آج تم یاد بے حساب آئے:موسیقی کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان (13 اکتوبر 1948ء تا16 اگست 1997 ء)
اسپیشل فیچر
٭...شنہشاہ قوالی نے فیصل آباد کے ایک قوال گھرانے میں 13 اکتوبر 1948ء کو آنکھ کھولی۔
٭... 16 سال کی عمر میں قوالی کا فن سیکھا، قوالی کے ساتھ غزلیں، کلاسیکل اور صوفی گیت بھی گائے۔
٭...نصرت فتح علی خان کی فنی تربیت استاد مبارک علی خان نے کی۔
٭... انہیں پہلی عوامی پذیرائی 1971ء میں قوالی ''حق علی علی‘‘ سے ملی۔
٭...انہوں نے اپنے طویل کریئر کے دوران عارفانہ کلام، گیتوں، غزلوں اور قوالیوں سے دنیا کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔
٭... سروں کے شہنشاہ نے مغربی سازوں کو استعمال کر کے قوالی کو جدت کے ساتھ ساتھ ایک نئی جہت بخشی۔
٭...نصرت فتح علی خان صوفیانہ کلام کو اس مہارت سے گاتے تھے کہ سننے والوں پر وجد طاری ہو جاتا۔
٭... ان کی قوالی ''دم مست قلندر علی علی‘‘ کو عالمی مقبولیت حاصل ہے۔
٭...نصرت فتح علی خاں کی قوالی کے 125 سے زائد آڈیو البم جاری ہوئے۔
٭... فنی خدمات پر صدارتی ایوارڈ سمیت متعدد ملکی اور عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
٭... ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔
٭... انہیں پرائیڈآف پرفارمنس سمیت متعدد ملکی اور عالمی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
٭... نصرت فتح علی خان 16 اگست 1997 ء کو لندن کے ایک ہسپتال میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔
مقبول قوالیاں و گیت
٭... اللہ ھو، ٭... وہی خدا ہے،٭...میری زندگی ہے تو،٭... کسی دا یار نا وچھڑے، ٭...تم اک گورکھ دھندا ہو،٭... یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے
نصرت کی گائی ہوئی غزلیں
٭...نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے(قمر جلالوی)
٭...میرے رشک قمر(فنا بلند شہری)
٭...سادگی تو ہماری ذرا دیکھیے اعتبار آپ کے وعدے پر کر لیا(صبا اکبرآبادی)
٭...ہے کہاں کا ارادہ تمہارا صنم کس کے دل کو اداؤں سے بہلاؤ گے(فنا بلند شہری)
٭...ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہمارا کرو(فنا نظامی کانپوری)
٭...آنکھ اٹھی محبت نے انگڑائی لی دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں(فنا بلند شہری)
٭...آج کوئی بات ہو گئی(پرنم الہ آبادی)
٭...ان کی طرف سے ترک ملاقات ہو گئی(قمر جلالوی)
٭...شہر فصل گل سے چل کر پتھروں کے درمیاں(بشیر فاروقی)
٭...پھروں ڈھونڈتا میکدہ توبہ توبہ مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں ہے
٭...مست نظروں سے اللہ بچائے مہ جمالوں سے اللہ بچائے
٭...سحر قریب ہے تاروں کا حال کیا ہوگا
٭...میری آنکھوں کو بخشے ہیں آنسو دل کو داغ الم دے گئے ہیں