سارگون اعظم دنیا کا پہلا سپہ سالار باشادہ
اسپیشل فیچر
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا دی تاریخ میں ایسے بہت سارے بادشاہ یا حکمران گزرے ہیں جو بیک وقت مسند اقتدار پر بھی براجمان رہے ہیں اور اپنی فوج کے باقاعدہ سپہ سالار ہوتے ہوئے جنگوں کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ ان میں سکندر اعظم ، رعمسیس دوئم ، حضرت خالد بن ولیدؓ ، سلطان محمود غزنوی ، صلاح الدین ایوبی، اکبر اعظم، ٹیپو سلطان، چنگیز خان، نپولین بونا پاٹ اور چارلس دی گریٹ نمایاں ہیں۔ اس فہرست سے ہٹ کر سارگون اعظم کا نام اس لئے منفرد ہے کہ ایک تو دنیا کی اوّلین سلطنت اور دنیا کی پہلی باقاعدہ فوج قائم کرنے کا اعزاز ہی انہیں حاصل نہیں تھا بلکہ سارگون اعظم دنیا کے پہلے ''سپہ سالار بادشاہ‘‘ کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔
سارگون اعظم نے '' اکدی سلطنت‘‘ کی بنیاد رکھی تھی جو تاریخ انسانی کی پہلی باقاعدہ اور عظیم سلطنت کہلائی۔اس کا اقتدار2330 قبل مسیح سے 2279 قبل مسیح تک تقریباً نصف صدی تک قائم رہا۔ یہ سلطنت عرب کے ریگستانوں سے شام اور ترکی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی وسعت کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اس میں ایران، خلیج فارس، کردستان اور اناطولیہ کے علاقے شامل تھے۔یہ وہ دور تھا جب دنیا میں پہلی مرتبہ ایک متحدہ، منظم اور مرکزیت کی حامل سلطنت وجود میں آئی۔سارگون کے کارناموں کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہم اس خطے کی جغرافیائی اور تہذیبی صورت حال کا احاطہ کرتے ہیں۔
دجلہ و فرات کی وادی کے درمیانی علاقے کو تاریخ میں میسوپیٹیمیا ( موجودہ عراق )کے نام کی شناخت حاصل تھی ۔میسوپیٹیمیا میں دو بڑے نسلی گروہ آباد ہوا کرتے تھے ، جن میں سے ایک ''سامی النسل‘‘ اور دوسرا '' سومیری‘‘ کہلاتا تھا۔اس تہذیب کا آغاز 5000 قبل مسیح کے آس پاس ہوا تھا، جبکہ دنیا میں انسانیت کے پہلے مذہب کے آثار بھی اسی علاقے سے 4000قبل مسیح کے دوران ملتے ہیں۔
2334 قبل مسیح میں اس تہذیب کے لوگ شروع میں متحد نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ اجنبیوں کی مانند الگ الگ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی شکل میں رہ رہے تھے۔ ان ریاستوں میں ''ار ‘‘ اور ''ارک‘‘ سب سے بڑی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔سارگون کی پہچان کا آغاز انہی ریاستوں کے شمال میں قائم ریاست ''کش‘‘ کے شہنشاہ ارزبابہ کے دربار میں بطور پیالہ بردار تعیناتی سے ہوتا ہے۔سارگون نے اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف ارزبابہ کے اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کے طفیل میسوپیٹیمیا کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو یکجا کر کے پہلی کثیر القومی سلطنت یعنی ''اکادی سلطنت‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس نے سومیری کی شہری ریاستوں کوایک ایک کر کے فتح کیا اور پہلی بار میسوپیٹیمیا کو ایک بڑی ریاست میں بدل دیا۔سارگون کا اصل کارنامہ تخت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور الگ تھلگ شہروں کو یکجا کر کے مرکزیت کی حامل ایک بڑی اور طاقتور ریاست میں بدلنا تھا۔یہ وہ دور تھا جب سومیری شہنشاہ زوگال لاگاسی کا ڈنکا بجتا تھا اور چار سو اس کے ظلم اور دبدبے کے چرچے تھے۔اسے اپنے دور کا ناقابل شکست حکمران سمجھا جاتا تھا۔ سارگون نے نہ صرف اسے شکست دے کر اکدی حکومت کی بنیاد رکھی بلکہ اسے گرفتار کر کے اس کے گلے میں رسہ ڈال کر معبد کے دروازے کے سامنے لا کر اسے بھرے مجمع کے سامنے رسوا بھی کیا۔
عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے ایک مضبوط مرکزیت والی حکومت کی شروعات کیں۔تمام علاقوں میں اکدی گورنر مقرر کئے۔اکدی زبان کو سلطنت کی سرکاری زبان قرار دیا۔اس کے دور میں تحریری نظام ، فن تعمیر اور مجسمہ سازی کے فن کو فروغ ملا۔
مورخین کہتے ہیں تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی حکمران کے زیر سایہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کی حکمرانی آئی ہو۔ صرف وسیع و عریض ہی نہیں بلکہ میسوپیٹیمیا کو دنیا کی پہلی منظم سلطنت کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔ چنانچہ اتنی بڑی ریاست کو متحد اور منظم رکھنے کیلئے اس نے باقاعدہ ایک فوج بھی بنائی جو براہ راست ریاست کو جواب دہ تھی۔اس سے پہلے مزدوروں، کسانوں اور دیہاتیوں پر مشتمل اپنی مدد آپ کے تحت ایک غیر منظم جزوقتی فوج ہوا کرتی تھی۔
سارگون کی وفات کے بعد اس کا بیٹا رمش تخت نشیں ہوا تو تھوڑے ہی عرصہ بعد اندرونی اور بیرونی بغاوتوں نے اسے گھیرلیا لیکن اپنے باپ کی پالیسیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کامیابی سے مشکلات کا مقابلہ کرتا رہا۔اس کے بعد اس کے بھائی منیش نے تخت سنبھالا۔اس کا دور اقتدار قدرے مختصر رہا۔ اس کے بعد منیش کے بیٹے اور سارگون کے پوتے نارام سن نے اقتدار کی کمان سنبھالی۔ اپنے دادا کی طرح نارم سن کے رعب اور دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ اس نے بڑی تیزی سے کامیابیاں سمیٹیں اور خود کو ''خدا بادشاہُُ‘‘ کہلوانے لگا۔
ابتدا میں اسے بھی شدید بغاوتوں کا سامنا رہا لیکن اس نے بھی اپنے دادا کی حکمت عملیوں کو احسن طریقے سے جاری رکھا اور اکدی سلطنت کو تاریخی بلندیوں پر لاکھڑا کیا۔کہتے ہیں یہ خلیج فارس سے لے کر مصر تک فوج کشی کر کے اپنی سلطنت کے خلاف بغاوتوں کو بڑی کامیابی سے کچلتا رہا۔
اس کے بعد نارام سن کے بیٹے شار کارلی نے سن 2217قبل مسیح میں اقتدار سنبھالا لیکن رفتہ رفتہ سارگون کے جاں نشینوں کی گرفت اقتدار پر کمزور ہوتی چلی گئی اور بالاخر سارگون خاندان 141 سال اکدی سلطنت پر حکمرانی کرنے کے بعد سن 2193 قبل مسیح میں دنیا کی پہلی منظم اور سب سے وسیع سلطنت کی حکمرانی سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے بعد 2154 قبل مسیح میں ''گتی خاندان‘‘ نے اکدی سلطنت کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیا۔