VILPA:مختصر وقفوں کی ورزش صحت مند زندگی کا راز

VILPA:مختصر وقفوں کی ورزش صحت مند زندگی کا راز

اسپیشل فیچر

تحریر : موسیٰ الطاف


آج کی تیزرفتار زندگی میں باقاعدہ ورزش کے لیے وقت نکالنا بہت سے لوگوں کے لیے مشکل کام بن چکا ہے۔ مصروف شیڈول، دفتری ذمہ داریاں، گھر کے کام، سفر اور سماجی مصروفیات کی وجہ سے ہم یا تو جِم جانے کا ارادہ ٹالتے رہتے ہیں یا پھر روزانہ کے دس ہزار سٹیپس کا ہدف پورا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مگر سائنس ایک نئی تحقیق نے ہماری سوچ بدل کر رکھ دی ہے۔ اب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ صحت بہتر رہنے کے لیے نہ لمبی ورزش ضروری ہے نہ مہنگا سامان اور نہ ہی روزانہ گھنٹوں کی مشقت۔ صرف چند منٹ کی مختصر مگر تیز جسمانی حرکات جنہیں Vigorous Intermittent Lifestyle Physical Activityیا (VILPA) کہا جاتا ہے،آپ کو صحت مند لمبی زندگی کے قابل بناسکتی ہیں۔
VILPA کیا ہے؟
گزشتہ چند برسوں میں ورزش کی سائنس میں یہ نیا تصور بہت تیزی سے مقبول ہوا ہے کہ عام گھریلو یا روزمرہ کے کام تیز رفتاری سے اور توانائی سے بھرپور انداز میں کیے جائیں مثال کے طور پر سیڑھیاں چڑھنا، کچن میں تیزی سے کام کرنا، بچوں کے ساتھ کھیلنا، خریداری کے تھیلے اٹھانا یا گھر کی صفائی کرنا۔ ان سرگرمیوں کا دورانیہ بہت کم،صرف ایک سے دو منٹ ہوتا ہے لیکن ان کے اثرات حیران کن ہیں۔لندن یونیورسٹی کالج کے پروفیسر مارک ہیمر اور ان کے ساتھیوں نے جب ایسے افراد کا ڈیٹا دیکھا جو کسی قسم کی باضابطہ ورزش نہیں کرتے تھے، تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان میں سے کئی لوگ روزمرہ کے معمولات میں تیز رفتار حرکات کے ذریعے کافی مقدار میں ورزش کر رہے تھے۔ یہ حرکات مختصر وقفوں میں تھیں مگر شدت زیادہ تھی۔ تحقیق میں سامنے آیا کہ یہی مختصر وقفے، دل کی دھڑکن بڑھا کر اور پٹھوں کو فعال بنا کر صحت پر ایسے مثبت اثرات چھوڑ رہے تھے جنہیں پہلے صرف جِم کی سخت ورزشوں سے جوڑا جاتا تھا۔
تحقیق کیا کہتی ہے؟
2022ء میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے محققین نے 25 ہزار سے زائد افراد پر مبنی ایک بڑی تحقیق شائع کی جس میں یہ نتیجہ سامنے آیا کہ اگر کوئی شخص روزانہ صرف تین سے چار بار ایک منٹ کے VILPA بٹس کرے تودل کی بیماریوں سے موت کا خطرہ تقریباً 49 فیصد کم دیکھا گیا۔ ایک اور تازہ تحقیق نے بتایا کہ صرف چار منٹ کی VILPA روزانہ، بیٹھے بیٹھے زندگی گزارنے والوں کے لیے دل کی بیماری کا خطرہ نمایاں حد تک گھٹا دیتی ہے۔یہ نتائج طبی دنیا کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب80 کروڑافراد ایسے ہیں جو ورزش نہ کرنے کی وجہ سے خطرناک بیماریوں کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ وقت کی کمی، سہولیات کا فقدان، عدم دلچسپی اور طرزِ زندگی کی مصروفیات،یہ تمام عوامل ورزش چھوڑنے کی بنیادی وجوہات مانے جاتے ہیں۔ ایسے میں VILPA کا ماڈل ان لوگوں کے لیے ایک قابلِ عمل راستہ فراہم کرتا ہے جو پوری ورزش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
یہ سوال اہم ہے کہ صرف ایک یا دو منٹ کی تیز رفتار حرکت ہماری صحت میں اتنا بڑا فرق کیسے ڈال سکتی ہے؟ اس کی وضاحت سادہ ہے وہ یہ کہ جیسے ہی ہم تیزی سے حرکت کرتے ہیں پٹھے سکڑ کر خون میں مختلف بائیو کیمیکل مادوں کو متحرک کرتے ہیں جو چربی جلانے، خون میں شوگر کو بہتر انداز میں استعمال کرنے اور جسم میں موجود سوزش کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ VILPA نہ صرف دل کی صحت کے لیے مفید ہے بلکہ ذیابیطس، موٹاپا اور ہائی کولیسٹرول جیسے مسائل کے خطرات بھی گھٹا دیتی ہے۔یہ مائیکرو برسٹ بڑھتی عمر کے ساتھ سامنے آنے والی کمزوری اور فریکچر کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں کیونکہ یہ جسم کے اہم عضلات کو مسلسل فعال رکھتے ہیں۔ ایسے افراد جنہیں گھٹنوں، کمر یا جوڑوں میں درد رہتا ہے وہ بھی مختصر وقفوں میں تیز رفتار حرکات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
VILPA کیسے کریں؟
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں کچھ خاص یا مشکل کام کرنے ہوں گے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس کے لیے آپ کو نہ وقت نکالنے کی ضرورت ہے نہ پیسے خرچ کرنے کی۔ یہ صرف معمولات میں تھوڑی سی تبدیلی کا نام ہے ۔ جیسا کہ لفٹ کے بجائے سیڑھیاں استعمال کریں،مگر عام چال سے تھوڑا تیز۔گھر میں چلتے پھرتے قدموں کی رفتار بڑھا دیں۔ کچن کا کام کرتے ہوئے تیز رفتار موومنٹ اپنائیں۔گاڑی سے اتریں تو آخری چند میٹر پاور واک کر کے چلیں۔بچوں کے ساتھ روزانہ دو تین منٹ تیز کھیلیں۔ویٹ نہ اٹھا سکیں تو شاپنگ کے بیگ اٹھا لیں۔یہ بھی ایک طرح کی طاقت بڑھانے والی مشق ہے۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب یہ سرگرمیاں دن بھر میں تین سے چار بار دہرائی جائیں تو اثرات باقاعدہ ورزش کے برابر محسوس ہو سکتے ہیں۔ورزش کے متعلق ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ماہرین زیادہ قدم چلنے کے جنون کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق دل کی بیماریوں کے خطرے میں کمی کے لیے 10 ہزار قدم ضروری نہیں۔ صرف 2200 سے 2700 قدم روزانہ بھی بڑا فائدہ دیتے ہیں۔
VILPA کی کارکردگی محض دل اور میٹابولزم تک محدود نہیں چند سٹڈیز ظاہر کرتی ہیں کہ روزانہ صرف چار منٹ کی تیز رفتار سرگرمی کینسر کے خطرے کو 17 سے 18 فیصد تک کم کر سکتی ہے کیونکہ یہ سرگرمیاں جسم میں موجود مہلک سوزش کو نمایاں حد تک کم کر دیتی ہیں،وہی سوزش جو نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک متعدد بیماریوں کی جڑ ہے۔ماہرین اس ماڈل کو مستقبل کی صحت پالیسیوں کا حصہ بنانے کی تجویز دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر پوری آبادی کو اس بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ دن میں چند بار مختصر مگر تیز حرکات کریں تو اس کا مجموعی اثر لاکھوں زندگیاں بچا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف بیماریوں کا بوجھ کم کرے گا بلکہ ہسپتالوں پر دباؤ بھی گھٹا دے گا۔اہم بات یہ ہے کہ ''کچھ کرنا، کچھ بھی نہ کرنے سے کہیں بہتر ہے‘‘۔ اگر آپ جِم نہیں جا سکتے، واک کا وقت نہیں ملتا یا آپ کو لگتا ہے کہ ورزش کی روٹین بنانا بہت مشکل ہے تو کوئی مسئلہ نہیں صرف اپنی روزمرہ زندگی میں تیزی اور توانائی شامل کریں۔ تیز قدموں سے چلیں، تیزی سے سیڑھیاں چڑھیں یا گھر کے کاموں میں حصہ لیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے قدم آپ کی صحت میں بڑا انقلاب لا سکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
آن لائن ہراسانی :خواتین کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ صورتحال

آن لائن ہراسانی :خواتین کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ صورتحال

ڈیجیٹل دنیا نے انسانوں کے درمیان رابطے کے نئے ذرائع پیدا کیے ہیں، لیکن اسی دنیا میں لاکھوں خواتین اور لڑکیاں ہر روز '' تشدد اور بدسلوکی‘‘ کا شکار ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین(UN Women) کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک ارب 80کروڑخواتین اور لڑکیاں یعنی خواتین کی مجموعی آبادی کا44 فیصد آن لائن ہراسانی یا تعاقب سے قانونی تحفظ سے محروم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی آدھی سے زائد خواتین کیلئے ڈیجیٹل دنیا خطرے کا گڑھ بن چکی ہے۔آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی کی نوعیت مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ اس میں نہ صرف ہراسانی اور تعاقب شامل ہیں بلکہ بدنامی، جھوٹی معلومات، رضامندی کے بغیر تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا، ڈیپ فیک اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے جعلی مواس اوردھمکیاں دینا بھی شامل ہے۔ یہ تشدد صرف آن لائن محدود نہیں رہتا بلکہ حقیقی زندگی میں خوف، ذہنی اور جسمانی نقصان اور بعض اوقات خواتین کے قتل تک جا پہنچتا ہے۔قانونی خلا اور کمزور تحفظ ورلڈ بینک کے مطابق 40 فیصد سے بھی کم ممالک میں خواتین کو آن لائن ہراسانی سے تحفظ دینے والے قوانین موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی 44 فیصد خواتین اور لڑکیاں قانونی خلا کی وجہ سے خطرات کا شکار ہیں۔ کمزور قانونی نظام کی وجہ سے مجرم بلاخوف و خطر اپنے اقدامات جاری رکھتے ہیں جبکہ متاثرہ خواتین اور لڑکیاں غیر محفوظ رہ جاتی ہیں۔خاص طور پر کاروبار یا سیاست میں قیادت کے عہدوں پر فائز خواتین اکثر منظم ہراسانی اور ڈیپ فیک کا شکار بنتی ہیں۔ ان پر غلط معلومات پھیلانے، بدنام کرنے یا انہیں اپنے عہدوں سے ہٹانے کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یو این ویمن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی تقریباً ایک چوتھائی خاتون صحافیوں کو آن لائن جسمانی تشدد حتیٰ کہ قتل کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔مصنوعی ذہانت اور آن لائن تشدد آن لائن ہراسانی میںAI کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈیپ فیک اورAI ٹولز کے ذریعے سرحد پار تشدد سے دھمکیوں اور بدنامی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عدالتی نظام اس طرح کے نئے جرائم سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں اور ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز پر مؤثر احتساب تقریباً موجود نہیں۔ یہ صورتحال مجرموں کو مزید بے خوف بناتی ہے اور متاثرہ خواتین کی آواز کو دبانے کا سبب بنتی ہے۔تاہم کچھ مثبت پیش رفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ برطانیہ اور آسٹریلیا کے آن لائن سیفٹی ایکٹ، میکسیکو کے اولمپیا ایکٹ اور یورپی یونین کے ڈیجیٹل سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین آن لائن تشدد کے خلاف مؤثر اقدامات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 117 ممالک نے آن لائن تشدد سے نمٹنے کی اپنی کوششوں کی رپورٹ پیش کی مگر عالمی سطح پر یہ کوششیں اب بھی ناکافی ہیں۔یو این ویمن نے آن لائن ہراسانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے چند اہم سفارشات پیش کی ہیں:عالمی تعاون: ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور AI آلات کو حفاظتی اور اخلاقی معیار کے مطابق بنانے کیلئے ممالک کے درمیان تعاون ضروری ہے۔مالی معاونت: آن لائن تشدد سے متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے حقوق نسواں کی تنظیموں کو مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی جائے۔قانونی نفاذ: قوانین بہتر بنانے اور ان کے نفاذ کے ذریعے مجرموں کو جوابدہ بنایا جائے تاکہ متاثرہ خواتین تحفظ حاصل کر سکیں۔خواتین کی شمولیت: ٹیکنالوجی کمپنیوں میں خواتین کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ آن لائن ماحول محفوظ بن سکے، نقصان دہ مواد کو ہٹایا جا سکے اور شکایات پر مؤثر کارروائی ہو۔رویوں میں تبدیلی: ڈیجیٹل خواندگی، آن لائن حفاظت کی تربیت اور زہریلی آن لائن ثقافت کا مقابلہ کرنے کے پروگرام مرتب کیے جائیں تاکہ خواتین اور لڑکیوں کو معلوماتی اور ذہنی تحفظ حاصل ہو۔ آن لائن ہراسانی کا اثر صرف ڈیجیٹل دنیا تک محدود نہیں یہ حقیقی زندگی میں خوف، ذہنی دباؤ اور جسمانی تشدد تک پہنچ سکتا ہے۔ جب خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد بڑھتا ہے تو ان کی آوازیں دب جاتی ہیں، وہ عوامی زندگی سے کٹ جاتی ہیں اور بعض اوقات انہیں اپنے پیشہ ورانہ یا ذاتی میدان میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث (Sima Bahous)کہتی ہیں کہ جو کچھ آن لائن شروع ہوتا ہے وہ وہاں ہی محدود نہیں رہتا بلکہ یہ حقیقی زندگی میں تشدد اور خطرات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے قوانین اور پالیسیوں کو ٹیکنالوجی کے مطابق تیار کرنا ناگزیر ہے تاکہ خواتین اور لڑکیاں آن لائن اور آف لائن دونوں جگہوں پر محفوظ رہ سکیں۔آگے کا راستہیو این ویمن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دنیا بھر میں فوری اقدامات کیے جائیں اور قانونی خلا کو ختم کرنا، مجرموں کو جوابدہ بنانا اور ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کی ذمہ داری بڑھانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کی ڈیجیٹل خواندگی بڑھانا، آن لائن حفاظت کی تربیت دینا اور زہریلی آن لائن ثقافت کا مقابلہ کرنا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آن لائن ہراسانی ایک عالمی مسئلہ ہے جو نہ صرف خواتین کی حفاظت بلکہ سماجی اور قانونی ڈھانچے کی مضبوطی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ قانونی خلا، کمزور احتساب اور مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے خواتین غیر محفوظ ہیں لیکن عالمی تعاون، مضبوط قوانین اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی شمولیت کے ذریعے یہ مسئلہ کم کیا جا سکتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

