الیکٹرک گاڑیوں کا بڑھتا رجحان اور لیتھیم بیٹری کچرے کا مسئلہ
اسپیشل فیچر
دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی، پٹرول و ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں اور تیل کی درآمد پر انحصار کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیاں (EVs) تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ چند برسوں میں اس شعبے میں واضح پیش رفت دیکھی جا رہی ہے۔ حکومت کی پالیسیز، درآمدی ڈیوٹی میں کمی اور نجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے باعث الیکٹرک بائیکس، رکشہ، کاریں اور بسیں سڑکوں پر نظر آنے لگی ہیں۔ تاہم جہاں یہ ٹیکنالوجی ماحولیاتی لحاظ سے ایک مثبت تبدیلی ہے وہیں اس کے ساتھ ایک بڑا چیلنج لیتھیم آئن بیٹریوں کے کچرے کی صورت میں سامنے آنے والا ہے۔
لیتھیم بیٹری کچرے کا مسئلہ
الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی لیتھیم آئن بیٹریاں محدود عمر کی حامل ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ بیٹریاں 8 سے 12 سال تک کارآمد رہتی ہیں اس کے بعد ان کی چارجنگ صلاحیت اور کارکردگی کم ہونے لگتی ہے۔ پرانی بیٹریاں نہ صرف ناکارہ ہو جاتی ہیں بلکہ اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائی جائیں تو یہ ماحول اور انسانی صحت دونوں کے لیے خطرناک ہیں۔ ان بیٹریوں میں لیتھیم، کوبالٹ، نکل اور مینگنیز جیسے دھاتیں شامل ہوتی ہیں جو زمین اور پانی کو آلودہ کر سکتی ہیں اور زہریلا کیمیکل فضا میں خارج کر سکتی ہیں۔
آنے والے 10 سے
20 سال کا منظرنامہ
فی الحال پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد زیادہ نہیں لیکن اگر موجودہ رفتار سے یہ رجحان بڑھا تو اگلے 10 سال میں لاکھوں الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر عام ہوں گی۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر الیکٹرک گاڑی میں اوسطاً 250 سے 500 کلوگرام وزنی بیٹری پیک ہوتا ہے۔ اگر ان بیٹریوں کو دوبارہ استعمال یا ری سائیکل نہ کیا جائے تو یہ ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ بن جائے گا۔ مثال کے طور پراگر 2035ء تک پاکستان میں 10 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں ہو گئیں تو اس کا مطلب ہے کم از کم 2.5 سے پانچ لاکھ ٹن بیٹری کچرا پیدا ہوگا۔2045ء تک یہ مقدار کئی گنا بڑھ کر لاکھوں ٹن تک جا سکتی ہے۔ پاکستان میں فی الحال اس کچرے کومحفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے یا ری سائیکل کرنے کی کوئی منظم سہولت موجود نہیں۔
اس مسئلے سے کیوں نمٹنا
ضروری ہے؟
بیٹریوں کے دھاتیں زمین و زیرزمین پانی کو آلودہ کر کے زراعت، پینے کے پانی اور ماحول پر مہلک اثر ڈال سکتی ہیں ۔ بیٹریوں میں موجود دھاتیں سانس کی بیماریوں، جلدی مسائل اور اعصابی نظام کی خرابی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ بیٹریوں میں موجود قیمتی دھاتیں بھی ری سائیکلنگ کی ضرورت کو واضح کرتی ہیں کیونکہ انہیں دوبارہ استعمال کے قابل نہ بنایا گیا تو ان کی درآمد میں اضافہ ہو گا ۔اس لیے ضروری ہے کہ لیتھیم بیٹری ری سائیکلنگ پلانٹس قائم ہونے چاہئیں۔ ان پلانٹس کے ذریعے پرانی بیٹریوں سے لیتھیم، کوبالٹ، نکل اور دیگر قیمتی دھاتیں نکالی اور دوبارہ استعمال کے قابل بنائی جا سکتی ہیں۔ چین، یورپ اور امریکہ میں یہ انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی نجی شعبے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس میدان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جانا چاہیے۔الیکٹرک گاڑی کی پرانی بیٹریاں توانائی ذخیرہ کرنے کے دوسرے مقاصد کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پرسولر انرجی اورگھریلو یا صنعتی UPS سسٹمز کے لیے۔اس طرح بیٹری کی عمر میں مزید کئی سال کا اضافہ ہو سکتا ہے اور کچرا کم ہوگا۔حکومت کو چاہیے کہ EV درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کو پابندکرے کہ وہ بیٹریوں کی واپسی اور ری سائیکلنگ پلان فراہم کریں۔ یہ پالیسی دنیا کے کئی ممالک میں نافذ ہے جس کے تحت گاڑی بنانے والی کمپنی یا درآمد کنندہ بیٹری کی زندگی ختم ہونے پر اسے واپس لے کر ری سائیکل کرتا ہے۔
ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ
یونیورسٹیوں اور ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس کو بیٹری ری سائیکلنگ اور قابل استعمال مواد کی ریکوری پر تحقیق کے لیے فنڈز دیے جائیں۔ اس شعبے میں ماہر افرادی قوت کی تیاری ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ہم ٹیکنالوجی کے لیے مکمل طور پر بیرونی دنیا پر انحصار نہ کریں۔ الیکٹرک گاڑیوں کی آمد ایک مثبت قدم ہے جو ماحولیاتی آلودگی اور ایندھن کی درآمد پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا تاہم اگر لیتھیم آئن بیٹریوں کے کچرے کے مسئلے کو نظرانداز کیا گیا تو آنے والے 10 سے 20 سال میں یہ ایک بڑا ماحولیاتی اور صحت کا بحران بن سکتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی ضروری ہے، جس میں ری سائیکلنگ انڈسٹری کا قیام، قانون سازی، عوامی آگاہی اور تحقیق پر سرمایہ کاری شامل ہو۔ اگر یہ اقدامات بروقت ہوئے تو نہ صرف اس خطرے سے بچا جا سکتا ہے بلکہ بیٹری ری سائیکلنگ کے شعبے میں پاکستان خطے کا ایک اہم ملک بھی بن سکتا ہے۔