دیساں دار اجا ... وارث لدھیانوی
اُن دنوں مجھ پر فلمی نغمہ نگار بننے کی دُھن سوار تھی اور میں ریڈیوکے ساتھ ساتھ فلمی سٹوڈیوزکے چکر بھی لگایا کرتا تھا۔ میں نے ایور نیوسٹوڈیو میں وارث لدھیانوی کو کئی بار دیکھا مگر ان سے بات کرنے کا موقع نہ بن سکاکیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے تھے۔میں اُن دنوں ملتا ن سے نیا نیا لاہور آیا تھااور فیض باغ میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا۔ صبح دس گیارہ بجے ریڈیو چلا جاتا اور پھر شام پانچ بجے لکشمی سے نو نمبر ویگن میں بیٹھ کر فلم سٹوڈیو پہنچ جاتا اور رات نو بجے کے بعد وہاں سے اسی ویگن پر واپس آجاتا اور پھر پیدل فیض باغ ۔۔۔وارث لدھیانوی بھی غالباََ گھوڑے شاہ کے قریب رہائش پذیر تھے، میں نے اکثر انہیں نو نمبر کی ویگن کی آخری نشست پر بیٹھے دیکھا ۔اُن کے ہاتھ میں دستی چرمی بیگ ہوا کرتا اور سر پر بھٹو کیپ ۔ایک روز سٹوڈیوسے واپسی پر میں بھی ویگن کی آخری نشست پر بیٹھ گیا جہا ں وارث لدھیانوی تشریف فرما تھے۔سمن آباد موڑ تک ان سے کوئی بات نہ ہو سکی۔ اگلے سٹاپ پر ٹریفک جام تھا اور سواریاں ڈرائیور کنڈیکٹر پر سیخ پا ہو رہی تھی ،اِسی دوران مجھے بھی وارث صاحب سے ہم کلامی کا موقع مل گیا ۔ٹریفک اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد میں نے اُن کی نغمہ نگاری پر بات شروع کر دی ۔پھر سوال کیا کہ نئے نغمہ نگاروں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ بولے :’’کوئی نیا شاعر ایسا نہیں جو واقعتا با صلاحیت ہو۔ نئے لکھنے والے ہمارے گیتوں ہی کو تروڑ مروڑ کر گیت بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘یہ گفتگو جاری تھی کہ ہمارا سٹاپ آگیا، اب ہم پیدل سٹیشن کے پلیٹ فارم کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وارث لدھیانوی میری طرف دیکھے بغیرمیری گفتگو سن رہے تھے۔ میں انہیں اپنی گیت نگاری کے بارے میں بتا رہا تھااور وہ بے نیازی سے سامنے دیکھتے ہوئے چلتے جا رہے تھے۔آخر میں نے انہیں اپنا گیت مکھڑا زبردستی سنا ڈالا ۔کسی بڑے اور مشہور شاعر کو اس طرح راہ چلتے ہوئے اپنی شاعری سنانا نادانی کی بات تھی مگر میں تو اپنے گیت کا مکھڑا انہیں سنانے پر تلا ہوا تھا۔میں نے ان کے کاندھے کے قریب ہو کر تقریباََ ان کے کان میں اپنا مکھڑا انڈیل دیا۔میرا مکھڑا سن کر چلتے چلتے جیسے انہیں کرنٹ سا لگ گیا ۔مکھڑا تھا ؎ جدوں چن مینوں بدلی چوں تکیاتے چودھویں دی رات ہس پئی گیت کا مکھڑا سن کر وہ رک گئے۔دونوں کندھوں سے پکڑ کر مجھے گلے لگا لیا اور خوش ہو کر داد دی۔ میںنے کہا مجھے خوشی اس وقت ہو گی جب آپ پلیٹ فارم پر میرے ساتھ سبز چائے کا ایک کپ نوش فرمائیں گے۔انہوں نے حامی بھر لی ۔اب ہم اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 2کے فرسٹ کلاس ویٹنگ روم میں بیٹھ چکے تھے۔یہ ویٹنگ روم ان دنوں فیض باغ آتے جاتے میرا ڈرائنگ روم ہوا کرتا تھا۔اور وہاں کے ویٹر زسے شناسائی کے سبب اکثر دوست مجھے یہیں ملنے آتے۔اُس روز بھی ویٹر نے بڑے احترام کے ساتھ ہمیں برگر اور سبز چائے پیش کی ۔اس دوران وارث صاحب سے بہت سی باتیں ہوئیں۔میری اردو شاعری بھی سنی گئی اور انہوں نے ادبی دوستوں کے بارے میں بھی بتایا ۔ اظہر جاوید اور ان کے جریدے تخلیق کا ذکر بھی آیا،پھر اچانک گویا ہوئے: ’’ تم اداکاری کی طرف کیوں نہیں آتے ؟حال ہی میں تمہارے قد کاٹھ کا ایک نوجوان ( جہانزیب) نئی فلم چوروں کی بارات میں جلوہ گر ہوا ہے۔اگر تم چاہو تو میں ہدایت کار اقبال کشمیری سے تمہیں ملوائوں گا ۔بس تم کھایا پیا کروکیونکہ پنجابی فلموں میں ذرا بھاری بھرکم بندہ چلتا ہے۔‘‘ اس محفل کے بعد ان سے اکثر ایورنیو سٹو ڈیو کے چائے خانے پر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ وہ اپنے فلموں گیتوں اور اداکاروں کے بارے میں باتیں کرتے اور محفل ختم ہو جاتی ۔ایک بار کہنے لگے میں نے استاد دامن کی شاگردی کے بعد اردوکی بجائے مکمل پنجابی شاعری پر توجہ دی اور الحمداللہ ابتدا ہی میں میرے گیت ہٹ ہو گئے ۔انہیں اپنا گیت ؎ پھکی پے گئی چناں تاریاں دی لوءتوں اجے وی نہ آیوں سجناں بہت پسند تھا ۔ وقت گزرتا رہا ، اسی دوران کچھ عرصہ ہدایت کار ایم اے رشید سے بھی تعلق بنا مگر میری لیکچرار کے طور پر اسلامیہ کالج قصور میں پوسٹنگ ہو گئی اور یوں میں فلم سٹوڈیو کی بجائے دن کو کالج اور شام کو فقط پاک ٹی ہائوس کا ہو کر رہ گیا۔کبھی کبھار میں اور یارِ عزیز مرحوم اطہر ناسک سٹوڈیو کا چکر لگالیتے مگر وارث صاحب سے ملاقا ت بہت کم ہوتی ۔وارث لدھیانوی ہماری فلمی دنیا کے ماتھے کا جھومر تھے ۔ان کے دورمیں سیف الدین سیف، قتیل شفائی اور خواجہ پرویز بھی فلمی نغمہ نگار کے طور پر راج کر رہے تھے ۔ احمد راہی کسی حد تک فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو چکے تھے اور پنجابی گیتوں کے لئے وارث لدھیانوی کو زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔ وارث صاحب نے فلمی دنیا میں یادگار گیت تخلیق کئے۔ ان کا تعلق لدھیانہ ( بھارت) سے تھا۔ وہ 1928 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے ۔شاعری کا شوق انہیں زمانہ طالب علمی سے ہو گیا تھا۔شروع میں عاجز ان کاتخلص ہوا کرتا تھا۔تقسیم ملک کے بعد لاہور آئے تو استاد دامن کی شاگردی کے بعد عاجز سے وارث لدھیانوی بن گئے۔ان کی پہلی فلم ’’شہری بابو‘‘ تھی۔ جس کا یہ گیت زبیدہ خانم کی آواز میں بہت مشہور ہوا ؎ اک منڈے دی چیز گواچی بھل کے چیتا آوے گا وارث لدھیانوی نے کئی فلموں کے گیت او ر سکرپٹ تحریر کیے ان کا ایک گیت شادی بیاہوں میں لڑکیا ں آج بھی شوق سے گاتی ہیں ؎ دیسا ں دا راجہ میرے بابل دا پیارا امبڑی دے دل دا سہارا نی ویر میرا گھوڑی چڑھیانی سیو گھوڑی چڑھیافلم کرتا ر سنگھ کا یہ گانا آج بھی سپر ہٹ گانوں میں شمار ہوتا ہے ۔ان کے شاہکار گیتوں میں دلاٹھہر جا یار دا نظارا لین دے (منیر حسین ،زبیدہ خانم)؎ میرا دل چنا کچ دا کھڈونا (زبیدہ خانم)؎ سانوں وی لے چل نال وے ،بائو سوہنی گڈی والیا (نسیم بیگم)؎جھانجریاپہنا دو (ملکہ ترنم نور جہاں) وارث لدھیانوی نے جن یاد گار فلموں کے لیے شاہکار گیت تخلیق کیے ان میں مٹی دیا ں مورتاں ، باجی ، بدلہ، شیر خان، پگڑی سنبھال جٹا، رنگیلا، شعلے، مفرور ، روٹی ، حکومت ، مکھڑا، دو رنگیلے اور دیگر فلمی شامل ہیں۔ان کے چند مشہور گیتوں کے بول آپ کی دلچسپی کے لیے حاضر ہیں۔ ؎ وے میں دل تیرے قدماں چ رکھیا ؎ وے سب تو ں سوہنیاں ،ہائے وے من موہنیاں ؎ دلاں دیاں میلیاں نے چن جیاں صورتاں ؎ گوری گوری چاندنی ،ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں نی ؎ چنا تیری یاد وچ ؎ چن چن دے سامنے آگیا وارث لدھیانوی نے جن ممتاز موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ان میں بابا جی اے چشتی،ماسٹر عنایت ، رشید عطرے ،صفدر حسین، طافو،طفیل فاروقی اور نذیر علی شامل ہیں ۔انہوںنے تقریبا تیس برس سے زائد فلمی دنیا میں اپنے صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 5ستمبر 1992دل کا دورہ پڑ نے سے آپ اس جہان ِفانی سے کوچ کر گئے۔