طنزومزاح :دھوبی اور لیڈر
اسپیشل فیچر
اکثر سوچتا ہوں کہ دھوبی اور لیڈر میں اتنی مماثلت کیوں ہے۔ دھوبی لیڈر کی ترقی یافتہ صورت ہے یا لیڈر دھوبی کی! دونوں دھوتے پچھاڑتے ہیں۔ دھوبی گندے کپڑے علیحدہ لے جا کر دھوتا ہے اور صاف اور سجل کر کے دوبارہ پہننے کے قابل بنا دیتا ہے۔ لیڈر برسرعام گندے کپڑے دھوتا ہے اور گندگی اچھالتا ہے (washing dirty lenin in public ) کایہی تو مفہوم ہے۔ لیڈر کا مقصد نجاست کو دور کرنے کا اتنا نہیں ہوتا جتنا نجاست پھیلانے کا۔ دھوبیوں کیلئے کپڑے دھونے کے گھاٹ مقرر ہیں۔ لیڈر کیلئے پلیٹ فارم حاضر ہیں۔ اس میں شک نہیں دھوبی کپڑے پھاڑتا ہے غائب کردیتا ہے اور ان کا آب ورنگ بگاڑ دیتا ہے۔ لیکن لیڈر کی طرح وہ گندگی کو پائیدار یا رنگین نہیں بناتا۔
ہمارے معلم بھی دھوبی سے کم نہیں وہ شاگرد کو اسی طرح دھوتے پچھاڑتے مروڑتے اور اس پر استری کرتے ہیں جیسے دھوبی کرتا ہے۔ آپ نے بعض دھوبیوں کو دیکھا ہوگا جو دھلائی کی زحمت سے بچنے اور مالک کو دھوکا دینے کیلئے سفید کپڑے پر نیل کا ہلکا سا رنگ دے دیتے ہیں۔ دھوبی کو اس کی مطلق پروا نہیں کہ سر پر سے گھما گھما کر کپڑے کو پتھر پر پٹکنا اینٹھنا اور نچوڑنا اور اس کا لحاظ نہ کرنا کہ کپڑے کے تار وپود کا رنگ کا کیا حشر ہوگا، بٹن کہاں جائیں گے، لباس کی وضع قطع کیا سے کیا ہوجائے گی، استری ٹھیک گرم ہے یا نہیں۔بالکل اسی طرح معلم کو اس کی پروا نہیں کہ طالب علم کس قماش کا ہے اس پر کیا رنگ چڑھا ہوا ہے اور اس کے دل و دماغ کا کیا عالم ہے۔ وہ اسے دے دے مارتا ہے اور بھرکس نکال دیتا ہے۔ وہ طالب علم کی استعداد اس کے میلانات اور اس کی الجھنوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ صرف اپنا رنگ چڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے چنانچہ سارے مراحل طے کرنے کے بعد جب طالب علم دنیا کے بازار میں آتا ہے تو اس کا جسم ذہن و دماغ سب جواب دے چکے ہوتے ہیں۔ اس پر رنگ بھی ناپائیدار ہوتا ہے۔ کلف دے کر اس پر جو بے تکی اور بے تکان استری کی ہوتی ہے وہ حوادث روزگار کے ایک ہی چھینٹے یا جھونکے سے بد رنگ ہوجاتی ہے۔ دھوبی کی یہ روایات معلمی میں پورے طور پر سرایت کر چکی ہیں۔
میرا ایک دھوبی سے سابقہ رہا ہے جسے بہانے تراشنے میں وہ مہارت حاصل ہے جو اردو اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر کو بھی نصیب نہیں۔ پرچہ کے توقف سے شائع ہونے پر یا بالکل نہ شائع ہونے پر یہ ایڈیٹر جس جس طرح کے عذر پیش کرتے ہیں ،وہ ایک مستقل داستان ہے اور فن بھی۔ لیکن میرا دھوبی اور اس کی بیوی جس قسم کے حیلے تراشتے ہیں وہ انہیں کا حصہ ہے۔ مثلاً موسم خراب ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ دھوپ نہیں ہوئی کہ کپڑے سوکھتے یا گردوغبار کا یہ عالم تھا کہ دھلے کپڑے بن دھلے ہو گئے ! صحت خراب ہے یعنی دھوبی یا دھوبن یا اس کے لڑکے بالے یا اس کے دور و نزدیک کے رشتہ دار ہر طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہے۔ قسمت خراب ہے یعنی ان میں سے کوئی ایک مرگیا۔ زمانہ خراب ہے، یعنی چوری ہوگئی، کپڑا خراب ہے یعنی پھٹ گیا بدرنگ ہوگیا یا گم ہوگیا۔
رشید احمد صدیقی ممتاز طنزو مزاح نگار تھے، زیر نظر تحریر ان کے مضمون ''دھوبی‘‘ سے مقتبس ہے