چین میں اسلام کب اور کیسے پہنچا !
اسپیشل فیچر
چین میں دنیا کے تینوں بڑے مذاہب بدھ مت، عیسائیت اوراسلام کے پیروکار آباد ہیں۔ چین میں ہوئی ویغور، تاتار اور ازبک سمیت متعدد قومیتیں اسلام کی پیروکار ہیں۔ جن میں سے بیشتر چین کے سنکیانگ، نینگ شیا، گا نسو، چھینگ ہائی اور یوئن نان کے علاقوں میں آباد ہیں۔
چین میں آباد 56 قومی نسلوں میں سے 10 نسلیں اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل ہیں جو چین کی کل آبادی کا لگ بھگ 2 فیصد بنتا ہے۔ چین کے مسلم قبائل میں اویغور ، قزاق ، ازبک ، سالار ، خوئے ، تاجک، تاتار، ڈونگ جیانگ ، کرغیز اور باوان شامل ہیں۔ان دس گروہوں میں سے ایک خوئے نسل کے قبائل کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ چینی نسل کے باشندوں کے ساتھ ایرانی اور عرب تارکین وطن کے اختلاط کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوئے قبیلہ کے لوگ چین میں مسلمانوں کے سب سے بڑے قبیلے پر مشتمل ہیں۔
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں مذہب اسلام 651 عیسوی کے آس پاس چین کے شہر شیان سے شروع ہوا تھا۔ شیان ، بیجنگ سے ایک ہزار 80 کلومیٹر کی دوری پر شاہراہ ریشم پر واقع ہے۔ ایک کروڑ تیس لاکھ آبادی والا یہ چین کا ایک درمیانے درجے کا شہر ہے۔ مسلم دنیا میں اس شہر کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہاں آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل چین کی سب سے پہلی مسجد اور گیارہ سو سال پرانی ایک قدیم تاریخی مسلم سٹریٹ واقع ہے۔
تاریخی حوالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 651 عیسوی میں ایک صحابی حضرت سعد بن وقاص ؓ چین آئے۔یہ خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنیؓ کادور تھا۔مورخین کا کہنا ہے پہلی مرتبہ مسلم پیروکار سمندری راستے کے ذریعے چین پہنچے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چین میں تانگ بادشاہ کا دور حکومت تھا۔ انہوں نے تانگ بادشاہ سے ملاقات کر کے ان سے چین میں پہلی مسجد قائم کرنے کی اجازت لے کر شیان میں پہلی مسجد تعمیر کرائی۔ یہ جامع مسجد آج بھی مسلم آبادی کے درمیان اور ایک معروف بازار کے پہلو میں واقع ہے۔
چین ان دنوں ایک اہم تجارتی منڈی کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ یہیں سے اہل عرب اور اہل ایران کی یہاں آمد شروع ہوئی جو یہاںمذہب اسلام کی بنیاد کا سبب بنی۔ عرب تاجر مغرب سے وسطی ایشیاء کے راستے اس شہر میں داخل ہوتے اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرتے ۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسلام خلافت راشدہ کے دور میں جزیرۂ عرب سے نکل کر ایشیاء میں ماوراء النہر سے ہوتا ہوا چین میں داخل ہوا۔ماورا ء النہر وہ وسطی ایشیائی علاقہ تھا جو موجودہ ازبکستان ، تاجکستان ، قازقستان اور کرغزستان پر مشتمل ہوا کرتا تھا ۔ یہ علاقہ دریائے آمو اور دریائے سیر کے درمیانی علاقے پر مشتمل تھا۔ سمرقند ، بخارا ، اشروسنہ اور ترمذ جیسے تاریخی شہر اسی ماورا النہر کے اہم ترین شہر ہوا کرتے تھے۔
چین میں اسلام کی آمد کا ذکر ایک قدیم چینی قبیلے ہوئی چہی کے بغیر ادھورا ہے۔ ہوئی چہی قبیلہ کے لوگ قتیبہ بن مسلم کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ یہ واحد قبیلہ تھا جس نے سب سے پہلے دعوت اسلامی کو کھلے دل سے قبول کیا اور لوگ جوق در جوق اسلام کے پرچم تلے جمع ہوتے چلے گئے۔ ہوئی چہی نام بگڑتے بگڑتے ہوئی ہوئی میں تبدیل ہو گیا اور پھر یہ کنیت غیر مسلموں نے ان لوگوں کیلئے وقف کردی جو دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے۔ چین میں آج بھی مسلمانوں کی شناخت ہوئی ہوئی کے حوالے سے ہوتی ہے۔
زیادہ تر چینی مسلمان ملک کے مشرق میں صوبہ سنکیانگ میں رہتے ہیں۔ان علاقوں میں اسلامی روایات اور اسلامی ثقافت کے نقوش آٹھویں صدی ہجری سے ایران اور ماوراء النہر سے ماخوذ ہیں جو رفتہ رفتہ چین میں داخل ہوئے۔
مورخین کہتے ہیں چین میں اسلام تانگ خاندان کے دور حکومت میں 907ء تک پھیلا۔ 1312ء میں چین میں یوآن خاندان کی حکمرانی کا دور آیا تومسلمانوں کو بڑے بڑے عہدے سونپے گئے جن میں علم طب ، علم نجوم ، فن سپہ گری اور تاریخ نویسی کے محکمہ جات قابل ذکر ہیں۔ 1314ء میں مسلمانوں کیلئے دارالاستفتاء کی بنیاد رکھی گئی جس میں بڑے بڑے علماء کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ 1346ء میں توپچی کا عہدہ اور 1353ء میں بحریہ کا اہم شعبہ بھی مسلمانوں کو سونپاگیا۔
اس کے بعد منگ شاہی خاندان نے چین پر 1644ء تک حکمرانی کی۔اس دور میں مسلمانوں نے نہ صرف بڑے بڑے فوجی عہدے حاصل کئے بلکہ اپنی قابلیت کے بل بوتے تمدنی اور عمرانی عہدوں پر بھی رسائی حاصل کر لی۔ شہنشاہ تائی چو ، چونکہ ایک دانا اور زیرک حکمران تھا اس لئے اس نے دنیا کی متعدد زبانوں اور مذاہب کی کتب کے تراجم کرائے۔ شہنشاہ نے عربی زبان کے تراجم کیلئے ہویہ چونگ ، لی زن اور شیخ المشائخ کو حکم دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ عربی کتب کو چینی زبان میں منتقل کریں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہنشاہ تائی کے دور میں اسلامی علوم و فنون کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ مورخین کہتے ہیں یہی وہ دور تھا جب دنیا کے نقشے میں چین ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرنا شروع ہوا۔