آج تم یاد بے حساب آئے ! شہزاد احمد نئے طرز احساس کے شاعر
اسپیشل فیچر
٭... 16 اپریل 1932ء کو مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر میں ڈاکٹرحافظ بشیر کے گھرپیدا ہوئے۔
٭... 1952ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے نفسیات اور 1955ء میں فلسفے میں پوسٹ گریجوایشن کی اور درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔
٭...طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا رہا، انہیں 1952ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ''اکیڈمک رول آف آنر‘‘ سے نوازا گیا۔
٭... ان کا غزلوں کا پہلا مجموعہ ''صدف‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
٭... 1969ء میں چھپنے والے غزلوں کے مجموعے ''جلتی بجھتی آنکھیں‘‘ پر انہیں آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔
٭... ''پیشانی میں سورج‘‘ پر ہجرہ(اقبال) ایوارڈ ملا۔
٭...1997ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ''صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ عطا کیا گیا۔
٭...شہزاد احمد کی غزل کا رومانوی لہجہ بڑا متاثر کن ہے۔ نکتہ آفرینی ان کی شاعری کا اہم وصف تھا۔
٭...30شعری مجموعے شائع ہوئے۔
٭... شاعری کے علاوہ فلسفہ اور سائنس پر بہت کام کیا اور کتابیں لکھیں، مشہور کتابوں میں ''ادھ کھلا دریچہ‘‘ ،''پیشانی میں سورج‘‘، ''جلتی بجھتی آنکھیں‘‘ شامل ہیں۔ متعدد سائنس کتب کے ترجمے بھی کئے۔
٭...وہ ایک عالم فاضل آدمی تھے، اپنی شاعری کے ذریعے نفسیات اور فلسفے کے حوالے سے بھی کئی باتیں کر جاتے تھے۔
٭... کئی بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ وہ مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔
٭...2 اگست 2012ء کو یہ باکمال شاعر80برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
منتخب اشعار
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
...............
جب اس کی زلف میں پہلا سفید بال آیا
تب اس کو پہلی ملاقات کا خیال آیا
...............
تمہاری آرزو میں میں نے اپنی آرزو کی تھی
خود اپنی جستجو کا آپ حاصل ہو گیا ہوں میں
...............
حوصلہ ہے تو سفینوں کے علم لہرائو
بہتے دریا تو چلیں گے اسی رفتار کے ساتھ
...............
یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمہاری باتوں کو
اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے
...............
شام ہونے کو ہے جلنے کو ہے شمع محفل
سانس لینے کی بھی فرصت نہیںپروانے کو
...............
تختہ دار پہ چاہے جسے لٹکا دیجئے
اتنے لوگوں میں گنہگار کوئی تو ہو گا
...............
میں چاہتا ہوں حقیقت پسند ہو جائوں
مگر ہے اس میں یہ مشکل حقیقتیں ہیں بے تاب
...............
کس لئے وہ شہر کی دیوار سے سر پھوڑتا
قیس دیوانہ سہی اتنا بھی دیوانہ نہ تھا
...............
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے
...............
رکھوں کسی سے توقع تو کیا رکھوں شہزاد
خدا نے بھی تو زمیں پر گرا کے چھوڑ دیا
...............
میں جو روتا ہوں تو کہتے ہو کہ ایسا نہ کرو
تم اگر میری جگہ ہو تو بھلا کیا نہ کرو