صنفِ لاغر!
اسپیشل فیچر
سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اور سونگھنے کے بعد ہوتا ہے اور اگر مارگزیدہ مرجائے تو سانپ کی قسم کا پتہ چلانابھی چنداں دشوار نہیں۔ لیکن آخر الذکر خالص مشک کی طرح، اپنی قسم کا خود اعلان کر دیتی ہیں۔
بات قسموں کی ہورہی تھی اورہم کہنا یہ چاہتے تھے کہ آجکل عورتوں کو دوقسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جوموٹی ہیں، دوسرے وہ جو دبلی نہیں ہیں۔ آپ کہیں گے ''آخر ان دونوں میں فرق کیا ہوا؟ یہ تو وہی الف دو زبراً اور الف نون زبران والی بات ہوئی‘‘۔ مگر آپ یقین جانئے کہ دونوں قسموں میں دبلے ہونے کی خواہش کے علاوہ اور کوئی بات مشترک نہیں۔ ان کے حدود اربعہ، خط و خال اور نقوش جدا جدا ہیں اور اس میں کاتب تقدیر کی کسی املا کی غلطی کا قطعاً کوئی شائبہ نہیں۔ اصل فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر طبقہ (جو صحیح معنوں میں ایک فرقہ کی حیثیت رکھتا ہے) کھانے کیلئے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ دوسرا طبقہ زندہ رہنے کیلئے کھاتا ہے۔ پہلا طبقہ دوا کو بھی غذا سمجھ کر کھاتا ہے اور دوسراطبقہ غذا کو بقدر دوا استعمال کرتا ہے۔ ایک کھانے پر جان دیتا ہے اور دوسرا کھانے کو دوڑ تا ہے۔
فرق باریک ضرور ہے، لیکن اگر آپ نے کبھی فن برائے فن، زندگی برائے فن، فن برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی وغیرہ بحث سنی ہے تو یہ فرق بخوبی سمجھ میں آ جائے گا۔ اس مضمون میں روئے سخن دوسرے طبقہ سے ہے جو دبلانہیں ہے مگر ہونا چاہتا ہے۔زمانہ قدیم میں ایران میں نسوانی حسن کا معیار چالیس صفات تھیں (اگرچہ ایک عورت میں ان کا یکجا ہونا ہمیشہ نقض امن کا باعث ہوا) اور یہ مشہور ہے کہ شیریں ان میں سے انتالیس صفات رکھتی تھی۔ چالیسویں صفت کے بارے میں مورخین متفقہ طور پر خاموش ہیں۔ لہٰذا گمان غالب ہے کہ اس کاتعلق چال چلن سے ہوگا۔ اس زمانے میں ایک عورت میں عموماً ایک ہی صفت پائی جاتی تھی۔ اس لئے بعض بادشاہوں کو بدرجہ مجبوری اپنے حرم میں عورتوں کی تعداد بڑھانی پڑی۔ ہر زمانے میں یہ صفات زنانہ لباس کی طرح سکڑتی، سمٹتی اورگھٹتی رہیں۔ بالآخر صفات تو غائب ہو گئیں، صرف ذات باقی رہ گئی۔ یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ ذات و صفات کی بحث سے قطع نظر یہی کیا کم ہے کہ عورت صرف عورت ہے۔ ورنہ وہ بھی رد ہو جاتی تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔
آج کل کھاتے پیتے گھرانوں میں دبلے ہونے کی خواہش ہی ایک ایسی صفت ہے جو سب خوبصورت لڑکیوں میں مشترک ہے۔ اس خواہش کی محرک دور جدید کی ایک جمالیاتی دریافت ہے، جس نے تندرستی کوایک مرض قرار دے کر بدصورتی اور بدہیئتی سے تعبیر کیا۔ مردوں کی اتنی بڑی اکثریت کو اس رائے سے اتفاق ہے کہ اس کی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے جہاں یرقان حسن کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو جائے اور جسم بیمار و تن لاغر حسن کامعیار بن جائیں، وہاں لڑکیاں اپنے تندرست و توانا جسم سے شرمانے اور بدن چرا کر چلنے لگیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یوںسمجھئے کہ حوا کی جیت کا راز آدم کی کمزوری میں نہیں بلکہ خود اس کی اپنی کمزوری میں مضمر ہے۔ اگر آپ کو یہ نچڑے ہوئے دھان پان بدن، ستے ہوئے چہرے اور سوکھی بانہیں پسند نہیں تو آپ یقیناً ڈاکٹر ہوں گے۔ ورنہ اہل نظر تو اب چہرے کی شادا بی کو ورم، فربہی کو جلندھر اور پنڈلی کے سڈول پن کو ''فیل پا‘‘ گردانتے ہیں۔
وزن حسن کا دشمن ہے (یاد رکھیئے رائے کے علاوہ ہر وزنی چیز گھٹیا ہوتی ہے) اسی لئے ہر سمجھ دار عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی چربی کی دبیز تہوں کے خول کو سانپ کی کینچلی کی طرح اتار کراپنی عزیز سہیلیوں کو پہنا دے۔ عقد نا گہنانی کے بعد کہ جس سے کسی کو مفر نہیں، ہر لڑکی کا بیشتر وقت اپنے وزن اور شوہر سے جنگ کرنے میں گزرتا ہے۔ جہاں تک زن و شوہر کی جنگ کا تعلق ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ شہید کون ہوتا ہے اور غازی کون لیکن زن اور وزن کی جنگ میں پلہ فریق اوّل ہی کا بھاری رہتا ہے، اس لئے جیت فریق ثانی کی ہوتی ہے۔
مٹاپے میں ایک خرابی یہ ہے کہ تمام عمر کو گلے کا ہار ہو جاتا ہے اور بعض خواتین گھر کے اندیشوں اور ہمسایوں کی خوش حالی سے بھی دبلی نہیں ہوتیں۔ ''تن‘‘ کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں،دراصل گرہستی زندگی کی آب و ہوا ہی ایسی معتدل ہے کہ مولسری کا پھول دو تین سال میں گوبھی کا پھول بن جائے تو عجب نہیں۔
مٹاپا عام ہویا نہ ہو، مگر دبلے ہونے کی خواہش جتنی عام ہے اتنی ہی شدید بھی۔ آئینے کی جگہ اب وزن کم کرنے کی مشین نے لے لی ہے۔ بعض نئی مشینیں تو ٹکٹ پر وزن کے ساتھ قسمت کا حال بھی بتاتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ عورتوں کی قسمت کے خانے میں صرف ان کا وزن لکھا ہوتا ہے۔ عورتوں کو وزن کم کرنے کی دوائوں سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ادھیڑ مردوں کو یونانی دواؤں کے اشتہاروں سے۔ اگر یہ دلچسپی ختم ہو جائے تو دواؤں کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے کچھ پہلے وہ اخبارات بھی بند ہو جائیں جن میں یہ اشتہارات نکلتے ہیں۔ اگر آپ کو آسکر وائلڈ کی رائے سے اتفاق ہے کہ آرٹ کا اصل مقصد قدرت کی خام کاریوں کی اصلاح اور فطرت سے فی سبیل اللہ جہاد ہے، تو لازمی طور پر یہ مانناپڑے گاکہ ہر بدصورت عورت آرٹسٹ ہے۔ اس لئے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی ساری تگ و دو کا منشا سیاہ کو سفیدکر دکھانا، وزن گھٹانا اور ہر سالگرہ پر ایک موم بتی کم کرنا ہے۔