دنیا کا سب سے جان لیوا جانور کونسا ؟
اسپیشل فیچر
جب زمین کے سب سے جان لیوا جانور کا ذکر آتا ہے تو آپ کے ذہن میں شاید شیر، سانپ یا شارک کا خیال آئے؟ لیکن ذرا اور چھوٹے پیمانے پر سوچیے! انسانوں کیلئے سب سے مہلک جانور ایک ایسا کیڑا ہے جو ایک کاغذی کلپ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے، اور وہ ہے ''اینو فِلیز مچھر‘‘۔
2017ء میں گنیز ورلڈ ریکارڈز نے باقاعدہ طور پر ''اینو فلیز مچھر‘‘ کو ''انسان کا سب سے جان لیوا جانور‘‘ قرار دیا تھا، جو ہر سال اندازاً 7لاکھ 25ہزار سے لے کر 10 لاکھ تک اموات کا باعث بنتا ہے۔
یہ مچھر، خاص طور پر صرف مادہ مچھر دنیا بھر میں ملیریا پھیلانے کیلئے مشہور ہے، جو ایک مخصوص قسم کے طفیلی (parasite) پلازموڈیم کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ مچھر زیادہ تر گرم مرطوب آب و ہوا اور ٹھہرے پانی والے علاقوں جیسے تالابوں، دلدلی علاقوں اور ندی نالوں کے کنارے پائے جاتے ہیں۔ملیریا کے علاوہ، اینو فِلیز مچھر کچھ دیگر خطرناک بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بنتا ہے، جیسے ''O'nyong'nyong virus‘‘ اور ''لیمفیٹک فیلاریاسس‘‘ (Lymphatic Filariasis) یا ''الیفنٹیاسس‘‘(elephantiasis)۔
یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ صرف اینو فلیز نسل کی مادہ مچھر ہی ملیریا منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے چھوٹے سے کیڑے کی اتنی بڑی تباہی کی وجہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہے، خوراک حاصل کرنے کا عمل۔ جب ایک بالغ مچھر پانی کی سطح سے نکلتا ہے تو وہ پھولوں کے رس پر گزارا کرتا ہے تاکہ توانائی حاصل کر سکے۔ لیکن مادہ مچھر کو اپنے انڈے پیدا کرنے کیلئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی عمل مچھر کو ایسے طفیلی کیڑے یا وائرس سے آلودہ کر دیتا ہے، جو وہ پھر انسانوں اور دوسرے جانداروں میں منتقل کرتا ہے۔
جب مچھر کسی متاثرہ شخص کو کاٹتا ہے تو وہ اس کے خون میں موجود مرض (مثلاً ملیریا کا طفیلی) اپنے جسم میں لے لیتا ہے۔ یہ مرض مچھر کے جسم میں افزائش پاتا ہے اور جب وہ مچھر کسی دوسرے انسان کو کاٹتا ہے تو وہ یہ مرض اپنی تھوک کے ذریعے اس انسان کے خون میں منتقل کر دیتا ہے۔ یوں یہ خطرناک چکر چلتا رہتا ہے۔
اس کے اثرات صدیوں سے دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مشہور مصنف ڈاکٹر سوس (اصل نام: تھیوڈور گائزل) نے امریکی فوجیوں کیلئے ملیریا سے بچاؤ کی مہم میں حصہ لیا۔ انہوں نے ایک کردار ''بلڈتھرسٹی این‘‘ (خون کی پیاسی این) تخلیق کیا، جو دراصل اینو فِلیز مچھر کی نمائندہ تھی۔ ڈاکٹر سوس، جو اس وقت امریکی فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے، نے اس کردار کے ذریعے اس مہلک مچھر کے بارے میں شعور اجاگر کیا، خاص طور پر اس وقت جب اتحادی افواج کو ملیریا سے بچاؤ کی دواؤں تک رسائی محدود ہو گئی تھی۔
ہم خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
خاص طور پر جب ہم گرم اور مرطوب علاقوں میں ہوں، تو اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو ان مہلک مچھروں کے کاٹنے سے بچانے کیلئے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔
٭...ایسے کپڑے پہنیں جو پورے جسم کو ڈھانپیں (لمبی آستینوں والی قمیصیں، پاجامے یا پینٹ)۔
٭...مچھر بھگانے والی کریمیں یا اسپرے استعمال کریں ۔
٭...مچھر دانی یا نیٹ کا استعمال کریں، خاص طور پر سوتے وقت۔
٭...ٹھہرے پانی سے پرہیز کریں یا اسے ختم کریں جہاں مچھر انڈے دے سکتے ہیں (مثلاً پرانے ٹائر، بالٹیاں، گملے)۔
٭...کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیاں لگوائیں تاکہ مچھر گھر میں داخل نہ ہوں۔
یہ چھوٹے اقدامات آپ کی اور دوسروں کی زندگی کو بڑی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اینو فلیز مچھر، جو نظر نہ آنے کے برابر ہے، ہر سال لاکھوں انسانوں کی جان لے لیتا ہے اور اسی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے خطرناک جانور مانا جاتا ہے۔جدید علاج کے باوجود خطرہ باقی ہے، آج کے جدید سائنسی دور میں ملیریا کا علاج ممکن ہے، لیکن ابھی تک کوئی ایسی ویکسین موجود نہیں جو ملیریا کی تمام اقسام سے مکمل تحفظ فراہم کر سکے۔
مچھر کا خطرناک ریکارڈ
اندازوں کے مطابق مچھروں نے انسانی تاریخ میں 50ارب سے زائد لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔اس کے مقابلے میںشیروں سے تقریباً 5 لاکھ اموات ہوئیں جبکہ شارک کے ہاتھوں صرف 50 ہزار اموات۔