"ABA" (space) message & send to 7575

گورننس کی بحث

کنگڈَم، فیفڈَم یا پھر شیخڈَم اور شخصی حکمرانی؛ کسی بھی دوسرے ماڈل کی بات دوسری ہے‘ جہاں پر بڑے بڑے بل بورڈ‘ حکمرانوں کی تصاویر اور بڑے بڑے مجسمے یا ماڈلز لگا کر لوگوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ حاکم ''آئرن مین‘‘ ہے اور اس کا خاندان ''آئرن فیملی‘‘ لیکن دنیا کی کسی بھی آئینی جمہوریت میں وہ کچھ نہیں ہوسکتا جو جمہوریت کے نام پر ہمارے پیارے وطن میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تایا، باپ، چچا بھتیجا، پوتا، بھائی، بہنوئی، تین چار نسلیں، ساری کی ساری سیاست میں ہوں۔ اُن میں کوئی انجینئر، وکیل، ڈاکٹر، پروفیسر، پائلٹ، جرنلسٹ یا جرنیل نہ بن سکے۔ اس کے باوجود اُن لوگوں کا لائف سٹائل، نامعلوم وجوہ اور بے نامی ذرائع کے باعث مُغل اعظم، اشوکا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو شرما دینے والا ہو۔ 1947 سے پہلے برٹش انڈیا میں ایسے گروہوں نے 200 سالہ فرنگی راج کے دوران کام دکھانا شروع کردیا تھا۔ اسی کے نتیجے میں برٹش راج کی لاء ریفارمز میں تبدیلی کی دو بڑی علامتیں ظاہر ہوئیں۔ ان میں سے پہلی علامت Living beyond means کو قابل دست اندازیٔ پولیس جرم قرار دینا تھا‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی شخص اچھے مکان میں رہے، اس کے پاس اچھی ٹرانسپورٹ ہو، اُس کے بچے سات سمندر پار پڑھتے ہوں‘ وہ سال میں دو تین بار بیرون ملک سفر کرتا ہو۔ اس کے پاسپورٹ پر ہر سال نئے ملکوں کے ویزے لگتے چلے جاتے ہوں‘ لیکن نہ کسی کو اس کے سورس آف انکم کا پتہ ہو اور نہ وہ اتنی سی بات بتا سکے کہ اس کے پاس ایسی شاہی زندگی گزارنے کے لئے وسائل اور مال کہاں سے آیا؟ اس اکنامک کرائم کو قانو ی زبان میں معلوم وسائل سے زیادہ خرچے کرنے کا جرم بھی کہا جاتا ہے۔
تاجِ برطانیہ کے دور میں ہی پہلی مرتبہ پی سی اے ای کا ادارہ قائم ہوا جسے پریوینشن آف کرپشن ایکٹ، اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا گیا۔ 14اگست 1947 کے بعد اسی قانون اور ادارے کے تسلسل کے طور پر پی سی اے، مجریہ سال 1947 کا قانون پاکستان میں بھی لاگو ہوگیا‘ جس کے سیکشن 3 تا 5 واضح کرتے ہیں کہ کرپشن کی تعریف کیا ہے۔ وہی جو ہم پچھلے پیراگراف میں پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔ کرپشن کے اس کینسر پر قابو پانے کے لئے ہر ضلع میں اینٹی کرپشن کی عدالت قائم ہوئی۔ اس میں کرپٹ بیوروکریٹ، سرکاری اہلکار اور محکموں کے سربراہ یا پھر اُن کے ذریعے ناجائز کمائی کرنے والے پبلک آفس ہولڈرز بھی کٹہرے میں لائے جاتے رہے۔ بڑی حد تک فیئر اور فری اینٹی کرپشن کا یہ دور جنرل ضیاء صاحب کی آمد تک چلتا رہا۔ اگر پرنٹ میڈیا کے آرکائیوز نکال کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ 1947 سے 1977 تک جب کوئی کرپشن کا چھوٹا سا کیس بھی سامنے آجاتا‘ تو وہ اخباروں میں کالے حاشیے والی بڑی ہیڈلائن بن جاتا تھا جس پر کالم، ایڈیٹوریل اور مضمون بھی لکھے جاتے تھے۔
پھر ملوکیت کی طرح کی شخصی حکمرانی کا دور آیا۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے اینٹی سوشلزم کرائے کے گوریلے اکٹھے کیے گئے‘ جن کے ذریعے ایک آدمی کے اقتدار کو محفوظ کرنے کے لئے مذہب کا مقدس نام استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پھر کرپشن آرڈر آف دی ڈے بنتی چلی گئی۔ سیاست کی اس موسمیاتی تبدیلی کو آگے چلانے کے لئے سرکاری خرچ پر درباری نرسریاں بننا شروع ہو گئیں۔ اگر جنرل ضیاء صاحب کے بارے میں آرکائیو کی ریسرچ کریں تو آپ کو آج کے دور کے ان لوگوں کی حقیقت کا پتہ چل جائے گا‘ جن کی دو تین نسلیں اینٹی منی لانڈرنگ، کک بیکس، کمیشن اور بغیر کسی کام یا پیشے کے اربوں کمانے کے مقدمات بھگت رہی ہیں۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ ایسے ہر سیاسی مافیا کی سیاست کس دور میں کس وجہ سے شروع ہوئی تھی اور کس کی سرپرستی میں۔ آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ اُس وقت اُن کے گھر اور رہائش گاہیں کن کن گلیوں اور کیسے کیسے محلّوں میں تھیں۔ ساتھ یہ بھی پتہ چل جائے گاکہ ان کی ڈریم ڈرائیونگ کارز، کالی مورس، نیلی اوپل اور پرانے زمانے کی سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ان مافیاز نے وائٹ کالر کرائمز اور بے نامی اثاثوں کے ذریعے بہت سا مال تو جمع کرلیا لیکن اُن سے قدرت نے انتقام یہ لیاکہ اُن کے بچے اور نسلیں ظاہری طور پر پڑھنے لکھنے کے باوجود اصل میں نیم خواندہ قسم کی انگریزی سیکھنے سے آگے اپنا تعلیمی سفر نہ جاری رکھ سکیں۔
یہ تھی پاکستان میں گورننس کی ابتدائی تاریخ جو 12اپریل 1973 کے دن آئین پاکستان نافذ ہونے کے بعد لکھی گئی۔ اب آئیے گورننس کے اس دور کی طرف جس کا آغاز 25جولائی 2018 کے الیکشن کے بعد ہوتا ہے‘ جس کے نتیجے میں جناب عمران خان نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم، چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے 18اگست 2018 کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا۔ 20اگست 2018 کو عثمان بزدار ایڈووکیٹ نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا‘ اور محمود خان نے 17اگست 2018 کو کے پی‘ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اُٹھایا تھا۔ یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ پی پی پی کے چیف منسٹرز نے 1970، 1977، 1988، 1993، 2008، 2013 کے بعد 2018 میں ساتویں بار صوبہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا مگر گورننس کی بحث کی ساری سپاٹ لائٹ صرف پی ٹی آئی کی حکومت، وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر فکس ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ بحث تین بڑے نکات کے گرد کولہو کے بیل کی طرح پچھلے دو سالوں سے مسلسل گھمائی جا رہی ہے۔
پہلا بڑا نکتہ یہ ہے کہ کیا عثمان بزدار پنجاب کو چلا سکتے ہیں؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ پچھلے دو سالوں سے پنجاب پی ٹی آئی کا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی چلا رہا ہے۔ اگر پنجاب چلانے کا مطلب یہ ہے کہ بڑا بھائی پنجاب کا بڑا صوبیدار‘ چھوٹا بھائی صوبیدار نمبر2‘ اور بیٹا ڈپٹی صوبیدار ہے‘ تینوں سی ایم پنجاب کے ہیلی کاپٹر میں اُڑتے پھرتے ہیں‘ وزیر اعلیٰ کے لئے فیشن ریمپ والے ہیٹ پہننا‘ جلسوں میں بھٹو صاحب کی نقل کرتے ہوئے مائیک گرانا اور کبھی اپنے سر پہ مارنا‘ زچہ بچہ سینٹر، پبلک ٹوائلٹ اور ڈینگی کے مچھر کے ساتھ اپنی تصویر چھاپنا‘ تو پھر پنجاب لازماً نہیں چل رہا۔ اگر پنجاب پولیس کی نگرانی میں سی ایم ہائوس سے کیش بوائز منی لانڈرنگ نہیں کر رہے‘ دو سال میں دو تو کیا ایک بھی سانحہ ماڈل ٹائون نہیں ہوا‘ آئی جی پنجاب کو خدمت کرکے مخالف کی زبان کاٹنے سندھ کسی نے نہیں بھجوایا‘ نہ ہی واپسی پر اسے پھر سے سوپر آئی جی پنجاب بنایا‘ اور نہ ہی اسے ان خاندانی خدمات کے بعد سینیٹر بنوایا‘ تو پھر پنجاب نہیں بالکل بھی نہیں چل رہا۔ اب لاہور کے باغوں اور پٹرول پمپوں کی نگرانی کے لئے کچھ لوگوں کی خدمات سے بھی حکومت محروم ہو چکی ہے۔ خود سوچ لیں جو اس وقت نہیں چل رہا کیا وہ پنجاب ہے یاکچھ اور؟
دوسرا نکتہ ہے وزیر اعظم سے ڈکٹیشن لینا۔
تیسرا نکتہ یہ کہ تبدیلی اور ریفارمز کی رفتار سست کیوں ہے؟
بات صاف ہے کہ فرق صاف ظاہر ہے۔ گزرے ہوئے چار عشروں میں جن اداروں کے پبلک سرونٹس سے پرسنل کیش کیریئر والا کام لیا گیا وہ ریفارمز مکمل کرنے کے لئے ابھی تین سال عمران خان کے پاس ہیں۔ جہاں ریفارمز ہو چکیں اُن پر علیحدہ سے لکھنا اچھا رہے گا۔
گورننس کی بحث 24 مہینے پر بھی، اور گزرے 72 سالوں پر ضرور ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں