو ہم کیا بتاتے کہ ہم پر کیا قیامت گزر رہی تھی اس وقت۔ لعنتیں برستی رہیں ہم پر اور ہم سر جھکائے سب کچھ سنتے رہے،اس لیے کہ واقعی قصور اپنا ہی تھا۔ دوسری اس لعنت ملامت کی پرواہ کس کو تھی۔ دل تو اس وقت کے تصور سے دھڑک رہا تھا جب گھر پہنچ کر والد صاحب کے سامنے پیشی ہوگی۔ بمشکل تمام اس مجمع سے جان بچا کر تھکے ہارے گھر جو پہنچے تو ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی والد صاحب کی گرجدار آواز سنائی دی۔
''مگر میں پوچھتا ہوں کہ مجھے آج تک کیوں نہ معلوم ہوا کہ صاحبزادے کو خودکشی کا یہ شوق بھی ہے، تم تو یہ کہہ کر چھٹی پاگئیں کہ یہی ہوتا ہے کھیل کود کا زمانہ‘‘۔
والدہ صاحبہ نے فرمایا ''تو کیا غلط کہا میں نے کس کے بچے نہیں کھیلتے‘‘۔
والد صاحب نے میز پر گھونسہ مارتے ہوئے فرمایا۔ ''پھر وہی کھیل اے جناب یہ موت کا کھیل ہوتا ہے موت کا۔ گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے ہر طرف اور خدا ہی کھیلنے والوں کو بچاتا ہے۔ میراصغر علی کا نوجوان لڑکا ہائے کیا تندرستی تھی اس کی۔ اس کھیل کی نذر ہوگیا۔ کلیجہ پر پتھر کا گیند لگا سانس بھی نہ لی اور جان دے دی۔ باپ نے بڑھ کر پیشانی کو بوسہ دیا اور آج تک کلیجہ پکڑے پھرتے ہیں۔ اگر کچھ ہوجائے اس کے دشمنوں کو تو تمہارا کیا جائے گا۔ میں تو ہائے کرکے رہ جاؤں گا دونوں ہاتھ مل کر۔‘‘