"ABA" (space) message & send to 7575

ڈیڈلی سائلنس

سیکنڈ ورلڈ وار کے بعد ایک بار پھر دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو قدرتی ہے‘ جبکہ دوسری دو وجوہات انسانوں کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ اس وقت دنیا کے بڑے سوچنے والے اور انسانوں کے مستقبل کے لیے وقت کی دیواروں سے آگے دیکھنے والے پریشان ہیں۔ امنِ عالم کے لیے پہلے خطرے کو جدید معیشت کے بانی ایڈم سمتھ نے ایک ڈاکٹرائن کی صورت میں بیان کر رکھا ہے۔ اس تاریخ ساز ریسرچ کا عنوان رکھا گیا تھا: Natural Checks on Population جس کا سیدھا سا مطلب ہے‘ بڑھتی ہوئی انسانی آبادیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے قدرت کی طرف سے عائد کردہ پاپولیشن کنٹرول پروگرام۔ اس نیچرل چیک سسٹم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ڈی زیزِز یعنی وبائیں اور بیماریاں پہلے نمبر پر۔ دوسرے نمبر پر ڈیزاسٹرز یعنی قدرت کی طرف سے آنے والی آفات جن میں زلزلہ‘ سونامی‘ قحط‘ ٹڈی دَل اور شدید ترین موسمیاتی حملے شامل کئے جا سکتے ہیں۔ انسانی آبادی کی گروتھ پر تیسرے چیک کا نام ہے جنگیں‘ جنہیں انسانوں کی خود ساختہ یا اپنی پیدا کردہ تباہی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ 
اس وقت ساری دنیا کورونا جیسی خوف ناک اور جان لیوا وبا کی زد میں ہے۔ ساری دنیا میں اس بیماری کو قاتل بیماری کہہ کر معاشرے‘ قومیں اور سماج اپنی اپنی لیڈرشپ کی قیادت میں یکسو ہو کر اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہمارے پیارے وطن کی بات مگر دوسری ہے۔ ادھر آنے سے پہلے ذرا یو ایس اے چلتے ہیں جہاں امریکہ کے 95 سالہ تجربہ کار سابق صدر جِمی کارٹر نے چونکا دینے والی بات کہی ہے۔ چند دن پہلے مونگ پھلی کے اس کاشتکار نے یہ جملہ بولا ''میں اور میری 92 سالہ بیگم صاحبہ نے گزرے ہوئے سارے سالوں میں یہ سبق سیکھا ہے کہ ظلم دیکھ کر اس پر خاموش رہنا ظلم سے زیادہ ڈیڈلی ہے‘‘۔ سابق امریکی صدر نے اپنے مطلب کی سیاسی مثال دیتے ہوئے کہا کہ صرف 60 لاکھ جرمن لوگ نازی کہلاتے تھے‘ وہ کس طرح گیس چیمبرز اور مشقّتی کیمپس لے جا کر لوگوں کا قتل عام کرتے رہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ باقی کے چھ کروڑ جرمن شہری 60 لاکھ لوگوں کے ظلم پر خاموش رہے۔
دوسری جنگ عظیم جیتنے والے اتحادی ملکوں کی پسندیدہ تاریخ سے ہٹ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ پہلی جنگ عظیم نہ ہوتی تو شاید جرمنی کی نازی پارٹی 21 لوگوں والی ورکرز پارٹی سے آگے نہ بڑھ سکتی۔ اس سے بھی ذرا پیچھے جائیں تو تاریخ بتاتی ہے کہ نسل پرستی کے جرم کی پہلی مجرم جرمن نازی پارٹی نہیں ہے‘ کیونکہ شمالی امریکہ اور جنوبی افریقہ ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر واقع ہیں‘ لیکن اس کے باوجود بھی یہاں ایک ہی چیز مشترک تھی اور وہ ہے نسل پرستی‘ جس کی ہلاک کر دینے والی انسان دشمن تعریف یہ ہے کہ گوری نسل کے لوگ اپنے رنگ کی بنیاد پر باقی سارے لوگوں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے بہتر اور بڑھ کر ہیں۔ شروع میں نسل پرستوں نے یہ دعویٰ کیا کہ گوری نسل سائنسی طور پر باقی نسلوں سے اونچی ہے۔ گوری چمڑی والوں میں سے نسل پرستوں کے اسی من پسند دعوے کی انتہا یہ ہوئی کہ شمالی امریکہ اور جنوبی افریقہ کے گوروں اور کالوں کے عبادت خانے یعنی چرچ‘ تعلیمی مراکز یعنی سکول اور شفا خانے یعنی ہسپتال اور ڈسپنسریاں‘ حد تو یہ ہوئی کہ ان کے پَب‘ کلب‘ کھیل کے میدان اور جوا خانے بھی الگ الگ رکھے گئے۔ 18ویں صدی عیسوی میں نسلی برتری پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ امریکہ میں سفید کے مقابلے میں گہری رنگت رکھنے والے لوگوں کا پہلے جنگلی جانوروں کی طرح شکار کیا گیا اور پھر آج تک انہیں کم تر درجے کا انسان ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ نسل پرستی کی بیماری کا آغاز جرمنی کی نازی پارٹی سے نہیں ہوا بلکہ اس وقت جب نازی پارٹی محض چند کارکنوں کی جرمن ورکرز پارٹی کہلاتی تھی اس سے بھی پہلے امریکہ اور یورپ نے افریقی ملکوں کو کالا براعظم کہہ کر وہاں سے لاکھوں کروڑوں لوگ بے گھر بنائے‘ اُنہیں قتل کیا اور اغوا کر کے ان کے عورتوں اور مردوں کو غلام بنا لیا۔ غلام کا مطلب ہوا اپنی ذاتی پراپرٹی جیسے آپ کا ٹریکٹر‘ کار‘ موبائل فون یا جھاڑو۔
