"ABA" (space) message & send to 7575

ہائپر نیشنل اِزم

کوئی زمانہ تھا جب فیچر فلموں کی دنیا میں ایک کردار بہت مشہور ہوا۔ وہ تھا اینگری ینگ مین کا کردار۔ اب ایسا اینگری دور آ گیا ہے جس نے مین اور وومین کے ساتھ ساتھ اینگری ینگ اینڈ اولڈ کی تقسیم بھی ختم کر دی۔ اس بڑھتے ہوئے اینگر کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں رہی کہ فقیر سے وزیر تک اور مشرق سے مغرب تک اس کے لا تعداد ویڈیو ثبوت وائرل ہو کر سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ فلموں کے خیالی اینگری کردار بوڑھے ہو کر گھر بیٹھ چکے ہیں۔ ان کی جگہ پُر کرنے کے لئے اصلی زندگی کے ہر شعبے میں ان کِرداروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ آئیے اس بُھولے ہوئے موضوع کو یاد کرتے ہیں۔
اس وقت مغرب کے اکثر ملکوں میں سیاسی نظام ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوشن میں تبدیل ہو چکا ہے۔ قانون کے پوسٹ گریجوایٹ طالب علم کی حیثیت سے پَبلک ٹرین اور یونیورسٹی بس میں سفر کرتے ہوئے سوسائٹی کے ادارہ بننے کا منظر مجھے کھلی آنکھوں سے دیکھنے کو ملا۔
آئیے اپنے ہاں نیو ورلڈ ٹیکنالوجی آرڈر سے اس کا موازنہ کر لیں۔ شروع میں ایسے ٹیسٹ کے لئے دو چھوٹے چھوٹے کیس سٹڈی دیکھ لینا کافی رہیں گے۔ ان میں سے پہلا پبلک ٹرانسپورٹ کے اندر آڈیو میوزک، ویڈیو میوزک اور فلمیں دکھانے کا رواج ہے۔ 56 سیٹر یا اس سے بڑی چھوٹی سواری میں کوئی مسافر اگر سونا چاہے، تب بھی اسے ڈرائیور یا بس کمپنی اپنی مرضی کی انٹرٹینمٹ دکھا کر اور جگا کر سفر کروانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کسی مغربی ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ بس میں جا کر بیٹھ جائیں۔ یہاں اکثر لوگ ایئر فون لگا کر میوزک سنتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایسا میوزک جو صرف ایئر فون لگانے والا ہی سُن سکتا ہے۔ ہمراہی مسافر اس میوزک کے سُر اور لَے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں دیہی علاقوں میں بھڑکیلے اور ذو معنی گانے ٹریکٹروں اور ٹرکوں پر لائوڈ سپیکر لگا کر چلائے جاتے ہیں۔ یہ ذاتی پسند نا پسند اور ایک دوسرے کی پرائیوَیسی کے احترام کی دو علیحدہ علیحدہ چلتی پھرتی تصویریں ہیں۔ اسی سلسلے کی دوسری مثال سیلولر ٹیلیفون کا استعمال ہے۔ سفر کے دوران موبائل ٹیلی فون پر اونچی گفتگو سب مسافروں کا ''حقِ سفر‘‘ سمجھا جاتا ہے جبکہ اسی طرح کی مغربی ٹرانسپورٹ سروسز میں مسافر لوگوں نے کتاب کو اپنا ہم سفر بنا رکھا ہے۔
اگر ہم ذرا سا غور کریں تو یہ رویّے ہر لیول پر کم از کم ہائپر سماج کی ہائپر روایات کی نشاندہی کرتے ہوئے ملیں گے۔ COVID-19 کے تناظر میں بھی یہی رویّے کُھل کر سامنے آئے ہیں۔ ہر طرف ڈائریکٹ میٹرک پاس ماہرین مشروم کی طرح سے اُگ پڑے ہیں‘ جن میں سے ہر کسی کے پاس کورونا کنٹرول پروگرام اور کورونا بیماری سے فوری ریکوری کا 100 فیصدکامیاب نسخہ برآمد ہوتا چلا جاتا ہے۔ سماج سے بھی اوپر ریاست کا دائرہ اختیار آتا ہے۔ ریاستی لیول پر ہائپر نیشنل اِزم وائرس کی سب سے خطرناک اور جان لیوا مثال نے نریندر مودی کے ہندتوا والے انڈیا میں جنم لیا ہے۔
اب یہ بات کورونا وائرس کی طرح سے ساری دنیا میں پھیل چکی ہے کہ نریندر مودی کا انڈیا، ہائپر نیشنل اِزم کا سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے‘ بلکہ کئی اعتبار سے اس ہائپر نیشنل ازم کا نشانہ بھی خود انڈیا کے شہری ہیں۔ علاقائی سطح پر دیکھیں تو انڈین مودی کے ہائپر نیشنل اِزم نے اپنے اَڑوس پڑوس کے ملکوں میں انگُشت بازی کے ذریعے اپنے تین بارڈرز پر جنگ کا ماحول پیدا کر لیا ہے جن کی تفصیل یوں ہے۔
1۔ ہائپر نیشنل اِزم کا پہلا محاذ: نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے گزشتہ منگل کے دن بھارت کے ہائپر نیشنل اِزم کے ذریعے توسیع پسندی کو بے نقاب کر دیا۔ نیپال کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ Limpiyadhura، Lipulekh اور Kalapani کے علاقے نیپال کی ملکیت ہیں۔ نیپالی وزیر اعظم نے نیپال کی تاریخ میں اس بات کا پہلی بار اعلان بھی کیا کہ یہ تینوں علاقے نیپال بھارت سے ضرور واپس لے گا۔ کے پی شرما اولی کی یہ تقریر ایک ایسے موقع پر ہوئی جب نیپالی کابینہ سے ملک نیپال کا نیا نقشہ منظور کیا گیا جس میں تینوں علاقوں کو مملکتِ نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
اولی نے پارلیمنٹ سے مخاطب ہو کے کہا کہ یہ علاقے نیپال کی ملکیت ہیں‘ لیکن ہندوستان نے یہاں اپنی فوج داخل کر کے ان تینوں علاقوں کو متنازعہ کر دیا ہے۔ اب نیپالی شہریوں کو ہندوستان کی فوج تعینات ہونے کے بعد وہاں جانے سے روکا جا رہا گیا۔
وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے مزید کہا: '' ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے میں اس معزز ہائوس کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ Limpiyadhura، Lipulekh اور Kalapani کے علاقوں کے مسئلے پر پردہ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ ان علاقوں کی نیپال میں واپسی کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا‘‘۔ نیپالی وزیر اعظم نے بھارت پر گرجتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم اپنے علاقوں کو ہر قیمت پر واپس لیں گے۔ انہوں نے ہندوستان کے نئے نقشے میں ان علاقوں کے متنازعہ ہونے کا دعویٰ مسترد کر دیا۔ نیپالی وزیر اعظم نے ہندوستان پر طنز کا تیر چلاتے ہوئے کہا کہ ہم جھوٹے نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں اس بات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی ناراض ہو گا۔ مسٹر اولی نے نیپالی علاقوں کی بھارت سے نجات کا روڈ میپ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ٹھوس کوششیں کریں گے کہ ان علاقوں کو واپس اپنی ملکیت میں لے لیں۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کے پی شرما اولی کا مذہب ہندو مَت ہے اور نیپال ایک ہندو ریاست ہے۔ اسی حوالے سے نیپالی وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں اُمید ہے کہ ہندوستان سچ کا راستہ چُنے گا جس کا ذکر، اشوکا چکرا میں موجود ہے جو ہندوستان کا قومی نشان ہے۔ زبردست جوش و خروش کے دوران نیپال کے وزیر اعظم نے پوری سنجیدگی سے اعلان کیا کہ یہ قومی غیرت کا معاملہ ہے اور جس دن ہم یہ علاقے بھارت کے قبضے سے چھڑائیں گے وہ دن دیوالی کا دن ہو گا۔ نیپال کی حکمران جماعت نیپال کمیونسٹ پارٹی(NCP) کے قانون دانوں نے ایک نئی قومی ریزولوشن بنائی ہے جس میں Limpiyadhura، Lipulekh اور Kalapani کی نیپال کو واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
2۔ ہائپر نیشنل اِزم کا دوسرا محاذ: مودی کے ہائپر نیشنل اِزم کا دوسرا محاذ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ گرم ہے۔ یہ بھارت چین محاذ تب کُھلا جب نریندر مودی نے بارڈر پر ایک نئے لنک روڈ کا افتتاح کیا۔ یہ سڑک کیلاش مانسرور تک جاتی ہے جو تِبّت کے چینی علاقے میں واقع ہے۔ اس سڑک کو بڑی تیزی سے نیپالی علاقوں سے گزارا گیا تھا۔
سال1962 میں تِبّت جنگ کے دوران چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے بھارتی فوج کے کان پکڑوائے تھے۔ آج 58 سال بعد بھارت نے لڑے بغیر تِبّت جنگ ہار دی ہے۔ اگلے روز بھارت کے اندر سے ٹویٹر پر ٹرینڈ بنا، جس میں بھارتی فوج جو اپنے شہریوں پر حملے کرنے کی ماہر ہے اسے چِکن آرمی المعروف کُکڑ فوج کا خطاب دیا گیا۔ چینی فوج گولوں کے بجائے بھارتی سورمائوں کو لاتوں مُکّوں اور جوتوں سے مار رہی ہے۔ بے شمار ویڈیو کلپ اس کا ثبوت ہیں۔
3۔ ہائپر نیشنل اِزم کا تیسرا محاذ: مودی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تقریباً ایک کروڑ کشمیری مسلمانوں پر بُزدل بھارتی فوج کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لئے لائن آف کنٹرول پر تیسرا محاذ گرم کر رکھا ہے۔ بھارتی گولا باری کا نشانہ غیر مسلح شہری بچے، عورتیں اور بزرگ ہیں۔ پاک فوج کے بہادر جوان جواب میں بھارت کی چوکیوں اور بنکروں کو اُڑاتے ہیں۔ 
ہائپر نیشنل اِزم کی لہر نے بھارت کے چہرے سے سیکولر جمہوریت کا نقاب اتار دیا۔ جسے شک ہو وہ بابری مسجد کی جگہ مودی مندر بنتا ہوا دیکھ لے۔ پہلے اور تیسرے محاذ میں کیا کنیکشن ہے اس پرعلیحدہ بات ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں