قلو پطرہ کی قبر پانی کے اندر؟
اسپیشل فیچر
دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے معمۂ قبور میں سے ایک مصر کی ملکہ قلوپطرہ کی آخری آرام گاہ ہے، جس کے بارے میں صدیوں سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ حال ہی میں ماہرین آثار قدیمہ نے اس معمے کو حل کرنے کی ایک نئی کڑی دریافت کی ہے۔ ''تاپوسیریس میگنا‘‘ (Taposiris Magna)کے کھنڈرات کے قریب سمندر کی تہہ میں ایک قدیم بندرگاہ کے آثار ملے ہیں، جسے دیکھ کر محققین کو امید ہے کہ یہ راستہ بالآخر قلوپطرہ کی گمشدہ قبر تک لے جا سکتا ہے۔ یہ انکشاف نہ صرف مصر کی تاریخ بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک اہم سائنسی اور تہذیبی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
قلوپطرہ جس نے 51 قبل مسیح سے 30 قبل مسیح تک مصر پر حکومت کی، تاریخ کی سب سے طاقتور اور دلکش ملکہ کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ ان کے مشہور عاشقوں میں رومی آمر جولیس سیزر اور ان کے جانشینوں میں سے ایک مارک انتونی شامل تھے۔قلوپطرہ اور انتونی دونوں نے خودکشی کی اور انہیں ایک ساتھ دفن کیا گیا۔لیکن ان کی موت کو دو ہزار سال سے زیادہ گزر جانے کے باوجود، ان کی آخری آرام گاہ تاحال راز میں ڈوبی ہوئی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ وہ قلوپطرہ کی گمشدہ قبر کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب پہنچ گئے ہیں اور یہ قبر شاید سمندر کے اندر ہو۔ انہیں بحیرہ روم کی تہہ میں ایک ڈوبا ہوا بندرگاہ ملا ہے جو اسکندریہ کے ساحل سے تقریباً دو میل دور واقع ہے، یہ شہر قدیم دور میں اپنی تاریخی اہمیت کے باعث مشہور تھا۔یہ زیر آب بندرگاہ، جو تقریباً 40 فٹ گہرائی میں ہے، اس جوڑے کے مزار تک پہنچنے کا سراغ دے سکتی ہے۔
ساحل سے دور واقع یہ بندرگاہ، جو اب پانی میں ڈوب چکی ہے، کبھی ''تاپوسیریس میگنا‘‘ سے جڑی ہوئی تھی۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے جہاں از سرِ نو تعمیر شدہ ایک قدیم مندر موجود ہے جو اوسیریس، یعنی ''دیوتاے موت‘‘ کے نام سے منسوب تھا۔''تاپوسیریس میگنا‘‘ جس کے نام کا مطلب ہے ''اوسیریس کی عظیم قبر‘‘ ، اسکندریہ سے تقریباً 30 میل کے فاصلے پر واقع ہے، جو کبھی مصر کا دارالحکومت رہا ہے۔ کیتھلین مارٹینیز (Kathleen Martínez) جو قلوپطرہ کی قبر کی طویل عرصے سے تلاش میں ہیں،نے حالیہ غوطہ خوری کے ایک سلسلے میں اس بندرگاہ کو دریافت کیا۔ اس مہم میں ان کے ساتھ باب بیلرڈ (Bob Ballard) بھی شامل تھے، جو ٹائی ٹینک کے ملبے کے دریافت کنندہ کے طور پر مشہور ہیں۔یہ بندرگاہ، جو مندر سے منسلک تھی، ممکنہ طور پر قلوپطرہ کی قبر کے بارے میں ایک نہایت اہم سراغ فراہم کر سکتی ہے، یا پھر براہِ راست اس کی آخری آرام گاہ تک لے جا سکتی ہے۔
نئی دریافت ہونے والی اس عمارت میں ستون، چمکدار پتھروں کے فرش اور بکھری ہوئی ایمفورا (لمبے قدیم برتن جو شراب لے جانے کیلئے استعمال ہوتے تھے) شامل ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں ماضی میں سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔مصری وزارتِ سیاحت و آثار قدیمہ نے، جس نے یہ خبر فیس بک پر شیئر کی، اس دریافت کو ''قدیم سمندری سرگرمیوں کا ممکنہ ثبوت‘‘ قرار دیا ہے۔مارٹینیز، جو اکتوبر 2005ء سے تاپوسیریس میگنا کی کھدائی اور تلاش میں مصروف ہیں کا کہنا ہے کہ اب یہ محض ''وقت کا معاملہ ہے‘‘ کہ قبر دریافت ہو جائے۔انہوں نے نیشنل جیوگرافک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دو ہزار برس سے وہاں کوئی نہیں گیا، ہم پہلے لوگ ہیں۔
2022ء میں مارٹینیز اور ان کی ٹیم نے تاپوسیریس میگنا کے کھنڈرات کے نیچے چٹانوں کی تہوں میں سے گزرتی ہوئی 4,300 فٹ طویل سرنگ دریافت کی تھی۔اس سرنگ کے اندر انہیں مٹی کے برتن ملے جو بطلیموسی سلطنت کے زمانے سے تعلق رکھتے تھے اور قلوپطرہ اسی سلطنت کی آخری حکمران تھیں۔مارٹینیز کا ماننا ہے کہ قلوپطرہ کی موت کے بعد انہیں تاپوسیریس میگنا لایا گیا، زیر زمین سرنگ کے راستے بندرگاہ کی سمت منتقل کیا گیا اور وہیں دفن کر دیا گیا۔یہ سرنگ براہِ راست بندرگاہ کی جانب اشارہ کرتی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ دونوں کے اصل افعال آپس میں جڑے ہوئے تھے، شاید کسی خفیہ نیٹ ورک کا حصہ ہوں۔تاہم ماہر کا کہنا ہے کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ قلوپطرہ کی قبر مندر کے کھنڈرات ہی میں کہیں موجود ہو، جیسا کہ طویل عرصے سے یہ عمومی خیال رہا ہے۔ مارٹینیز کا کہنا تھا ''کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قلوپطرہ تاپوسیریس میگنا میں نہیں ہیں۔ یہ کہنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ پورے علاقے کی کھدائی کریں اور انہیں وہاں نہ پائیں‘‘۔
قلوپطرہ مصر کی آخری فرعون تھیں اور انہوں نے 51 قبل مسیح سے اپنی وفات 30 قبل مسیح تک بطلیموسی سلطنت مصر پر حکمرانی کی۔ ان کی عمر محض 39 برس تھی جب رومی خانہ جنگیوں میں شکست کے بعد انہوں نے زندگی کا خاتمہ کیا۔وہ اپنی کشش اور حسن کو سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کرنے کے باعث مشہور رہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے جولیس سیزر کو متاثر کر کے روم کے ساتھ مصر کے اتحاد کو مضبوط کیا اور بعد میں ان کے جانشین مارک انتونی کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا۔خود کو اور انتونی کو مصری عوام کے ذہنوں میں حکمرانوں کے طور پر مستحکم کرنے کیلئے، قلوپطرہ نے بڑی محنت سے اپنی اور انتونی کی شناخت کوایک اساطیری قصے سے جوڑنے کی کوشش کی۔
مارٹینیز کا خیال ہے کہ قلوپطرہ نے حقیقت میں ایک ایسا منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت اس کا اور اس کے محبوب کا جسد ایسے مقام پر رکھا جائے جہاں رومی سوچ بھی نہ سکیں۔انہوں نے نیشنل جیوگرافک کو بتایا کہ انہیں ایسا مقام منتخب کرنا تھا جہاں وہ مارک انتونی کے ساتھ اپنی بعد از مرگ زندگی کیلئے خود کو محفوظ سمجھ سکیں۔دو ہزار برس سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی، جو بھی قلوپطرہ کا منصوبہ تھا، وہ آج تک کامیاب دکھائی دیتا ہے۔