اسی پس منظر میں جارج فلائیڈ کی ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کے بعد نسل پرستی کے جرائم پر خاموش رہنے والوں کے خلاف ساری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کراچی کے ایک ٹرک آرٹسٹ نے جارج فلائیڈ کے حق میں شاندار احتجاجی پینٹگز دیواروں پر بنائی ہیں۔ باقی دنیا میں نسل پرستی کے خلاف جمع ہونے والے مظاہرین اپنے پلے کارڈز کے ذریعے ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں ''نسل پرستی کے ظلم پر خاموشی اس جرم کی سرپرستی ہے‘‘۔ نسل پرستی کی رنگ دار قسم‘ گوری نسل پرستی سے بھی زیادہ بدبو دار قسم کی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ہندو ریاست بھارت کی سرپرستی میں ملتا ہے اور وہ ہے ہندوستان کی دلت برادری اور مسلم اقلیت کے ساتھ بھارتی نازی ازم کی بانی مودی سرکار کے ''جاتی کیڈر‘‘ کا نسل پرستانہ سلوک۔ بھارتی نسل پرستی میں تشدد کی ذریعے جبری طور پر مذہب تبدیل کروانا۔ COVID-19 امداد کے چند روپے کا راشن لینے کے لیے اپنی مرضی کے مذہبی نعرے لگوانا اور حکومتی وزیروں کی طرف سے نسلی برتری کے نعرے لگانے جیسے جرائم شامل ہیں۔
بات ہو رہی تھی ہمارے وطن میں کورونا وبا کے خلاف قومی اداروں اور عمران خان صاحب کی حکومت کے اقدامات کی۔ اس حوالے سے پاکستان میں کیا کیا انوکھے رسپانس سامنے آئے ہیں‘ انہیں ذہن میں رکھنا ضروری ہو گا۔
پہلا رسپانس: کورونا وبا نہیں صرف پرو پیگنڈا ہے اس لیے کورونا کے ایس او پیز پر عمل کرنے کی بات رہنے دیں‘ ان پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
دوسرا رسپانس: کورونا ایس او پیز فراڈ ہیں‘ عوام کو دبانے کے لیے‘ ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تیسرا رسپانس: ہم سب جنگلی جڑی بوٹیا ں کھائیں‘ ان کا قہوہ استعمال کریں‘ جڑی بوٹیوں کے سُوکھے پائوڈر بنا کر لیں۔ پھر ماسک پہننے کی کیا ضرورت ہے؟
چوتھا رسپانس: ان دنوں روزانہ کی بنیاد پر مرنے والے کورونا انفیکشن سے نہیں مر رہے بلکہ حکومتی ادارے زبردستی ان کو کورونا میں ڈال کر نا جائز فائدے اُٹھا رہے ہیں۔
آخری رسپانس سب سے عجیب ہے‘ جس کے مطابق ہمیں کورونا سے نہیں لڑنا بلکہ ان لوگوں سے لڑنا ہے جو کورونا بیماری کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
دو عدد رویے اور بھی اسی تسلسل میں آتے ہیں۔ ان میں سے پہلا رویہ پاکستانی اپوزیشن لیڈروں کا ہے۔ ایک نے کہا‘ مجھے کورونا وائرس کا انفیکشن ہرگز نہ لگتا اگر احتساب والے حساب کتاب پوچھنے کے لیے نہ بلاتے۔ یاد رہے اپنے بڑے بھائی کی انگلستانی میڈیکل رپورٹس کی طرح ان کا وائرس سرٹیفکیٹ بھی ابھی تک سامنے نہیں آ سکا‘ مگر اسی پارٹی کے سینئر نائب صدر نے انکشاف کیا کہ ان کو کورونا وائرس شہباز شریف کی تاریخِ پیشی پر جا کر لگا۔ عجیب وائرس ہے جو پاکستان پہنچ کر سیاسی ہو گیا ہے۔ کورونا وائرس کی جانب اپروچ میں ایک ڈیڈلی تضاد اور بھی ہے۔ ساری دنیا کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں اپنی سوچ اور رویہ تبدیل کر کے کورونا کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھنا پڑے گا۔ پاکستانیوں کا اپنے ہاں عمومی رویہ یہ ہے کہ کورونا کو بد تمیزی چھوڑ کر ہمارے ساتھ ہماری شرائط پر گزارہ کرنا چاہیے۔ ہاں البتہ رائے عامہ کو اس خوفناک بیماری کے خلاف متحد کرنے کے بجائے لوگوں کی نظر حکومت کے خلاف اتحاد بنانے پر لگی ہوئی ہے۔
جناب مظفر وارثی صاحب کیا اچھا کہہ گئے ہیں؎
چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
ایک موڑ پہ تمام زمانے لگے مجھے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں