"ABA" (space) message & send to 7575

مالی سلامتی سے قومی سلامتی تک

دنیا کے کسی دوسرے ملک کے بارے میں تو پتہ نہیں، جہاں ایسے چار نعرے مقبول ہوں۔
پہلا نعرہ یہ کہ وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ دو نمبر نعرہ یوں کہ میرے بینک اکائونٹس میں میری جائز آمدنی سے اربوں روپے زیادہ آ گئے ہیں۔ یہ اربوں روپے کہاں سے آئے، تمہیں اس سے کیا تکلیف ہوئی ہے۔ تیسرا نعرہ ہے: پاکستان اور احتساب کا ادارہ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ اور چوتھا نعرہ یہ کہ کاروبار تو چلتا ہی صرف اور صرف بے نامی اکائونٹس پر ہے۔
بے نامی اردو زبان کی ایک اصطلاح ہے۔ پاکستان میں چلنے والے اکنامک کرائمز کے قوانین نے بے نامی کے لفظ کو انگریزی میں بھی قبول کر لیا ہے۔ اب یہ حیرانی کی بات اس لئے نہیں کہ 19ویں صدی کے شروع میں لارڈ میکالے کے لکھے گئے قانونی مسودے کے تحت چلنے والے مقدمے اور ٹرائلز میں شام ویلہ، دیگر ویلہ جیسی اردو پنجابی کی مِکس اصطلاحوں کو بھی عدالتی فیصلوں میں استعمال کیا جانے لگا۔ اب آئیے اصل بات کی جانب جو یہ ہے کہ بے نامی کا مطلب ہے منی لانڈرنگ یعنی گندے طریقوں سے کمائے ہوئے پیسے کو کسی اور کے اکائونٹ میں دھو کر وائٹ منی میں تبدیل کر دینا‘ جس کو آسان لفظوں میں اس طرح سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ٹام کے اکائونٹ میں جیری کی وہ رقم جمع ہو گئی جو جیری نے غیر قانونی طریقے سے یعنی چوری ڈکیتی کے ذریعے پیدا کی، اور اُسے ٹام کے اکائونٹ میں ڈال کر لانڈر کر لیا۔ منی لانڈرنگ کسی بھی ملک، معاشرے اور قوم کے لئے کتنا بڑا سنگین جرم ہے اور کس قدر نقصان دہ ہے‘ اس تصور کو واضح کرنے کے لئے یہ چند باتیں سامنے رکھنا ہوں گی:
نمبر1: چوری کی بڑی بڑی رقمیں بینک کے کیش کائونٹر پر ڈاکہ مار کر حاصل نہیں کی جا سکتیں کیونکہ جدید دور میں سی سی ٹی وی، زوم ٹیکنالوجی اور ڈیپ گرافکس کے ذریعے نقاب پوش ڈاکو کو بھی فیشل کنٹورنگ آئی ڈی استعمال کر کے پہچانا جاسکتا ہے۔ پھر کیش کائونٹر اور بینک کے سٹرانگ رومز میں آج کل اینٹی تھیفٹ وارننگ الارمز اور سینسرز لگے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی بینکس کے ٹرانزیکشن کوڈز کے مطابق عام ضرورت سے زیادہ رقم نہ تو سٹرانگ روم میں رکھی ہوتی ہے اور نہ ہی کیش کائونٹرز پر دستیاب۔ اس لیے ہمارے جیسے بہت لمبے عرصے سے ترقی پذیر معاشروں میں بینک ڈکیتی کا سب سے موثر راستہ کرپٹ طرز حکمرانی کے اندر سے کُھلتا ہے۔ بینک کے اندر سے ہرگز نہیں۔ اس سلسلے میں صرف ایک عدد ''رپورٹڈ‘‘ مثال دیکھ لینا کافی رہے گا۔ اپنی حکمرانی کے دنوں میں کسی کرپٹ حکمران کے لیے فنانشل فرنٹ مین کے ذریعے ایک کمرشل بینک چارٹر کروا لیا گیا۔ پھر اسی بینک میں چار ہزار روپے سے فالودہ پاپڑ وغیرہ کا اکائونٹ کھولا گیا۔ پھر اسی بینک نے چار ہزار مقدس نوٹوں کے عوض چالیس ارب کا قرضہ دے ڈالا۔ پھر منی لانڈرنگ کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ قرضہ گھومتا پھرتا ہوا ایمیریٹس ہِل، یو اے ای، پارک لین یو کے اور پارک لین نیو یارک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
نمبر2: ایسی منی لانڈرنگ کو دنیا بھر کے ادارے سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان اداروں میں اقوام متحدہ کا Anti-Money Laundering International Database جو AMLID کہلاتا ہے، اور اقوام متحدہ کا The United Nations Convention against Transnational Organized Crime بھی شامل ہیں‘ جبکہ منی لانڈرنگ کے وبائی کینسر‘ جسے فوجداری قانون کی زبان میں COVID-420 بھی کہا جاسکتا ہے‘ The United Nations Convention against Corruptionn کی زد میں بھی آتا ہے‘ جس کی ویب سائٹ پر کرپشن کرنے والے حکمرانوں کی تصویریں تک چھپ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ کی ساری انٹرنیشنل وارداتیں ایسے اداروں کے پاس رپورٹ ہوتی رہتی ہیں‘ جن کے ذریعے عالمی برادری کو بھی پتہ چلتا رہتا ہے کہ کون سا ملک یا کون سا برّاعظم، کیپیٹل آف منی لانڈرنگ ہے یا پھر منی لانڈرنگ کیلئے سیف ہیون کا درجہ رکھتا ہے۔
پاکستان ایسی ہی بہت بڑی عالمی رُسوائی اور داغ دھبے لگنے کی زد میں ہے‘ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ داغ دھبے پاکستان کے امیج کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ اس کو بھی ہم قومی المیہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ داغ دھبے کسی کرائم سنڈیکیٹ کے غیر معروف مجرم کے ہاتھوں نہیں لگے بلکہ ایسی ہر واردات میں پاکستان کی اُس رولنگ ایلیٹ کا نام اور ان کے بیوی بچوں اور خاندان کا نام آتا ہے جو پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں مزے کرتے آئے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک بڑی واردات کو وزیر اعظم کی کابینہ اور ان کی قانونی ٹیم نے ناکام بنا دیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے تقریباً90 دن سے پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان قومی اسمبلی اور ہائوس آف فیڈریشن فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے قانون سازی میں مصروف تھے۔ اس قانون سازی کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں نے آفر کی کہ وہ قومی سلامتی کے قانون میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور ووٹ بھی دینا چاہتے ہیں۔ اس آفر کو حکومت نے ویلکم کہہ کر قبول کر لیا جس کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان متفقہ ایف اے ٹی ایف قانون سازی پر مذاکرات شروع ہو گئے۔ جاننے والے بتاتے ہیں کہ 23-24 بار حکومت اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی ملاقاتیں ہوتی رہیں‘ لیکن ان سب ملاقاتوں کے دوران اپوزیشن کے ایجنڈے پر سنگل آئٹم چھایا رہا اور وہ تھا کرپشن میں ملوث لوگوں کی جیلوں کے دروازے سے تالا کھولنا اور پھر اس تالے کو نیب کے دروازے پر پکا لگادینا۔ اپوزیشن اس بات پر بھی راضی تھی کہ نیب کے دروازے پر لگنے والے تالے کی چابی دریائے سوات میں پھینک دی جائے یا ان کے حوالے کر دی جائے۔ آل پارٹیز اپوزیشن کا تقاضا یہ بھی تھاکہ ان کے دو معصوم مطالبے تسلیم کر لیے جائیں۔
پہلا معصوم مطالبہ نیب کے آرڈیننس کے بارے میں تھا۔ اپوزیشن نے نیب آرڈیننس 1999 کے کل 38 میں سے 34 سیکشن جمہوریت کے حسن میں نہلا کر موہنجودڑو میں دفن کرنے کی تجویز پیش کی۔ دوسری تجویز کردہ ترمیم‘ جو اس وقت میرے رائٹنگ ٹیبل پر پڑی ہوئی ہے‘ کے مطابق نیب ایکٹ کا اطلاق سال 1999 کے بعد سے ہوگا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسا ہو جانے کے بعد سال 1999 سے پہلے کے جتنے بھی کرپشن سکینڈل، ریفرنس، اپیلیں یا مقدمات ہیں یا پھر انکوائری، انویسٹی گیشن اور کمپلینٹ ویریفکیشن ہے وہ سب مردہ خانے کے نیچے چلے جائیں گے۔ وہ بھی بغیر کسی پوسٹ مارٹم کے۔ یہ مطالبہ معصوم اس لیے بھی ہے 1999 سے پہلے جس نے جو محلات بنائے، بیویوں، بچوں، دامادوں، ڈرائیوروں،گارڈوں کے نام کئے‘ ان سب کا قانونی طور پر حلالہ ہو جائے گا۔ اس کی ایک مثال آپ کو بتاتا چلوں کہ شریف خاندان کا چودھری شوگر ملز کیس 1999 سے پہلے کا سکینڈل ہے۔ ظاہر ہے یہ سکینڈل نہیں رہے گا بلکہ خون پسینے کی کمائی سے بنایا ہوا مال بن جائے گا۔ وہ بھی ایک لائن کے ٹرپل این آر او پلس کے ذریعے۔ اب خود سوچ لیجئے کہ اس طرح کی جو بھی تجویز اپوزیشن کی طرف سے سامنے آئی وہ مالی سلامتی کیلئے ہے یا قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے۔
خواتین و حضرات اگر آپ حیران نہ ہونے کا وعدہ کریں تو میں آپ تک ایک اور ''شاک‘‘ پہنچانا چاہتا ہوں۔ ان معصوم مطالبات کا باوا یہ مطالبہ ہے کہ صدر، وزیر اعظم، سپیکر، اسمبلیز، سینیٹرز، ایم این ایز، ایم پی ایز اور ضلع کونسل کے چیئرمین پبلک آفس ہولڈر کی لسٹ سے نکال دیے جائیں گے۔ سرپرائز ابھی جاری ہے۔
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کروڑوں روپے کے خرچ سے سینیٹ تک پہنچنے والے قانون، مالی سلامتی کیلئے مسترد کیے یا قومی سلامتی کیلئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں