خیالات کو الفاظ میں بدلنے والی ٹیکنالوجی
اسپیشل فیچر
انسانی دماغ صدیوں سے سائنسدانوں اور محققین کے لیے تجسس کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ رہا ہے۔ سوچنا، محسوس کرنا اور اظہار کرنا انسانی وجود کے بنیادی افعال ہیں‘ لیکن جب کوئی شخص کسی بیماری یا حادثے کے باعث بولنے یا لکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے تو وہ اپنی سب سے بڑی جسمانی صلاحیت یعنی 'قوتِ اظہار‘ سے محروم ہو جاتا ہے۔تاہم حالیہ دنوں میں ایک ایسی حیران کن تحقیق کے نتائج سامنے آئی ہے جس نے دنیا بھر کے طبی اور ٹیکنالوجی کے ماہرین اور عام لوگوں کو یکساں طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ ایجاد ہے ایک نیا دماغی امپلانٹ ایک نیاBrain-Computer Interface (BCI) ہے جو اندرونی خیالات کو براہِ راست تقریر یا تحریر میں بدل سکتا ہے۔یہ نظام ایک چھوٹے سے امپلانٹ پر مشتمل ہے جو براہِ راست دماغی سرگرمیوں کی پیمائش کرتا ہے، خاص طور پر ان سگنلز کو جو Phonemes کہلاتے ہیں۔ فونیمز زبان کی وہ سب سے چھوٹی اکائیاں ہیں جن کے مجموعے سے الفاظ بنتے ہیں۔ امپلانٹ دماغی سگنلز کو ریکارڈ کرتا ہے اور مشین لرننگ الگورتھمز ان سگنلز کا موازنہ فونیمز سے کرتے ہیں۔ اس طرح دماغ میں موجود ''غیر بولے گئے خیالات‘‘ کو کمپیوٹر پڑھ لیتا ہے اور انہیں الفاظ میں ڈھال دیتا ہے۔ یہ ڈیوائس دماغی سگنلز کو مشینی ذہانت (Machine Learning) کی مدد سے الفاظ اور جملوں میں ڈھالنے کے کام کے لیے تربیت یافتہ ہے۔ اس تجربے میں چار ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو فالج کا شکار تھے اور انہیں بات کرنے یا لکھنے میں شدید مشکل کا سامنا تھا، لیکن انہوں نے صرف سوچ کر پر اپنی''inner speech‘‘ یعنی اندرونی گفتگو کو کمپیوٹر پر منتقل کیا۔ اس تجربے نے بے حد امید افزا نتائج دیے72 فیصد تک سوچ کو آواز میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ماضی میں BCI ایسے افراد کے دماغی سگنلز استعمال کرتا تھا جو بولنے یا لکھنے کی کوشش کرتے تھے لیکن یہ نیا نظام ایک قدم آگے ہے۔یہ صرف خیال پر مشتمل سگنلز کو پہچانتا ہے جو کہ آسان، تیز اور زیادہ مؤثر بھی ہو سکتا ہے۔ ان مشینی ماڈلز نے ایک لاکھ پچیس ہزار الفاظ تک کی زبان سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی۔
اگرچہ کچھ دماغی پیٹرنز واقعتاً بولنے کی کوشش کے دوران پیدا ہونے والے سگنلز سے مشابہت رکھتے تھے لیکن مشینی ماڈل نے انہیں الگ پہچاننا ممکن بنایا۔ تحقیق کے مصنفین کے بقول ہم proof of principle حاصل کر چکے ہیں، اگرچہ ابھی سمجھنے میں اتنی مہارت نہیں جیسی کہ بولنے کی کوشش کی صورت میں ملتی ہے۔مگراس ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی کامیابی ہی اس کا سب سے بڑا خطرہ بھی بن سکتی ہے۔وہ یوں کہ اگر انسانی دماغ کے خیالات براہِ راست ریکارڈ کیے جا سکتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کسی کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں ہو گی؟ محققین نے اس پہلو پر بھی غور کیا اور ایک اہم حل تجویز کیا۔ انہوں نے ایک ''ذہنی پاس ورڈ‘‘ کا تصور پیش کیا جسے سوچ کر سسٹم کو فعال یا غیر فعال کیا جا سکے۔ تجربات میں یہ طریقہ 98 فیصد کامیاب ثابت ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو صرف اس وقت استعمال کیا جا سکے گا جب خود مریض اس کی اجازت دے۔اس ٹیکنالوجی کے مستقبل کے حوالے سے ترقی کی راہیں روشن نظر آتی ہیں اور محققین پُر امید ہیں کہ اپ گریڈڈ امپلانٹس اور دماغ کے مزید حصوں کی میپنگ کے ذریعے اس نظام کو چند سالوں میں بہتربنایا جا سکتا ہے۔ یہ تحقیق ایک حیرت انگیز پیش رفت ہے جو مستقبل میں توجہ کا مرکز بن سکتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں جسمانی معذوری کے باوجود افراد براہِ راست اپنے خیالات کو آواز میں بیان کر سکیں،یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سے فقط طبی اور سماجی فوائد نہیں بلکہ ایک نئی امید جنم لے رہی ہے کہ شاید ایک دن ہم ایسی دنیا دیکھیں گے جہاں بات کرنا مزید آسان، مؤثر اور قدرتی ہو گا۔ماہرین پرامید ہیں کہ آنے والے چند برسوں میں یہ ٹیکنالوجی مزید بہتر اور وسیع پیمانے پر استعمال کے قابل ہو جائے گی۔ اگر مزید دماغی حصوں کی میپنگ ممکن ہو گئی تو یہ سسٹم صرف 72 فیصد نہیں بلکہ 100 فیصد درستگی کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ اس سے بولنے کی صلاحیت کھو دینے والے لاکھوں افراد کو دوبارہ اظہار کا موقع مل سکتا ہے۔یہ تحقیق صرف معذور افراد کے لیے نہیں بلکہ عام سماج کے لیے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ امکان موجود ہے کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگ بغیر بولے محض سوچ کر ایک دوسرے سے رابطہ قائم کر سکیں گے۔ اس سے رابطے کے ذرائع میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔یعنی لوگ کچھ بھی نہ کہنے کے باوجود اپنی بات دوسرے تک پہنچانے کے قابل ہو جائیںگے۔
دماغی امپلانٹ کی یہ نئی پیش رفت سائنس اور ٹیکنالوجی کے سفر میں ایک انقلابی قدم ہے۔ اگرچہ ابھی یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کی درستگی محدود ہے مگر اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خیالات کو آواز یا متن میں تبدیل کرنا محض سائنس فکشن نہیں بلکہ حقیقت بننے جا رہا ہے۔ یہ ایجاد انسانیت کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کسی معذوری کے باعث اپنی بات دوسروں تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔ مستقبل میں شاید وہ دن دور نہیں جب انسان صرف سوچ کر اپنی بات دنیا تک پہنچا سکے گا ۔