جب ناگا ساکی پر قیامت ٹوٹی!
اسپیشل فیچر
دنیا کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو انسانیت کے ماتھے پر ہمیشہ کیلئے داغ چھوڑ جاتے ہیں۔ 1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ 6اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکہ نے ناگا ساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔ 9اگست 1945 کی صبح انسانیت پر وہ قیامت ٹوٹی جس کی ہولناکی کا تصور بھی محال ہے۔ یہ وہ دن تھا، جب روشنیوں کا شہر ناگاساکی ایک لمحے میں اندھیروں کی تہہ میں ڈوب گیا۔جاپان کا پرسکون اور تاریخی شہر ناگاساکی اچانک ایک ایسے ''آفتاب‘‘ کے نیچے آ گیا جس نے لمحوں میں ہر شے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ کیوٹو جاپان کا ایک قدیم ترین شہر ہے جو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک جاپان کا دارالحکومت رہا ہے۔یہ شہر جاپان کے کانسائی علاقے میں واقع ہے اور اپنی بھرپور ثقافت اور تاریخی مقامات کیلئے جانا جاتا ہے۔امریکی وزارت داخلہ کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ''فیٹ مین‘‘ نامی یہ جوہری بم 22 ٹن وزنی تھا۔ امریکی طیارے سے گرایا جانے والا یہ ایٹمی بم گویا آگ اور موت کا ایک دہکتا ہوا گولہ تھا، جس نے چند ہی لمحوں میں چالیس ہزار سے زائد جانیں نگل لیں اور سال کے اختتام تک یہ تعداد 80 ہزار کے قریب جا پہنچی تھی۔ جنہوں نے اس مہلک دھماکے سے جان بچائی، وہ بھی تابکاری کے زہر سے عمر بھر کی اذیتوں کے اسیر ہو گئے۔
ناگاساکی کی گلیاں، بازار اور مکانات پلک جھپکتے ہی ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ انسانی جسم راکھ میں تبدیل ہو گئے اور بچے، عورتیں، بوڑھے سب اس تباہی کی نذر ہو گئے۔ یہ منظر ایسا تھا جیسے زندگی کی روشنی کو اچانک ایک بے رحم اندھیرے نے نگل لیا ہو۔ اس سانحے کے بعد زندہ بچ جانے والے ''ہیبا کوشا‘‘ (Hibakusha) کہلائے، جن کی آنکھوں میں آج بھی وہ لمحہ زندہ ہے، جب زمین لرز اٹھی اور آسمان دہکنے لگا۔ ان کی کہانیاں سن کر دل دہل جاتا ہے اور روح کانپ اٹھتی ہے۔
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعدازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔امریکہ نے اس حملے کو جنگ کے خاتمے کا ذریعہ قرار دیا، مگر اس کی قیمت لاکھوں بے گناہ جانوں نے ادا کی۔ دنیا بھر میں اس واقعے نے اخلاقی اور انسانی سوالات کو جنم دیا۔ کیا انسانیت کی بقا کیلئے اتنی بڑی قربانی دینا ضروری تھا؟ کیا امن کا راستہ ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے بنایا جا سکتا ہے؟
آج ناگاساکی کا امن پارک اور یادگاری ہال اس ظلم کی داستان سناتے ہیں۔ ہر سال 9اگست کو وہاں خاموشی کے لمحے منائے جاتے ہیں اور دنیا کو یاد دلایا جاتا ہے کہ انسانیت دوبارہ ایسے المیے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ حملہ محض ایک شہر کی تباہی نہیں تھا بلکہ انسان کی اپنی تخلیق کے ہاتھوں انسانیت کی بربادی کی علامت تھا۔
ناگاساکی کی راکھ آج بھی دنیا کو پکارتی ہے کہ طاقت کے غرور میں نہ بہکنا، ورنہ انسانیت کی بقا کا چراغ ہمیشہ کیلئے بجھ جائے گا۔