انسانی ذہن کو نشانہ بنانے والی ٹیکنالوجی’’برین ویپنز‘‘
اسپیشل فیچر
جدید سائنس کا سیاہ رخ، سائنسدانوں کا خوفناک انتباہ جاری
''دماغ پر کنٹرول‘‘ کرنے والے ہتھیار بظاہر کسی سائنس فکشن فلم کا خیال محسوس ہوتے ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ حقیقت کا روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ سائنس دانوں نے ذہن کو بدل دینے والے ''برین ویپنز‘‘ کے بارے میں ایک خوفناک انتباہ جاری کیا ہے، جو انسان کے ادراک، یادداشت اور یہاں تک کہ رویہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ نئی شائع شدہ کتاب ''Preventing Weaponization of CNS-acting Chemicals: A Holistic Arms Control Analysis Check Access‘‘ میں بریڈفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر مائیکل کراؤلی اور پروفیسر میلکم ڈینڈو کا کہنا ہے کہ حالیہ سائنسی پیش رفت کو ایک ''وارننگ‘‘ سمجھا جانا چاہیے۔ وہ علم جو ہمیں اعصابی امراض کا علاج کرنے میں مدد دیتا ہے، اس کا غلط استعمال سوچ میں خلل ڈالنے، جبری اطاعت پیدا کرنے یا مستقبل میں لوگوں کو انجانے ایجنٹوں میں تبدیل کرنے کیلئے بھی کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ، چین، روس اور برطانیہ سمیت کئی ممالک 1950ء کی دہائی سے مرکزی اعصابی نظام (CNS) کو نشانہ بنانے والے ہتھیاروں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اب ڈاکٹر کراؤلی اور پروفیسر ڈینڈو کا کہنا ہے کہ جدید نیورو سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ انتہائی خوفناک ذہنی ہتھیار حقیقت بن سکتے ہیں۔ پروفیسر ڈینڈو کے مطابق ''ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں دماغ خود جنگ کا میدان بن سکتا ہے۔
مرکزی اعصابی نظام میں مداخلت کے آلات خواہ وہ بے ہوشی پیدا کرنا ہوں، ذہنی انتشار یا جبراً اطاعت، زیادہ درست، زیادہ قابلِ حصول اور ریاستوں کیلئے زیادہ پرکشش ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں دنیا کی بیشتر بڑی طاقتیں اپنے ذہن کنٹرول کرنے والے ہتھیار تیار کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہی تھیں۔ ان کا مقصد ایسے آلات بنانا تھا جو بڑی تعداد میں لوگوں کو بے ہوشی، وہم، الجھن یا نیند کے ذریعے غیر فعال کر سکیں۔ سب سے زیادہ مشہور امریکی فوج نے ''BZ‘‘ مرکب تیار کیا، جو شدید حیرت، وہم، اور ذہنی خلل پیدا کرتا ہے۔
اسی دوران، چینی فوج نے ایک ''نارکوسس گن‘‘ تیار کی، جو سیرنج کے ذریعے غیر فعال کرنے والے کیمیکلز چھوڑنے کیلئے ڈیزائن کی گئی تھی۔ تاہم، ڈاکٹر کراؤلی اور پروفیسر ڈینڈو بتاتے ہیں کہ مرکزی اعصابی نظام کو نشانہ بنانے والے ہتھیار کا واحد استعمال لڑائی میں روسی سیکیورٹی فورسز نے 2002ء کے ماسکو تھیٹر محاصرہ میں کیا۔ جب مسلح چیچن جنگجوؤں نے 900 شہریوں کو یرغمال بنایا، سیکیورٹی فورسز نے انہیں غیر فعال کرنے کیلئے فینٹانائل سے ماخوذ ''انکیپسیٹیٹنگ کیمیکل ایجنٹ‘‘ استعمال کیا۔ اگرچہ اس کیمیائی ہتھیار نے محاصرہ تو ختم کرا دیا، مگر گیس نے 900 میں سے 120 یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا اور متعدد دیگر افراد طویل المدتی طبی مسائل یا قبل از وقت موت سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد سے ایسے ہتھیاروں کی ذہن کو مسخ کرنے والی صلاحیتیں صرف دشمن کو بے ہوش کرنے یا وہم پیدا کرنے تک محدود نہیں رہیں۔ وہی سائنسی تحقیق جو اعصابی امراض کے علاج میں مدد دے رہی ہے، انہی دماغی افعال کو نشانہ بنانے والے ہتھیار بنانے کیلئے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ پروفیسر ڈینڈو کہتے ہیں: ''یہی وہ دوہری نوعیت کا مسئلہ ہے جس کا ہمیں سامنا ہے‘‘۔ مثال کے طور پر، سائنس دان دماغ کے ''سر وائیول سرکٹس‘‘ (survival Circuits) کا مطالعہ کر رہے ہیں، یعنی وہ عصبی راستے جو خوف، نیند، جارحیت اور فیصلہ سازی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان سرکٹس کو سمجھنا اعصابی بیماریوں کے علاج کیلئے ضروری ہے، مگر اسی علم سے دماغ کے ان حصوں کو ہتھیار بنانے کی راہ بھی کھلتی ہے۔
محققین خبردار کرتے ہیں کہ مرکزی اعصابی نظام کو نشانہ بنانے والے ہتھیار اس وقت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق قوانین میں موجود ایک ''خلا‘‘ (loophole) میں آتے ہیں۔کیمیکل ویپنز کنونشن جنگ میں نقصان دہ کیمیکلز کے استعمال پر پابندی عائد کرتا ہے، لیکن اس میں ایک مبہم گرے ایریا موجود ہے جو بعض حالات میںجیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی میں مخصوص کیمیکلز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔یہ صورتحال موجودہ قوانین کے اندر رہتے ہوئے طاقتور ذہنی کنٹرول کرنے والے ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کیلئے ایک ممکنہ قانونی جواز فراہم کرتی ہے۔
پروفیسر ڈینڈو کہتے ہیں: ''ان معاہدوں کے اندر اور ان کے درمیان بعض خطرناک ریگولیٹری خلا موجود ہیں۔ اگر انہیں پر نہ کیا گیا تو ہمیں خدشہ ہے کہ کچھ ممالک ان خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے CNS اور دیگر ذہنی طور پر غیر فعال کرنے والے ہتھیاروں کے خصوصی پروگرام شروع کر سکتے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں: ''ہمیں ابھی اقدام کرنا ہوگا تاکہ سائنس کی حرمت اور انسانی ذہن کی تقدیس کا تحفظ کیا جا سکے‘‘۔
یہ کیا ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں؟
ان ہتھیاروں کو ''سائیکو ٹرونک‘‘ (psychotronic) یا ''مائنڈ کنٹرول ویپنز‘‘ (Mind Control Weapons) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ''الیکٹرومیگنیٹک‘‘ (electromagnetic) طاقتوں کا استعمال کر کے مختلف نتائج حاصل کرتے ہیں۔ ان میں ذہن پڑھنا، ذہنی کنٹرول، اذیت دینا اور ہراساں کرنا شامل ہیں۔ان دعوؤں کی بنیاد کچھ حد تک حقیقت پر بھی ہے۔1953ء میں، اس وقت کے سینٹرل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر نے باضابطہ طور پر پروجیکٹ ''ایم کے الٹرا‘‘ (MKUltra) کی منظوری دی تھی۔ اس کا مقصد امریکی حکومت کو یہ تجربات کرنے میں مدد دینا تھا۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے 1977ء میں گواہی دی تھی کہ وہ اس مقصد کو ''انسانی رویّے کو بدلنے میں حیاتیاتی اور کیمیائی مواد کے استعمال‘‘ کے ذریعے حاصل کرنے کی امید رکھتے تھے۔ بعد میں ایسے فوٹیج سامنے آئے جس میں دکھایا گیا کہ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت پر تجربات کیے گئے تاکہ دشمن افواج کو کنٹرول یا قابو میں رکھا جا سکے۔ اس کے بعد سے، سازشی نظریات رکھنے والوں نے دعوے بڑھاتے ہوئے کہا کہ CIA یا دیگر ادارے مختلف تکنیکوں پر تجربات کر سکتے ہیں۔کچھ افراد کا دعویٰ ہے کہ انہیں psychotronic ہتھیاروں کا نشانہ بنایا گیا، جس سے مختلف ناخوشگوار اثرات سامنے آئے۔ ان میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگوں کے ذہن میں خیالات اور آوازیں پہنچائی جائیں، حالانکہ زیادہ تر طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ عصبی یا نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ہوتا ہے۔