انسانی حقوق کا اعلامیہ 10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں لاکھوں انسانوں کے قتل، نسل کشی، جبری مشقت، جلاوطنی اور ظلم و جبر کے بعد دنیا کو ایسی دستاویز کی ضرورت تھی جو ہر انسان کے بنیادی، پیدائشی اور ناقابلِ تنسیخ حقوق کی وضاحت کرے۔ یہ اعلامیہ ایلینور وزویلٹ کی سربراہی میں کام کرنے والی ایک کمیشن کی محنت کا نتیجہ تھا۔ اس میں 30 آرٹیکلز شامل کیے گئے جن میں آزادی ٔاظہار، مذہبی آزادی، قانون کے سامنے مساوات، تعلیم کا حق، زندگی اور تحفظ کا حق، جبری مشقت اور تشدد کی ممانعت، آزادانہ نقل و حرکت اور منصفانہ عدالتی کاروائی جیسے اصول شامل تھے۔ پہلا نوبیل انعام10 دسمبر 1901ء کو دنیا میں پہلی مرتبہ نوبیل انعامات تقسیم کیے گئے۔ اسی تاریخ کو سویڈن کے سائنسدان اور ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبیل کی برسی بھی ہوتی ہے۔ نوبیل نے اپنی وصیت میں کہا کہ فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، ادب اور امن کے شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں کو ہر سال انعام دیا جائے گا۔ بعد میں معاشیات کا نوبیل انعام بھی شامل ہوا۔ 1901ء میں انعامات کی پہلی تقریب میں مختلف ممالک کے سائنسدان، مصنفین اور امن کے علمبرداروں کو اعزازات سے نوازا گیا۔ اس دن نے عالمی سطح پر علمی اور اخلاقی خدمات کو ایک نئے معیار پر متعارف کرایا، جو آج تک جاری ہے۔پیرس معاہدہ10 دسمبر 1898ء کو امریکہ اور سپین کے درمیان پیرس معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے نتیجے میں سپین امریکہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ معاہدے کے تحت سپین نے کیوبا پر اپنا قبضہ ختم کیا جبکہ پورٹو ریکو، فلپائن اور گوام امریکہ کے زیرِ انتظام آگئے۔ اس معاہدے نے امریکہ کو پہلی بار ایک بین الاقوامی نوآبادیاتی طاقت بنا دیا اور بحرالکاہل و بحرِ اوقیانوس میں اس کے اثرات کو بڑھایا۔ فلپائن پر قبضے نے امریکہ کو ایشیا میں ایک سٹریٹجک مقام فراہم کیا۔ معاہدے کے اثرات مقامی آبادیوں پر بھی بہت گہرے تھے۔ فلپائن میں امریکی قبضے کے خلاف آزادی کی تحریک نے جڑ پکڑی، پورٹو ریکو کے سیاسی مستقبل پر بحث شروع ہوئی اور کیوبا کا سیاسی ڈھانچہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار رہا۔ یہ دن عالمی طاقتوں کی نئی تقسیم کی ابتدا کا نشان مانا جاتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کوامن انعام1993ء کے نوبیل امن انعام کا اعلان 10 دسمبر کو کیا گیا جو نیلسن منڈیلا اور فریڈریک ڈی کلرک کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔ یہ انعام نسل پرستی کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے ان دونوں رہنماؤں کی کوششوں کا اعتراف تھا۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال جیل میں گزارے لیکن انہوں نے کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔ رہائی کے بعد انہوں نے سفید فام حکومت سے مذاکرات کے ذریعے پرامن سیاسی انتقالِ اقتدار کی کوشش جاری رکھی۔ دوسری جانب صدر ڈی کلرک نے جنوبی افریقہ کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کا آغاز کیا، پابندیوں ختم کیں، اپارتھائیڈ قوانین منسوخ کیے اور پہلے آزاد انتخابات کی بنیاد رکھی۔ 

