قطب شمالی برف، سمندر اور اسرار کا متزاج
اسپیشل فیچر
قطب شمالی، جسے شمالی قطب (North Pole) بھی کہا جاتا ہے، کرہ ارض کا شمالی ترین نقطہ ہے، جو 90° شمالی عرض بلد پر واقع ہے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جو زمین کے گردشی محور کا شمالی سرا ہے اور درحقیقت یہ کسی ٹھوس زمین کے بجائے بحر منجمد شمالی (Arctic Ocean) کے منجمد پانی اور برف کی تہہ پر واقع ہے۔ اس کی یہ منفرد جغرافیائی حیثیت اسے دنیا کے سب سے پر اسرار اور مشکل ترین علاقوں میں سے ایک بنا دیتی ہے۔ قطب شمالی صرف جغرافیائی اہمیت کے ساتھ حیاتیاتی تنوع، موسمیاتی نظام اور بین الاقوامی سیاست کیلئے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
قطب شمالی کی سب سے اہم خصوصیت اس کا محل وقوع ہے۔ یہ اس مقام کی نشاندہی کرتا ہے جہاں سے آپ کسی بھی سمت چلیں، وہ جنوب ہی کہلائے گی۔ یہ جغرافیائی قطب شمالی کہلاتا ہے جس سے قطب نما (Compass) کا مقناطیسی شمالی قطب مختلف ہوتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ تبدیل کرتا رہتا ہے۔
قطب شمالی کی آب و ہوا انتہائی سرد ہوتی ہے۔ یہاں کی اوسط سالانہ درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سیلسیس کے قریب رہتا ہے جبکہ گرمیوں میں یہ نقطہ انجماد تک پہنچ سکتا ہے۔ اس علاقے میں سال کے چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات رہتی ہے۔ سورج مارچ کے اعتدال (Equinox) کے قریب طلوع ہوتا ہے اور ستمبر کے اعتدال کے قریب غروب ہو جاتا ہے۔ مسلسل روشنی یا مسلسل تاریکی کا دورانیہ اسے دنیا کے دیگر علاقوں سے ممتاز کرتا ہے۔
شمالی قطب اور اس کے گرد و نواح میں زندگی موجود ہے۔ قطبی ریچھ (Polar Bears) یہاں کی سب سے مشہور مخلوق ہیں جو برف پر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ وہیل مچھلیاں، نروہل اور کئی قسم کی سمندری پرندے بھی اس خطے کا حصہ ہیں۔قطب شمالی کو صدیوں تک ناقابل تسخیر علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ابتدائی یورپی مہم جو بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل تک مختصر بحری راستہ، جسے شمال مغربی راستہ کہا جاتا ہے، تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
قطب شمالی تک پہنچنے کا سب سے پہلا مصدقہ دعویٰ امریکی مہم جو رابرٹ پیری (Robert Peary)نے 1909ء میں کیا تھا۔ قطب شمالی تک پہنچنے والے جدید طریقوں میں ہوائی جہاز، آئس بریکر بحری جہاز اور زیر آب آبدوزیں شامل ہیں۔ 1958ء میں، امریکی جوہری آبدوز یو ایس ایس ناٹیلس (USS Nautilus)نے قطب شمالی کے نیچے سے گزر کر تاریخ رقم کی۔ سائنسدانوں نے یہاں عارضی تحقیقی اسٹیشن قائم کیے ہیں، روس کے ڈرفٹنگ اسٹیشنز اس کے سب سے بڑی مثال ہیں اور وہ سمندری دھاروں، موسم اور برف کی ساخت کا مطالعہ کرتے ہیں۔
قطب شمالی دنیا کے سب سے زیادہ زیر بحث علاقوں میں سے ایک ہے اور اس کی بنیادی وجہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی (Global Climate Change) ہے۔ شمالی قطب کا علاقہ زمین کے ان حصوں میں شامل ہے جہاں درجہ حرارت میں اضافہ سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ آرکٹک کی برف، جو کرہ ارض کیلئے ریگولیٹر کا کام کرتی ہے، تیزی سے پگھل رہی ہے۔ یہ برف سورج کی روشنی کو واپس خلا میں منعکس کرتی ہے۔ جب برف پگھل کر گہرے نیلے سمندر میں تبدیل ہو جاتی ہے تو سمندر زیادہ گرمی جذب کرنے لگتا ہے جس سے برف پگھلنے کا عمل مزید تیز ہو جاتا ہے۔
برف کے پگھلنے سے قطبی ریچھوں، والرس اور سیل مچھلیوں کے قدرتی مساکن خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ قطبی ریچھوں کو شکار کیلئے بڑی برف کی شیٹس کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی غیر موجودگی ان کی نسل کو معدومیت کے قریب لا رہی ہے۔
آرکٹک کی برف اگرچہ بذات خود سمندر کی سطح میں زیادہ اضافہ نہیں کرتی کیونکہ یہ پہلے ہی پانی میں تیر رہی ہے لیکن گرین لینڈ جیسے قریبی علاقوں کی برف کی چادروں کا پگھلنا سمندر کی سطح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے جس سے دنیا بھر کے ساحلی علاقے خطرے سے دوچار ہیں۔
برف کے پگھلنے نے قطب شمالی کی اقتصادی اور سیاسی اہمیت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ برف کے کم ہونے سے شمال مغربی راستہ اور شمالی بحری راستہ قابل رسائی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نئے راستے ایشیا اور یورپ کے درمیان سمندری سفر کا وقت اور فاصلہ بہت کم کر سکتے ہیں جس سے عالمی تجارت پر مثبت اثر پڑے گا۔
بحر منجمد شمالی کے نیچے تیل، گیس، اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ان وسائل کو نکالنے کی دوڑ میں امریکہ، روس، کینیڈا، ڈنمارک اور ناروے جیسے ممالک شامل ہیں جو آرکٹک کے علاقوں پر اپنے علاقائی دعوے پیش کر رہے ہیں۔ یہ دعوے بین الاقوامی قانون اور سلامتی کے نئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