پوٹھوہار قدیم تہذیبوں اور عجائبات کا مسکن
اسپیشل فیچر
سطح مرتفع پوٹھوہار ایک ایسا جغرافیائی اور تہذیبی علاقہ ہے جو اپنی قدامت، قدرتی حسن اور تاریخی اہمیت کے اعتبار سے منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ علاقہ صوبہ پنجاب کے شمالی حصے میں واقع ہے اور راولپنڈی، اٹک، چکوال، جہلم اور کچھ حصوں میں میانوالی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے شمال میں کوہستانی سلسلے، مشرق میں دریائے جہلم، مغرب میں دریائے سندھ اور جنوب میں سالٹ رینج کے پہاڑی سلسلے اس کی قدرتی سرحدیں ہیں۔پوٹھوہار کا وجود لاکھوں برس پرانی ارضیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہ علاقہ کروڑوں سال قبل سمندری تہہ میں تھا۔ بعد ازاں زمین کی پرتوں میں ہونے والی شدید حرکات کے باعث یہ علاقہ بلند ہو کر خشکی میں تبدیل ہوا۔ سالٹ رینج جو پوٹھوہار کے جنوبی حصے میں واقع ہے دنیا کے قدیم ترین ارضیاتی ڈھانچوں میں سے ایک ہے جس کی عمر تقریباً 60 کروڑ سال بتائی جاتی ہے۔ یہی پہاڑی سلسلہ اس کا ثبوت ہیں کہ پوٹھوہار کا علاقہ زمین کی ابتدائی تشکیل کے زمانے سے انسانی تہذیب تک مسلسل ارتقاپذیر رہا ہے۔
قبل از تاریخ دور اور
ڈائنو سارز کے فوسلز
پوٹھوہار صرف انسانی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ حیاتیاتی ارتقا میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہاں سالٹ رینج اور قریبی علاقوں سے ڈائنو سارز کے فوسلز دریافت ہوئے ہیں جو تقریباً سات کروڑ سال پرانے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ اور ماہرین حیاتیات نے چکوال اور کالا باغ کے قریب ایسے ڈھانچے اور ہڈیوں کے فوسلز دریافت کیے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس علاقے میں قدیم زمانے میں بڑے رینگنے والے جانور خصوصاً ڈائنو سارز موجود تھے۔ یہ فوسلز پوٹھوہار کی زمین کو صرف انسانی تاریخ ہی نہیں بلکہ ماقبل انسانی دور میں بھی ایک اہم تحقیقی مرکز بناتے ہیں۔
انسانی تہذیب کا آغاز
پوٹھوہار انسانی تہذیب کے ابتدائی دور کا بھی گہوارہ ہے۔ یہاں سے پتھر کے اوزار، برتن اور دیگر نوادرات ملے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ علاقہ قدیم زمانے سے انسانی بستیوں کا مرکز رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق پوٹھوہار کے علاقے میں ہومو ایریکٹس اور بعد میں ہومو سیپینز نے سکونت اختیار کی۔ روات، ٹیکسلا اور خانپور کے قریب ہونے والی کھدائیوں میں قبل مسیح کے آثار ملے ہیں جو قدیم آریائی، ہند-یونانی اور بدھ مت تہذیبوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
تاریخی ادوار میں پوٹھوہار
یہ علاقہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے قدیم سلطنتوں اور تجارتی راستوں کا مرکز رہا ہے۔ مشہور شاہراہِ ریشم کا ایک حصہ پوٹھوہار سے گزرتا تھا، جس کے ذریعے وسطی ایشیا، افغانستان اور برصغیر کے درمیان تجارتی اور ثقافتی تبادلہ ہوتا تھا۔ سکندر اعظم جب چوتھی صدی قبل مسیح میں برصغیر آیا تو اس کے لشکر نے بھی اس خطے کو عبور کیا۔ بعد میں یہ علاقہ موریہ سلطنت، کشان سلطنت اور گپتا سلطنت کے زیرِ اثر رہا۔
بدھ مت دور اور گندھارا تہذیب
پوٹھوہار خصوصاً ٹیکسلا گندھارا تہذیب کا مرکز تھا جو بدھ مت کے تعلیمی، مذہبی اور فنونِ لطیفہ کے لیے مشہور تھی۔ یہاں کے سٹوپے، خانقاہیں اور مجسمہ سازی کے نادر نمونے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ بدھ راہب یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے اور مذہبی تبلیغ کے لیے مختلف خطوں کا سفر کرتے۔ یونیسکو نے ٹیکسلا کے آثار کو عالمی ورثے میں شامل کیا ہے۔
مسلم عہد اور دفاعی اہمیت
مسلم عہد میں پوٹھوہار کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور دیگر مسلم حکمرانوں نے اس خطے کو عبور کیا۔ مغل دور میں یہ سلطنت کا ایک اہم صوبہ تھا۔ مغلوں نے یہاں قلعے اور سرائیں قائم کیں۔ قلعہ روہتاس جو شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا، پوٹھوہار کی فوجی اہمیت کا واضح ثبوت ہے۔ اس کا مقصد مغل شہنشاہ ہمایوں کی واپسی کو روکنا اور مقامی قبائل پر کنٹرول قائم رکھنا تھا۔پوٹھوہار محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کی تاریخ، تہذیب اور قدرتی ورثے کا امین ہے۔ اس کی زمین ڈائنو سارز کے زمانے سے لے کر جدید دور تک ارتقا کی داستان سناتی ہے۔ چاہے سالٹ رینج کی قدیم چٹانیں ہوں، گندھارا تہذیب کے آثار ہوں یا مسلم عہد کے قلعے، پوٹھوہار کی مٹی میں ماضی کی صداؤں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ محققین، سیاحوں اور تاریخ کے طلبہ کے لیے ہمیشہ پرکشش رہا ہے۔