آخری برفانی دور کا خاتمہ:سمندر کی گہرائیوں سے ابھرنے والے نئے انکشافات

آخری برفانی دور کا خاتمہ:سمندر کی گہرائیوں سے ابھرنے والے نئے انکشافات

زمین کی تاریخ میں کچھ ایسے موڑ آئے ہیں جنہوں نے موسم، فضا اور انسانی تہذیب کے رخ متعین کیے۔ تقریباً بارہ ہزار سال قبلLast Ice Age یعنی آخری برفانی دور کا خاتمہ بھی ایسا ہی فیصلہ کن لمحہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب زمین تیزی سے گرم ہوئی، برفانی چادریں پگھلنا شروع ہوئیں اور عالمی ماحول ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ تازہ تحقیق نے اس تبدیلی کے پس منظر کو مزید واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصل معرکہ فضا میں نہیں بلکہ سمندر کی گہرائیوں میں ہوا۔ خصوصاً بحر منجمد جنوبی(Antarctic Ocean) نے اس عالمی موسمی تغیر میں مرکزی کردار ادا کیا۔بحر منجمد جنوبی کیوں اہم ہے؟انٹارکٹکا کے گرد پھیلا ہوایہ سمندر ہمارے سیارے کی آب و ہوا کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سمندر صرف حرارت کو ہی نہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی بڑی مقدار میں جذب کرنے اور محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق آخری برفانی دور کے اختتام پر اسی سمندر نے سب سے زیادہ سرگرم کردار ادا کیااور اس کی تہہ میں موجود گہرے، ٹھنڈے اور کثیف پانی( Antarctic Bottom Water) میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔یہ تحقیق جو حال ہی میں Nature Geoscience میں شائع ہوئی یہ بتاتی ہے کہ حرارت میں اضافے کے ساتھ کثیف پانی دو بڑے مرحلوں میں پھیلا جس کے نتیجے میں وہ کاربن جو ہزاروں سال سمندر کی تہہ میں قید تھا دوبارہ فضا تک پہنچ گیا۔ یہی عمل عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ بنا۔سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے بحر منجمد جنوبی کے مختلف حصوں سے مٹی کے قدیم نمونے حاصل کیے۔ ان نمونوں کی گہرائی 2200 سے 5000 میٹر تک تھی اور ان میں محفوظ معلومات تقریباً 32 ہزار سالہ دور کا احاطہ کرتی ہیں۔ان تہوں میں موجود ایک خاص دھات نیوڈیَمیم اور اس کے مختلف آئسوٹوپس نے سمندر کے ماضی کو بے نقاب کیا۔ نیوڈیَمیم کا آئسوٹوپ ایک طرح کا ''سمندری فنگر پرنٹ‘‘ ہے جو بتاتا ہے کہ کس دور میں پانی کہاں سے آ رہا تھا اور کس رفتار سے بہہ رہا تھا۔ محققین نے دیکھا کہ برفانی دور میں بحر منجمد کی گہرائیوں میں پائے جانے والے نشانات آج کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اُس زمانے میں گہرا پانی تقریباً ساکن تھا جس کے نتیجے میں کاربن سمندر کی تہہ میں بند پڑا رہتا تھا۔تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آخری برفانی دور کے دوران بحر منجمد کی گہرائیوں میں وہ پانی غالب تھا جسے سائنس میںCircumpolar deep water (CDW) کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ یہ پانی نسبتاً آہستہ حرکت کرتا تھا اور سطحی پانی سے کم ملتا تھا جس کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندر کے اندر قید رہتی تھی اور فضا میں کم جاتی تھی۔ اسی وجہ سے زمین ہزاروں سال تک نسبتاً ٹھنڈی رہی۔لیکن جب زمین گرم ہونے لگی اور انٹارکٹکا کی برف تیزی سے پگھلنے لگی تو ابتدا میں پگھلی ہوئی برف کے پانی نے سمندر کی کثافت بدل دی۔ نمکیات کم ہوئے، پانی ہلکا ہوا اور نتیجتاً نیا پانی وجود میں آیا۔ اس نئے پانی نے رفتہ رفتہ سمندر کی گہرائیوں پر قبضہ جما لیا۔اگلے مرحلے میں سمندر کی ''عمودی آمیزش‘‘ بڑھی‘ یعنی وہ پانی جو ہزاروں سال تک سطح سے کٹا ہوا تھا، دوبارہ اوپر آنے لگا۔ اس آمیزش نے سمندر میں قید کاربن کو سطح تک پہنچنے کا راستہ دیا جہاں سے وہ فضا میں داخل ہوا۔ اس طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح تیزی سے بلند ہوئی اور زمین تقریباً اسی رفتار سے گرم ہونے لگی۔سابقہ نظریات کے مطابق عالمی گہرے پانیوں کی تبدیلی میں شمالی اوقیانوس بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ خیال تھا کہ شمالی نصف کرہ سے ہونے والی تبدیلیاں جنوبی سمندر کو متاثر کرتی ہیں۔ مگرنئی تحقیق نے اس نظریے کو کمزور کر دیا ہے۔اس تحقیق سے یہ واضح ہوا کہ آخری برفانی دور کے خاتمے میں بحر منجمد شمالی کا اثر کم تھا اور اصل تبدیلی بحر منجمد جنوبی کے اندرونی وقوع پذیر ہوئی۔ یہ دریافت آج کیوں اہم ہے؟آج جب ہماری زمین دوبارہ تیزی سے گرم ہو رہی ہے، سمندروں کی حرارت بڑھ رہی ہے اور انٹارکٹکا کی برف غیرمعمولی تیزی سے پگھل رہی ہے تو یہ تحقیق ایک تنبیہ بھی ہے اور ایک رہنمائی بھی۔ ماضی میں سمندر نے جو کردار ادا کیا وہ مستقبل کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔سمندر نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں بلکہ اس کے اخراج میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آج AABW یا CDW جیسی گہرائیوں میں پھر وہی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہزاروں سال پہلے ہوئیں تو دنیا ایک بار پھر شدید ماحولیاتی تغیرات کا سامنا کر سکتی ہے ، جس میں شدید گرمی، سمندری سطح میں اضافہ، برفانی چادروں کا انہدام اور ماحولیاتی نظام کا عدم توازن شامل ہے۔یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ سمندر کی گہرائیاں صرف پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ زمین کے مستقبل کا فیصلہ کن عنصر ہیں۔ 12 ہزار سال پہلے انہی گہرائیوں میں قید کاربن نے انسانی تاریخ کے رخ تبدیل کئے اور آج بھی سمندر وہی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔زمینی ماحولیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سمندروں کی حرکیات، ان میں آنے والی تبدیلیوں اور برفانی خطوں کے ردعمل کو سنجیدگی سے لیں۔ ماضی کا مطالعہ صرف تاریخ نہیں مستقبل کی کنجی ہے۔ اگر ہم اس کنجی کو درست استعمال کریں تو موسمیاتی بحران کے حل میں نئی راہیں سامنے آ سکتی ہیں۔

عالمی دن:انسدادِبد عنوانی، شفافیت کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے

عالمی دن:انسدادِبد عنوانی، شفافیت کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے

ہر سال 9 دسمبر کو دنیا بھر میں ''انسدادِ بدعنوانی کا عالمی دن‘‘ اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے، شفاف طرزِ حکمرانی کے فروغ اور سماجی انصاف کے حصول کے لیے عالمی اور قومی سطح پر ٹھوس کوششیں کی جائیں۔ بدعنوانی محض مالی بے ضابطگی نہیں یہ ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والا ایک ہمہ گیر بحران ہے جو معاشی ترقی، عوامی خدمات، اعتماد اور قانون کی عملداری ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں یہ چیلنج کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں منظم کرپشن نے نہ صرف اداروں کی ساکھ کو مجروح کیا ہے بلکہ پائیدار ترقی کے امکانات کو بھی محدود کر دیا ہے۔ بدعنوانی نے برسوں سے پبلک سروسز، سرمایہ کاری اور معیشت پر سنگین اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کے لیے صرف دن منانا کافی نہیں عملی اقدامات اور شفافیت کے لیے مؤثر اقدامات بھی لازم ہیں۔ بدعنوانی، دیرینہ مسئلہپاکستان میں بدعنوانی ایک دیرینہ قومی مسئلہ ہے۔ سرکاری اداروں، پالیسی سازی، سرکاری ٹھیکوں، لین دین اور ترجیحات کے تعین میں ناجائز مفادات پر مبنی تعلقات نے نہ صرف عوامی اعتماد کو زائل کیا ہے بلکہ ملکی معیشت اور عام آدمی کی زندگی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم، ٹیکس نظام کی خامیاں اور سرکاری اداروں کی کارکردگی میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن اکٹوپس کی طرح ہمارے سسٹم کے ہر شعبے کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ سرکاری وسائل کے غلط استعمال سے عوام بنیادی خدمات، جیسے صحت، تعلیم، اور انفراسٹرکچر سے محروم رہنے پر مجبور ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے منانا اس وقت نہ صرف علامتی اہمیت رکھتا ہے بلکہ ایک ایسا دن ہے جب عوامی شعور اور اداروں کی کارکردگی دونوں دوبارہ غور کا موضوع بن سکتے ہیں۔حال ہی میں IMFنے پاکستان کے لیے ایک مفصل رپورٹ جاری کی جس کا عنوان Governance and Corruption Diagnostic Report ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی اور گورننس کی کمزوریوں کی جڑوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ کی چند اہم نکات میں IMFنے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی مستقل اور کثیر سطحی ہے ، یعنی یہ صرف چھوٹے سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی نہیں بلکہ نظام کی خامیوں کا نتیجہ ہے، جس میں طاقتور اور مراعات یافتہ طبقات کا کردار بہت بڑا ہے۔پورٹ کے مطابق جنوری 2023 ء سے دسمبر2024 ء کے دوران بدعنوانی کے خلاف ریکوری کے نام پر تقریباً 53 ٹریلین روپے وصولی ہوئی، مگر IMF نے واضح کیا ہے کہ یہ صرف ایک پہلوہے اور اصل معاشی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹیکس نظام، جو ملک کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ ہے ،پر رپورٹ میں شدید تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹیکس نظام پیچیدہ ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب نچلے درجے پر ہے (تقریباً 10 فیصد) اور داخلی نگرانی اور احتساب کے انتظامات ناکافی ہیں۔ریاستی ملکیت یا ریاستی سرپرستی والے ادارے (جیسے سرکاری ادارے بھی بدعنوانی اور Elite captureکا شکار ہیں۔رپورٹ نے وفاقی اور مرکزی سرکاری معاملات، پبلک سیکٹر پروکیورمنٹ، ٹیکس اور ریونیو سسٹم، سرکاری ٹھیکوں، مالیاتی شفافیت اور عوامی وسائل کی نگرانی سمیت 15 نکاتی ایک اصلاحاتی ایجنڈا پیش کیا ہے۔اگر یہ اصلاحات بروقت اور مکمل طور پر عملی ہوں تو IMF کی پیش گوئی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 5 سے 6.5 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔مجموعی طور پر IMF کی رپورٹ صرف تنقید نہیں بلکہ اس کو ایک wake-up callقرار دیا گیا ہے ، یعنی اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو معاشی امداد اور قرضے وقتی ریلیف ثابت ہوں گے، لیکن بنیادیں ڈگمگا جائیں گی۔انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے اور پاکستان انسداد بد۰عنوانی کے عالمی دن کا مقصد صرف شعور بیدار کرنا نہیں بلکہ عملی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اس دن پر عوامی سطح پر مکالمہ ضروری ہے ۔ کرپشن کے نقصانات، عوامی خدمات کی کمی اور احتساب کے نظام کی خامیوں پر عوام سے بات ہونی چاہیے۔ یوں لوگ صرف تنقید نہیں کریں گے، بلکہ مطالبہ کریں گے۔سرکاری اداروں، پبلک سیکٹر اداروں اور خصوصی ٹھیکے داروں کی سرگرمیوں کو عوامی نظر وں کے سامنے لانا اور ٹھیکوں، بجٹ مختص کرنے اور ریونیو جمع کرنے کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔ IMF کی رپورٹ میںElite capture کوبنیادی خطرہ قرار دیا ہے اس لیے سیاستدانوں، بڑے کاروباری گروپس اور سرکاری کرپٹ نیٹ ورکس کی نگرانی لازمی ہے۔کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ اقدامات سے عام آدمی کا حکومت پر اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے، جس سے سرمایہ کاری، خدمتِ عامہ، اور معاشی ترقی کے مواقع بڑھیں گے۔انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے صرف ایک دن نہیں ، یہ تحریک کی شروعات ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال کے پیش نظر اس دن کا استعمال محض علامتی سطح پر نہیں بلکہ ایک حقیقی محاسبہ اور اصلاحات کے عہد کے طور پر ہونا چاہیے۔ IMF کی حالیہ رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ بدعنوانی صرف اخلاقی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی اور روزگار، سرمایہ کاری، عوامی خدمات اور مستقبل کی بنیادیں مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو اس رپورٹ اور انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے کے درس کو سنجیدہ لینا ہوگا۔

آج کا دن

آج کا دن

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا اجلاس9 دسمبر 1946 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا باقاعدہ اجلاس منعقد ہوا جو دنیا میں ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس اجلاس میں 51 رکن ممالک نے شرکت کی جو عالمی جنگ کے فوراً بعد دنیا کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو میں مصروف تھے۔ اجلاس میں عالمی امن کے تحفظ، ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام، پناہ گزینوں کے مسائل، عالمی معیشت کی بحالی اور نئے بننے والے اداروں کا فریم ورک طے کرنے کے اہم فیصلے کیے گئے۔ اسی اجلاس نے بعد ازاں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے، سلامتی کونسل کی ساخت اور جنیوا کنونشن کی شکل میں کئی عالمی اصولوں کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کیا۔مدر آف آل ڈیموز 9دسمبر 1968 ء کو سان فرانسسکو میں امریکی انجینئر ڈگلس اینجل بارٹ نے ایک ایسی تاریخی ٹیکنالوجی ڈیمو پیش کی جسے ''مدر آف آل ڈیموز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ایک گھنٹے سے زائد طویل پریزنٹیشن میں اینجل بارٹ نے پہلی بار کمپیوٹر ماؤس، گرافیکل یوزر انٹرفیس (GUI)، ہائپر لنکس، ونڈوز، لائیو ویڈیو کانفرنسنگ، ای میل اور ریئل ٹائم کولیبریشن جیسے کئی جدید کمپیوٹر تصورات کا عملی مظاہرہ کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب انہوں نے یہ چیزیں دکھائیں اُس دور میں دنیا کے اکثر کمپیوٹر صرف پیچیدہ حسابات یا ڈیٹا ریکارڈنگ کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ عام صارف کے لیے کمپیوٹر کا تصور تقریباً موجود نہیں تھا۔ چیچک کے خاتمے کااعلان9 دسمبر 1979ء وہ تاریخی دن ہے جب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا کہ چیچک جیسی مہلک بیماری دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔ چیچک کا مرض ہزاروں برس سے انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا تھا۔ اس بیماری سے کروڑوں افراد ہلاک ہوئے، شہروں کے شہر اجڑ گئے اور کئی قومیں سماجی و معاشی بحرانوں کا شکار ہوئیں۔ 20ویں صدی میں ویکسین کی تیاری کے بعد اس کے خاتمے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا۔ عالمی ادارہ صحت نے 1967 ء میں عالمی سطح پر چیچک کے خلاف بڑے پیمانے کی مہم شروع کی جس میں 80 سے زیادہ ممالک نے حصہ لیا۔ پہلیِ انتفاضہ کا آغاز9 دسمبر 1987ء کو فلسطین میں پہلی انتفاضہ کا آغاز ہوا جو مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس تحریک کا آغاز غزہ میں پیش آنے والے ایک واقعے سے ہوا جب ایک اسرائیلی فوجی گاڑی سے چار فلسطینی شہید ہوگئے۔ فلسطینی نوجوانوں، مزدوروں، طلبہ اور عام شہریوں نے بڑی تعداد میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مظاہرے شروع کیے جنہوں نے جلد ہی مغربی کنارے اور غزہ میں عوامی مزاحمت کی شکل اختیار کر لی۔ اس تحریک نے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کو نمایاں کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی انتفاضہ نے بعد میں اسرائیل فلسطین مذاکرات، اوسلو معاہدوں اور عالمی رویوں میں تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ لیخ ویونسا کا پولینڈ کے صدر کے طور پر انتخاب9 دسمبر 1990 ء کو پولینڈ میں کمیونسٹ دور کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ براہِ راست صدارتی انتخابات منعقد ہوئے، جن میں مشہور مزدور رہنما اور سولڈیرٹی تحریک کے بانی لیخ ویونسا بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کا انتخاب مشرقی یورپ میں سیاسی تبدیلیوں اور کمیونزم کے خاتمے کے سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت تھا۔ سولڈیرٹی تحریک نے پولینڈ میں 1980 کی دہائی کے دوران آمریت، سنسرشپ، معاشی مسائل اور ریاستی جبر کے خلاف ایک پْرامن مگر مؤثر جدوجہد کی جس نے نہ صرف پولینڈ بلکہ پورے مشرقی یورپ کے سیاسی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔

ویٹ لفٹنگ ذہانت بھی بڑھائے: نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

ویٹ لفٹنگ ذہانت بھی بڑھائے: نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

جدید سائنسی تحقیق نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جسمانی ورزش نہ صرف ہمارے جسم بلکہ دماغ پر بھی حیران کن اثرات مرتب کرتی ہے۔ امریکی ماہرین کی نئی تحقیق کے مطابق صرف ایک سیشن ویٹ لفٹنگ یا مزاحمتی ورزش صحت مند بالغ افراد کی دماغی کارکردگی میں قابلِ ذکر اضافہ کر دیتی ہے۔ محض چالیس سے زائد منٹ کی مشقیں نہ صرف ورکنگ میموری کو بہتر بناتی ہیں بلکہ فیصلہ سازی، توجہ اور دماغ کے برقیاتی نظام کی رفتار میں بھی فوری بہتری لاتی ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ذہنی صحت اور ادراک سے متعلق مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہ تحقیق اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ چھوٹی، باقاعدہ اور سادہ ورزشیں بھی ذہانت بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف 40 منٹ سے کچھ زیادہ وزن اٹھانے کی ورزش (ویٹ ٹریننگ) صحت مند بالغ افراد کی طویل مدتی یادداشت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ تحقیق میں ویٹ ایکسرسائز کو مزاحمتی ورزش (resistance training)کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی مزاحمتی سرگرمیاں (resistance activities) جیسے اسکواٹس (squats) یا گھٹنے موڑنے کی مشقیں بھی یہی نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔ انڈیانا کی پراڈیو یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے مطابق نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختصر مزاحمتی ورزش ایگزیکٹو فنکشنز پر مثبت اثر ڈالتی ہے، پروسیسنگ اسپیڈ اور ورکنگ میموری کو بہتر بناتی ہے اور دماغ کی برقی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے۔تحقیق میں، انہوں نے 18 سے 50 سال کی عمر کے 121 بالغ افراد کا مشاہدہ کیا اور انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا۔ تمام شرکاء کا کارڈیو ویسکیولر فٹنس ٹیسٹ لیا گیا اور ان سے طرزِ زندگی سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ دو دن بعد تمام شرکاء کے خون کے نمونے لیے گئے اور دماغ کی برقی سرگرمی ریکارڈ کرنے کیلئے الیکٹرو اینسیفلوگرافک (EEG) اسکین کیا گیا۔ پہلے گروپ نے درمیانی سطح کی مشکل والے ویٹ ایکسرسائز کے سیٹس کیے جبکہ دوسرے گروپ سے بالغ افراد کی مزاحمتی ورزش (resistance exercises)کرتے ہوئے ویڈیو دیکھنے کو کہا گیا۔مزاحمتی ورزشیں کل 42 منٹ تک جاری رہیں۔ ان کا آغاز دو منٹ کی وارم اپ سے ہوا، جس کے بعد ہر مشق کے دو سیٹ کروائے گئے، ہر سیٹ میں دس ریپیٹیشنز شامل تھے۔ ان مشقوں میں چیسٹ پریس، پل ڈاؤنز، بائی سیپ کرلز، لیگ پریس، کیبل ٹرائی سیپس ایکسٹینشنز اور لیگ ایکسٹینشنز شامل تھیں۔ ورزش مکمل ہونے کے بعد، رضا کاروں سے دوبارہ خون کے نمونے لیے گئے اور دوسرا EEG ٹیسٹ کیا گیا۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ جس گروپ نے مزاحمتی ورزشیں کی تھیں، اس کے ورکنگ میموری کے ردِ عمل کا وقت ویڈیو دیکھنے والے گروپ کے مقابلے میں قدرے بہتر ہو گیا تھا۔ محققین نے کہا کہ وہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وزن اٹھانے کی ورزش نے کس طرح ورکنگ میموری کو بہتر بنایا تاہم انہوں نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ ورزش کے بعد خون میں 'لیکٹیٹ‘ کی مقدار میں اضافہ جو عضلات کی تھکن کی علامت ہے اور بلڈ پریشر میں اضافہ ایگزیکٹو فنکشنز کی رفتار کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر دماغی کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چونکہ ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹ ورزش کے فوراً بعد کروائے گئے تھے، اس لیے یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ ان اثرات کا دورانیہ کتنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبی نقطہ نظر سے، یہ نتائج اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ مزاحمتی ورزش کو ورزش کے ایسے پروگراموں کا حصہ بنایا جائے جو ایگزیکٹو فنکشنز میں فوری فائدہ پہنچا سکیں۔ پچھلی تحقیق بھی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ درمیانی عمر میں ورزش کیلئے وقت بڑھانے سے ذہنی صلاحیتیں برقرار رہ سکتی ہیں اور بعد کی زندگی میں ڈیمنشیا کے آغاز میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ہسپانوی سائنس دانوں نے 300 سے زائد بالغ افراد کا جائزہ لیا اور معلوم کیا کہ جن لوگوں نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ہفتے میں تقریباً ڈھائی گھنٹے ورزش جاری رکھی45 سے 65 سال کی عمر کے درمیان وہ دماغ میں 'امائلائڈ‘ نامی زہریلے پروٹین کے پھیلاؤ سے کم متاثر ہوئے۔ یہ پروٹین الزائمر کی علامات کے پیچھے اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔مزید یہ کہ وزن اٹھانے کی ورزش ہفتے میں صرف تین بار کرنا بھی ایک شخص کی ''حیاتیاتی عمر‘‘ (Biological Age) کو تقریباً آٹھ سال تک کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) تجویز کرتی ہے کہ بالغ افراد ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی درمیانی شدت کی ورزش کریں یا 75 منٹ کی تیز شدت کی ورزش کریں۔ ہفتے میں کم از کم دو دن ایسی ورزشیں کی جائیں جو بڑے عضلاتی گروپس جیسے ٹانگیں، کمر اور پیٹ کو مضبوط بنائیں۔