"ABA" (space) message & send to 7575

La Peste

یہ میرے لیے ایک انوکھا بلکہ عجیب تجربہ تھا۔ جہاں چاہو اٹھ کر چل پڑو۔ جب چاہو کھانا کھائو۔ جدھر کا دل کرے جائو‘ کوئی روکنے والا ہی نہیں نہ کوئی پوچھنے والا کہ کدھر جانا ہے کیوں جانا ہے؟
مجھے پوری امید ہے آپ میں سے اکثر لوگوں نے فرسٹ فلائٹ آف دی Seagull پڑھ رکھا ہو گا۔ یہ میری فرسٹ فلائٹ کہہ لیں۔ ویسے میری فیورٹ فلائٹ ہمیشہ مکّے مدینے والی ہوتی ہے۔ اس کے بعد جہاں بھی جانا ہو تعلیمی سفر کے علاوہ کبھی اکیلے سفر کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا۔ رب کی خاص مہربانی ہے‘ جہاں جائو برانڈ نیم ساتھ ہو تو چاہنے والوں کی محبتوں کے سونامی فوراً گھیر لیتے ہیں۔ لیکن پڑھائی کے لیے ملک سے باہر جاتے وقت میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنی ہینڈلنگ خود ہی کرنی ہے۔ گھر سے بہت حوالے ملے کہ وہ ریسیو کر لیں گے مگر میں نے جو فیصلہ کیا تھا اس پر قائم رہا۔ لندن اور گرد و نواح کی یونیورسٹیز میں نئے آنے والے طالب علموں کے لیے راستے، ٹرین سٹیشن، بس سٹاپ، روٹ نمبر بھول جانا پارٹ آف پیکیج ہے۔ خود اعتمادی میں اضافے کا بہترین نسخہ میرے خیال میں پردیس کاٹنا ہے۔ تعلیمی سلسلہ معطل ہوا تو سلیبس سے ہٹ کر کچھ کتابوں پر نظر پڑی۔ ان میں سے ایک شاہکار ناول فرانسیسی زبان میں ایلبرٹ کیمو (Albert Camus) کا ہے جو The Plague کے نام سے مشہور ہوا۔
سال 1941‘ جنوری میں 28 سالہ فرانسیسی ایلبرٹ نے اس ناول پر کام کرنا شروع کیا۔ کہانی ایسے خوف ناک وائرس کے بارے میں تھی، جو جانوروں سے بے قابو ہو کر انسانوں میں پھیل گیا‘ جس سے ایک شہر کی آدھی آبادی ختم ہو گئی۔ ناول کا نام ہے La Peste یعنی طاعون۔ ناول 1947 میں شائع ہوا جسے 20ویں صدی کے دوسرے حصے کا سب سے بہترین یورپی ناول کہا جاتا ہے۔ اس کتاب کو بکھری ہوئی نثر میں لکھا گیا۔ ایلبرٹ نے ہمیں کورونا جیسی ایک تباہ کن وبا کے پھیلائو کی کہانی سنائی جو الجیریا کے شہر Oran کی ایک فرضی تصویر کشی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک میڈیکل پریکٹیشنر ہے جس کے تجربے اور احساسات موجودہ وائرس کی کہانیوں سے ملتے جلتے ہیں۔ 
ایلبرٹ کیمو لکھتا ہے کہ Oran ایک عام شہر ہے۔ الجیریا کے ساحل پر واقع فرانسیسی انتظامی دائرہ اختیار کے اندر۔ یہاں کے رہنے والے بہت مصروف اور منحرف زندگیاں گزارتے ہیں۔ انہیں مشکل سے اپنے زندہ ہونے کا احساس ہے۔ پھر خوف کی ہوا چلی اور سنسنی خیز طور پر ہارَر شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر ریو کو ایک کے بعد ایک مردہ چوہے ملتے ہیں۔ جلد پورے شہر میں ہزاروں چوہوں کی پُر اِسرار اموات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ یہ چوہے اپنی چھپنے کی جگہ سے چکرا کر باہر آتے ہیں۔ چوہے کی ناک سے خون کا ایک قطرہ نکلتا ہے اور پھر وہ مر جاتا ہیں۔ شہر کے لوگ انتظامیہ کو اس بات کا الزام دیتے ہیں کہ انہوں نے جلد حرکت نہیں کی۔ شہری چوہوں کو نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں تا کہ لوگ سکون کا سانس لے سکیں۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں معاملہ کہاں جا کر ختم ہو گا سوائے ڈاکٹر ریو کے۔ ڈاکٹر ریو نے ایسی وبائوں کی تاریخ پڑھ رکھی ہے‘ اس لیے اسے شبہ ہے کہ کوئی بڑی خرابی آنے والی ہے۔ پھر وہی ہوا۔ جلد Oran میں ایک وبا نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بیماری ایک شہری سے دوسرے کو منتقل ہونے لگی۔ اس طرح Oran کی ہر گلی میں خوف راج کرنے لگا۔
یہ کہانی لکھنے کے لیے ایلبرٹ کیمو نے اپنے آپ کو طاعون کی تاریخ میں غرق کر لیا۔ اس نے Black Death کی ایک ایک تفصیل پڑھی جس نے 14ویں صدی عیسوی کے یورپ میں 5 کروڑ لوگوں کی جان لی تھی۔ ساتھ ہی ایلبرٹ نے 1629 کے اطالوی طاعون کا بھی مطالعہ کیا جس سے جنوبی اٹلی میں 2 لاکھ 80 ہزار لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ پھر 1665 میں لندن کے طاعون پر نظر ڈالی۔ اس کے علاوہ اس نے 18ویں اور 19ویں صدی کے دوران چین کے ایسٹرن ''سی بورڈ‘‘ پر طاعون کے حملوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ مارچ 1942 میں کیمو نے مصنف Andre Malraux سے کہا کہ وہ سمجھنا چاہتا ہے‘ طاعون انسانیت کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ ایلبرٹ شرماتے ہوئے بولا ''جناب آندرے، شاید یہ آپ کو عجیب لگے لیکن یہ موضوع مجھے بہت نیچرل لگتا ہے‘‘۔ دراصل ایلبرٹ کیمو صرف ایک طاعون کے بارے میں نہیں لکھ رہا تھا۔ اسی لیے کچھ حلقے ناول کو فرانس پر نازی قبضے کی استعاراتی کہانی کہتے ہیں۔ ایلبرٹ کے فلسفے کے مطابق دنیا کے لوگ جانے بغیر ایک خوف ناک طاعون کے دوران جی رہے ہیں جو کہ بڑے پیمانے پہ پھیلی ہوئی خاموش اور پوشیدہ بیماری ہے جو کرہ ارض پر کسی کو کسی بھی وقت مار سکتی ہے۔ انسانی زندگی، جسے ہم مضبوط سمجھتے ہیں، کو فوراً تباہ کر سکتی ہے۔ ذرا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں پیش آنے والے طاعون کے واقعات دراصل اُلجھی ہوئی ''یونیورسل پری کنڈیشن‘‘ کا اجتماع ہیں یا پھر ایک دائمی اصول کی ڈرامائی مثالیں ہیں۔ دائمی اصول یہ ہے کہ انسان بے ترتیبی سے کسی بھی وقت نیست و نابود ہو سکتے ہیں۔ چاہے یہ کسی بیکٹیریا کے ذریعے ہو، کوئی حادثہ ہو یا پھر کسی ساتھی انسان کا عمل۔ طاعون نما وبا سے ہمارا ایکسپوژر ایلبرٹ کے اس نظریے کا مرکز ہے کہ انسانی زندگیاں اُس کنارے پہ ہیں جس کو ایلبرٹ نے ''دی ابسرڈ‘‘ یعنی مضحکہ خیز کا نام دیا۔ اس مضحکہ خیزی کو صحیح طور سے جاننا ہمیں مایوسی کی طرف لے جا سکتا ہے‘ لیکن تجربات کہتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اگر اس کو صحیح طور پر سمجھا جائے تو یہ ایک بہتری والے المناک تناظر کی شروعات ہو سکتی ہے۔ ایلبرٹ نے لکھا: وبا سے پہلے کے Oran کے لوگوں کی طرح ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہمیں لافانی زندگی ملی ہوئی ہے۔ ایسی نا سمجھی کے ساتھ ایسا برتائو آتا ہے جو کیمو کے لیے قابل نفرت ہے۔ اس برتائو میں دلوں کی سختی، سٹیٹس کا جنون، خوشی اور شکر گزاری سے انکار اور لوگوں کو اور ان کی اخلاقیات کو جج کرنے کی رغبت جیسے معاملات شامل ہیں۔ Oran کے لوگ وبا کو پسماندگی کے ساتھ ایسوسی ایٹ کرتے ہیں جو کہ کسی اور عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ Oran کے لوگ اپنی نظر میں جدید لوگ ہیں‘ جن کے پاس ٹیلی فون، ہوائی جہاز اور اخبارات ہیں۔ یقینا وہ 17ویں صدی کے لندن یا 18ویں صدی کے کین ٹَن کے خستہ حال لوگوں کی طرح نہیں مریں گے۔ ناول کے ایک کردار نے کہا ''ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ وبا ہو! سب جانتے ہیں کہ وبا مغرب سے مٹ چکی ہے‘‘۔ ریو نے طنز سے بھرپور جواب میں کہا ''ہاں یہ سچ ہے کہ مردہ لوگوں کے علاوہ سب یہ جانتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر ریو کے حساب سے موت کے لیے تاریخ میں کوئی توسیع نہیں مِلتی۔ نہ ہی ہمارے پاس اپنی کمزوری سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے۔ اس لیے زندہ رہنا ہمیشہ ایک ایمرجنسی ہی رہے گی اور موت ہمیشہ ایک ناقابلِ تلافی اور بنیادی حقیقت۔ طاعون ہو یا نہ ہو، نا گہانی موت کی حساسیت ایک ایسا طاعون ہے جو فوری طور پہ انسانی زندگی کو بے معنی کر دیتا ہے۔ Oran کے شہری پھر بھی اپنی قسمت کا سامنا کرنے سے انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت جب شہر کا ایک چوتھائی حصہ مر رہا تھا، وہ یہ تصور کر رہے تھے کہ وبا ان کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔
2020 میں اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ La Peste فرانس پر پھر حملہ آور ہے، پورے کرّہ ارض سمیت۔ La Peste کی نئی کہانی کا سبق یہ ہے کہ دنیا بھر کی ریاستوں، لیڈروں اور شہریوں نے اس سے کیا سبق سیکھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں