آج کا دن
اسپیشل فیچر
انسانی حقوق کا اعلامیہ
10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں لاکھوں انسانوں کے قتل، نسل کشی، جبری مشقت، جلاوطنی اور ظلم و جبر کے بعد دنیا کو ایسی دستاویز کی ضرورت تھی جو ہر انسان کے بنیادی، پیدائشی اور ناقابلِ تنسیخ حقوق کی وضاحت کرے۔ یہ اعلامیہ ایلینور وزویلٹ کی سربراہی میں کام کرنے والی ایک کمیشن کی محنت کا نتیجہ تھا۔ اس میں 30 آرٹیکلز شامل کیے گئے جن میں آزادی ٔاظہار، مذہبی آزادی، قانون کے سامنے مساوات، تعلیم کا حق، زندگی اور تحفظ کا حق، جبری مشقت اور تشدد کی ممانعت، آزادانہ نقل و حرکت اور منصفانہ عدالتی کاروائی جیسے اصول شامل تھے۔
پہلا نوبیل انعام
10 دسمبر 1901ء کو دنیا میں پہلی مرتبہ نوبیل انعامات تقسیم کیے گئے۔ اسی تاریخ کو سویڈن کے سائنسدان اور ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبیل کی برسی بھی ہوتی ہے۔ نوبیل نے اپنی وصیت میں کہا کہ فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، ادب اور امن کے شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں کو ہر سال انعام دیا جائے گا۔ بعد میں معاشیات کا نوبیل انعام بھی شامل ہوا۔ 1901ء میں انعامات کی پہلی تقریب میں مختلف ممالک کے سائنسدان، مصنفین اور امن کے علمبرداروں کو اعزازات سے نوازا گیا۔ اس دن نے عالمی سطح پر علمی اور اخلاقی خدمات کو ایک نئے معیار پر متعارف کرایا، جو آج تک جاری ہے۔
پیرس معاہدہ
10 دسمبر 1898ء کو امریکہ اور سپین کے درمیان پیرس معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے نتیجے میں سپین امریکہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ معاہدے کے تحت سپین نے کیوبا پر اپنا قبضہ ختم کیا جبکہ پورٹو ریکو، فلپائن اور گوام امریکہ کے زیرِ انتظام آگئے۔ اس معاہدے نے امریکہ کو پہلی بار ایک بین الاقوامی نوآبادیاتی طاقت بنا دیا اور بحرالکاہل و بحرِ اوقیانوس میں اس کے اثرات کو بڑھایا۔ فلپائن پر قبضے نے امریکہ کو ایشیا میں ایک سٹریٹجک مقام فراہم کیا۔ معاہدے کے اثرات مقامی آبادیوں پر بھی بہت گہرے تھے۔ فلپائن میں امریکی قبضے کے خلاف آزادی کی تحریک نے جڑ پکڑی، پورٹو ریکو کے سیاسی مستقبل پر بحث شروع ہوئی اور کیوبا کا سیاسی ڈھانچہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار رہا۔ یہ دن عالمی طاقتوں کی نئی تقسیم کی ابتدا کا نشان مانا جاتا ہے۔
نیلسن منڈیلا کوامن انعام
1993ء کے نوبیل امن انعام کا اعلان 10 دسمبر کو کیا گیا جو نیلسن منڈیلا اور فریڈریک ڈی کلرک کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔ یہ انعام نسل پرستی کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے ان دونوں رہنماؤں کی کوششوں کا اعتراف تھا۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال جیل میں گزارے لیکن انہوں نے کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔ رہائی کے بعد انہوں نے سفید فام حکومت سے مذاکرات کے ذریعے پرامن سیاسی انتقالِ اقتدار کی کوشش جاری رکھی۔ دوسری جانب صدر ڈی کلرک نے جنوبی افریقہ کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کا آغاز کیا، پابندیوں ختم کیں، اپارتھائیڈ قوانین منسوخ کیے اور پہلے آزاد انتخابات کی بنیاد رکھی۔