"ABA" (space) message & send to 7575

…اور مکان

14 اگست 1947 کو آزادی حاصل کرنے کے بعدبانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور قائدِ ملت لیاقت علی خان شہید کے سنہری دور گزرے اوراس کے بعد ہماری سیاسی تاریخ نعرے بازی اور دھڑے بازی کے طویل دور میں داخل ہو گئی ۔ تقسیم اور تفریق کی اس سیاسی تاریخ میں دو نعرے سب سے زیادہ مشہور ہوئے‘ بلکہ یوں کہہ لیں کہ ہماری 72 سالہ سیاسی موومنٹ ان دو نعروں کے ارد گرد ہی گھومتی چلی آئی ہے۔ ان میں سے ایک نعرہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا ہے‘ جس کا آغاز مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی پارٹیوں نے جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے دور میں کیا تھا۔ اس نعرے کا عروج جنرل ضیا صاحب کے 11 سالہ دورِ حکومت میں مشاہدے میں آیا ‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس نعرے کے تحت برپا ہونے والے جلسے جلوسوں اور دھرنوں کا بنیادی مقصد ''اسلام آباد‘‘ پہنچنا ہی نظر آی۔ دوسرا سیاسی نعرہ ایسا ممتاز تھا کہ ہر سیاسی جماعت اور حکومت نے یہ نعرہ ضرور لگایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی نے اس نعرے کو نیکسٹ لیول پر پہنچا دیا تھا۔ اسی نعرے کے نتیجے میں اسلامی سوشلزم کی ٹرم ایجاد ہوئی کیونکہ یہ نعرہ تین عدد بنیادی انسانی ضرورتوں پر مشتمل تھا‘ کھانا‘ لباس اور شیلٹر‘ چنانچہ عام لوگوں میں بہت مقبول ہوا۔
آج کے وکالت نامہ کا موضوع پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کا موازنہ پیش کرنا نہیں ہے‘ اس لیے یہ فیصلہ آپ پر چھوڑدینا بہتر رہے گا کہ ان دو نعروں کے زور پر سواری کر کے اسلام آباد میں اقتدار تک پہنچنے والوں نے ان پر کتنا عمل کیا یا نہیں کیا؟خاص طور سے عام آدمی کو شیلٹر یعنی مکان فراہم کرنے کے وعدے پر۔ماضی میں سستے مکان بنانے کی دعویداری چار حکومتوں کے دور میں خاص طور سے زور لگا کر کی گئی‘ان میں سے پہلا دور ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا تھا جو 1971 سے 1977تک چلا۔ بھٹو صاحب کی پی پی پی کو اقتدار ملنے کی خاص وجہ روٹی‘کپڑا اور مکان والا نعرہ ہی تھا‘دوسرا دور 1985کی غیر سیاسی اسمبلی کے وزیر اعظم جناب محمد خان جونیجو مرحوم کا ہے جن کی حکمرانی کے دور میں جونیجو بستی کے نام سے زمین کے چند ویران ٹکڑوں پر چند درجن چھوٹے چھوٹے مکان بنائے گئے۔ سرکاری خرچ پر بننے والی ایسی ہی ایک ویران بستی کے آثار پنڈی سے لاہور جاتے ہوئے جہلم میں جی ٹی روڈ کے نزدیک آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔اس لائن میں تیسری حکومت پرویز مشرف کی آتی ہے جو ساڑھے نوسال تک چلتی رہی ۔اس عرصے میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنا ‘قائد اعظم کے نام پر مسلم لیگ کی تین نئی قسطیں چل گئیں‘بار بار ہائوسنگ پراجیکٹس کے افتتاح ہوئے‘ لیکن نچلے طبقات‘محنت کشوں اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی آبادی کے لیے گھر کا خواب پورا نہ ہو سکا۔اسی دوران خوابوں کا ایک شہزادہ لوہے کا ارادہ لے کر تیسری بار اقتدار کی کرسی تک پہنچ گیا۔مسلم لیگ (ن )کی حکومت کے آخری دور میں تین دفعہ نواز شریف کی جانب سے سستی ہائوسنگ کے خواب دکھائے گئے‘ وہ بھی سرکاری خرچے والی مہنگی تشہیر کے ذریعے‘مگر خواب خواب نہ رہا بلکہ غریبوں کے لیے سراب بن گیا۔
پاکستان میں ہائوسنگ کے شعبے کی سرکاری تاریخ دہرانے کا مقصد وہ اصل وجہ تلاش کرنا تھا جس نے کبھی عام آدمی کے ہاتھ میں اپنے گھر کی چابی نہیں پہنچنے دی۔ وجہ یہ ہے کہ ہائوسنگ کے شعبے میں کبھی کوئی Sustainable منصوبہ بندی نہ ہوپائی؛ تاہم پی ٹی آئی نے ہائوسنگ کے شعبے کو وعدوں تک نہیں رہنے دیابلکہ ہائوسنگ اور کنسٹرکشن پر تین اہم ترین اقدامات کر دکھائے‘ اس طرح کے عملی اقدامات پہلے کے کسی دور میں نہ ہوسکے۔مثال کے طور پر:
پہلا قدم:کنسٹرکشن اور پبلک ہاؤسنگ کو سرکاری طور پر باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ دے دیا گیا۔ایک ایسا شعبہ جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ 40 سے 45 دیگر شعبے بھی اس شعبے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
دوسرا قدم: ہائوسنگ اور کنسٹرکشن کے شعبے کے لیے اِیز آف بزنس پر دو سال سے کام ہوتا رہا ۔ماہرین نے جو کہا‘ اس پر عمران خان صاحب نے ذاتی طور پر عمل در آمد کر وایا تاکہ سرخ فیتہ اور کرپشن کے عادی ادارے کنسٹرکشن انڈسٹری کے راستے میں روڑے اٹکانے کی بجائے کاروبار میں آسانیاں پیدا کریں۔
تیسرا قدم:بینکوں کے بہت بڑے کنسورشیم کے ذریعے گھر بنانے کے لیے سبسڈی اور بہت کم سُود پر قر ضے دینے کے لیے نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم قائم کردی گئی۔اس پالیسی کا پہلا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے‘ جس پر دنیا نیوز گروپ کے سینئر ایڈیٹر اور معروف اینکر کامران خان نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ان کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی ذاتی توجہ اور رہنمائی میں کیپٹل آف دی نیشن کے ترقیاتی ادارے نے ایک نیا کمرشل ایریا آکشن کیا۔کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسلام آباد 1961میں قائم ہوئی تھی ‘تب سے سال 2020تک اس قومی ادارے نے کبھی بھی صرف تین دن کے اندر اندرسالہا سال کی نیلامیوں میں 17.4ارب کی آمدن نہیں حاصل کی‘جو کامران خان کے بقول محض تین دن میں ہوگیا وہ صحیح معنوں میں کمال ہے اور ملک میں مایوسیاں پھیلانے والوں کی کھلی شکست بھی۔یہ حکومت کی جانب سے کنسٹرکشن انڈسٹری کو دیئے گئے تاریخ کے سب سے بڑے پیکیج کا صرف ایک نتیجہ ہے‘ جواس بات کا ثبوت ہے کہ کووڈ19اور ٹڈی دَل کے حملوں جیسے مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا ہو رہا ہے۔ دوسری جانب جو اندھیرے فروش پاکستان کی یوتھ اور عوام کو ملک کے مستقبل کے بارے میں ڈرائونے منظرنامے پیش کر تے آئے ہیں ان کے مُنہ مایوسی سے لٹک گئے ہیں۔ 
آیئے! اب چلتے ہیں وزیر اعظم عمران خان کے اعلان کردہ قومی تعمیراتی پراجیکٹ کی طرف‘جس پر عمل در آمد شروع ہونے کے بعد ملک کے عام شہری کے لیے یا عام طبقات کے لیے اپنا ذاتی گھر تعمیر کرنے کا خواب‘ہر گز سراب نہیں رہے گا۔وفاقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نئی بلندیوں کی جانب چل رہی ہے ۔فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (FDI)میں اضافہ ہوا ہے ‘اسی لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کے حق میں بول اُٹھے ہیں۔ان بڑے اداروں کے جاری کردہ بیانات کے مطابق عمران خان کے ویژن والے نئے پاکستان میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باوجود اکانومی کا ''ٹرن ارائونڈ‘‘ شروع ہو چکا ہے۔اس سلسلے کی ایک مثال یہ کہ جون کے مہینے میں صرف سیمنٹ سیکٹر کی فروخت کے اعدادوشمار سے دیکھ لینا کافی رہے گاجن میں بھرپور اور متاثر کُن تیزی ریکارڈ پر آئی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی معیشت میں میگا کنسٹرکشن انڈسٹری تیزی سے سر گرم ہو چکی ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت عام لوگوں کے لیے افورڈایبل گھروں کی زمین بھی خود دے رہی ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے جس کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قانون لا کر نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی قائم ہوئی۔اس اتھارٹی کا مانیٹرنگ ہیڈ کوارٹر پرائم منسٹر کے سیکرٹریٹ میں ہے۔ معاشی سرگرمی کے اس سب سے بڑے کنٹرول روم کی نگرانی وزیر اعظم خود کر رہے ہیں۔ 
مزے کی بات یہ ہے کہ جن مافیاز کا اقتدار کے ایوانوں پرقبضہ 70سال تک جاری رہا‘ وہی سوال بھی پوچھتے ہیں کہ پونے دو سال میں سات عشروں کے سارے مسئلے ابھی تک کیوں حل نہیں ہوئے؟ان کے برانڈڈ لباس کاکپڑا دیکھ لیں اور لندن کے اونچے ریستورانوں میں ''روٹی‘‘ بھی اور مکان چار بر اعظموں میں پھیلے ہوئے پانچ نسلوں کے لیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں