"ABA" (space) message & send to 7575

سادہ سی بات

جب تک اسے کمرشل ہاتھ نہیں لگتے، ہر بات سادہ سی ہوتی ہے۔ سننے کی حد تک اور پھر عمل کرنے کے لیے بھی۔ چلئے اس کی مثال کورونا وبا سے پہلے رمضان شریف سے ہی لے لیتے ہیں۔
رمضان کے مہینے میں جو روزہ دار اصل میں غصّہ بردار بن جاتے ہیں‘ ان کی مثال سب سے اہم ہے۔ آج 2020 کے رمضان کا پہلا دن ہے۔ پہلے روز ے والے دن بائیسکل، موٹر سائیکل اور کار چلانے والے ایک دوسرے پر چوکوں‘ چوراہوں میں برستے ہوئے ملتے ہیں۔ اس طرح کی گرج برس میں ایک ہی طرح کے ڈائیلاگ استعمال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ راستہ چھوڑو میرا روزہ ہے۔ میرے مُنہ نہ لگو میرا روزہ ہے۔ میرا روزہ خراب مت کرو۔ میرا روزہ نہ ہوتا تو پھر میں تمہیں بتاتا کہ میں کون ہوں۔ اور اس طرح کے بے شمار دوسرے جملے کُھلے عام بولے جاتے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے یا پھر اس طرح کہہ لیں کہ سمجھنے والی چھوٹی سی بات یہ ہے کہ روزہ دراصل ہے کیا؟ اور روزہ دار کو روزہ رکھنے سے ملتا کیا ہے؟ ان دو باتوں کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے روزے کے بارے میں دو بنیادی اصول سامنے رکھنے ہوں گے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ روزہ انسان کو پاکیزہ کرنے کے لیے فرض کیا گیا ہے، تاکہ وہ اللہ کی طرف سے انعام پانے والوں کے راستے پہ چلے۔ دوسرا یہ کہ روزہ خاص طور سے ایسی عبادت ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ اس لیے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے والا شخص اپنے جیسے کسی دوسرے انسان پر روزہ رکھنے کا احسان نہیں جتلا سکتا۔ پھر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا راز اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے کہ کس نے روزہ رکھا اور کون روزہ دار نہیں ہے۔ روزے کی اس خصوصی حیثیت کے پیش نظر اس کا انعام بھی اللہ اور بندے کے درمیان ہی ہے۔ ایک اور سادہ سی بات ذہن میں رکھنے والی یہ ہے کہ سحری کھانے کے بعد روزہ شروع تو ہو سکتا ہے لیکن اسے برقرار رکھنا افطاری کے وقت تک بہت محنت والا کام ہے۔ پیاس برداشت کرنا ایک طرح کی محنت ہے۔ بھوک میں پیٹ تنگ کرنا شروع کر دے تو اس پر قابو پانا ایک اور طرح کی محنت ہے۔ مگر یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ روزہ صرف بھوک اور پیاس پر کنٹرول کرنے کا نام بالکل بھی نہیں ہے۔ روزہ اپنے روزہ دار سے تین سخت مطالبے اور بھی کرتا ہے۔
روزے کا پہلا تقاضا: رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے والوں سے روزے کا سب سے بڑا مطالبہ زبان پر کنٹرول ہے۔ یہاں یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ خوشی سے خوش کرنے والی گپ شپ‘ مذاق والی ہلکی پُھلکی گفتگو، ان دی لائن آف ڈیوٹی اپنے ماتحت لوگوں کو آرڈر جاری کرنا، دنیا داری کے کاموں کے لیے گفتگو کرنا منع نہیں ہے‘ لیکن جو زبان سے نکالنا منع ہے اس کے تین حصے خاصے اہم ہیں۔ ان میں سے پہلا حصہ ہے‘ بد زبانی یا بد کلامی۔ بُرے مقصد کے لیے بُری گفتگو کرنا بد کلامی کہلاتا ہے۔ برے لہجے میں بری زبان بولنا بد زبانی ہے۔ بلا وجہ شکایتیں لگانا‘ اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کرنا، گالیاں بکنا‘ لوگوں پر تہمت اور الزام لگانا‘ کسی کی پیٹھ پیچھے چغل خوری کرنا۔ یہ سب باتیں بد خواہی کی کیٹیگری میں آتی ہیں۔ اس لیے زبان پر کنٹرول رکھنا ان سارے عیبوں سے بچانے والی سادہ سی بات ہے‘ بلکہ آپ اسے 100 فیصد کامیاب فارمولہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ سیانے کہتے آئے ہیں کہ فضول بات کہتی ہے، تُو مجھے زبان سے نکال تاکہ میں تجھے گائوں/ بستی سے نکال دوں۔
دوسرا تقاضا: رمضان کے مہینے میں روزے کا دوسرا تقاضا سیلف کنٹرول رکھنے کا ہے۔ کھانے پینے کے علاوہ بھی سیلف کنٹرول کے کئی اور مشکل میدان ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بات پر بھڑک اٹھنا، لڑنے کے لیے دوڑ پڑنا، خود کو برتر اور لوگوں کو کمتر جان کر انہیں جھاڑ دینا۔ یہ معاملات ہم سے اینگر مینجمنٹ مانگتے ہیں۔ اگر روزہ رکھنے کے بعد آدمی ایک چھوٹا سا کام شروع کر دے تو ان ساری بڑی بڑی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔ اور وہ کام یہ ہے کہ انسان جس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے روزہ رکھتا ہے اسی طرح یہ نیت کر لے کہ میں رب کی رضا کے لیے تلخ مزاجی سے دُور رہوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی نیت کرنے کے بعد انسان کو ثابت قدم رہنے کے لیے غیبی امداد ضرور مل جاتی ہے۔
تیسرا تقاضا: یہاں پہ رمضان شریف روزہ دار سے دل اور ہاتھ دونوں کُھلے رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات کہاں سے آئی‘ وہ میں کُھل کے آپ کر سامنے رکھ دیتا ہوں۔ اگر ذرا سا غور سے مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ رمضان شریف میں روزے کے نظام کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات نے مسکینوں اور غریبوں کے لیے بھلائی رکھی ہے‘ جیسے اگر کسی شخص سے روزہ ٹوٹ جائے یا وہ خراب صحت اور سفر وغیرہ کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو وہ اللہ کے پیارے غریب اور مسکین بندوں کو کھانا کھلائے گا۔ اگر کسی کو ڈاکٹرز نے جان لیوا بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے سے منع کر دیا ہے تو وہ بھی اللہ کی غریب مخلوق کو کھانا کھلانے کا پابند ہو گیا۔
پھر ہم سب اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ ہماری زندگیوں میں اس طرح کا رمضان شریف پہلی بار آیا ہے۔ 2020 کے رمضان میں اللہ کے بندوں کے لیے امتحان ہی امتحان ہے۔ ان میں سے سب سے بڑا امتحان روزی روٹی کا چیلنج ہے۔ ذرا توجہ سے دیکھیں تو ہمارے ارد گرد ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو دو وقت کا سالن پکانا افورڈ نہیں کر سکتے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے بے شمار لوگوں کے پاس کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے۔ ہمارے پیارے وطن کی آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے والی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بے روزگاری ایک علیحدہ سے بہت بڑی بیماری ہے۔ کروڑوں لوگ ڈیلی ویجر ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جس دن وہ کمائیں گے اُسی دن کھانا کھا پائیں گے۔ ان لوگوں کا واحد قومی سہارا وزیر اعظم عمران خان صاحب کا پروگرام احساس ہے۔ ایک اور طبقہ وہ ہے جسے معاشی زبان میں Fixed Income Group کہتے ہیں۔ ان سارے لوگوں پر دو وبائیں روزانہ حملے کر رہی ہیں۔ پہلی کورونا کی وبا اور دوسری وبا ایسے لالچیوں کے پیٹ ہیں، جن کا جہنم صرف مہنگائی سے ہی بھر سکتا ہے۔
رمضان کے روزے کا آغاز اور اس کا اختتام‘ دونوں کھانے پینے سے ہوتے ہیں۔ کیا یہ بھی کوئی بتانے والی بات ہے کہ نا جائز آمدنی والا کھانا کھا کر سحری اور افطاری پر پیٹ پوجا تو ہو سکتی ہے رمضان کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ یکم رمضان کو مکمل لاک ڈائون کے سائے میں من مانی قیمتوں نے کراچی میں روزہ داروں کی چیخیں نکلوا دیں۔ ایسی کمائی پر افطار کرنے والوں نے کبھی سوچا کہ وہ انگاروں سے پیٹ بھر رہے ہیں۔ ایک روزہ دار کا پیٹ کاٹ کر دوسرا اپنا پیٹ بھر لے تو اسے کیا کہیے؟ رمضان کی سب سے بڑی عطا اور تحفہ دو طرح سے سامنے آتا ہے، ایک سوچنے کا انداز بدل کر جبکہ دوسرا زندگی کی روٹین تبدیل کر کے۔
سعودی عرب کی حکومت نے ایک روز پہلے شاپنگ مال اور کھانے پینے کی چیزوں کے سٹور کھولنے کی اجازت دے دی۔ صبح سے شام تک لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے خریداری کرنے جا سکتے ہیں۔ ہماری زندگیوں کا سب سے مشکل رمضان ہمارے لیے سب سے بڑے مواقع لے کر آیا ہے۔ ایک موقع مزاج بدل دینے کا اور دوسرا اپنی عادت تبدیل کرنے کا۔ بس آج یہی سادہ سی بات کہنی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں