"ABA" (space) message & send to 7575

ٹیوشن پارٹ 2

واردات سیاسی ہو یا معاشی، واردات، واردات ہوتی ہے جس کے پیچھے چھپی ہوئی 2 چیزیں واردا ت کے بیک گرائونڈ تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔ ان میں سے پہلے کو کریمنل جسٹس سسٹم میں مینز ریا (Mens rea)، یعنی جرم کی نیت، وجہ عناد اور دشمنی، جبکہ دوسرے کو بینیفشری یعنی اس واردات سے فائدہ اُٹھانے والا کہا جاتا ہے۔
پاکستان پچھلے 30 سال سے اس طرح کی وارداتوں کا سامنا کرتا چلا آرہا ہے۔
آئیے ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ چند سال پہلے کراچی میں قانون اور انصاف کو مطلوب ایک صاحب لندن میں بیٹھ کر گھنٹوں لمبے لمبے لیکچر دیا کرتے تھے۔ 3 نکات آج بھی سب کو یاد ہیں۔ پہلا نکتہ ہے، پاکستان کے قومی اداروں پر زبانی اور ہوائی حملے۔ دوسرے حصے میں اُن کے بغیر جمہوریت نا مکمل ہے؛ اور تیسرے حصے میں لوگوں کو ملک کے مستقبل سے مایوس کرنے کی پر خلوص کوشش ہوتی تھی۔ اس سلسلہ فراریہ کی ہر تقریر کا ایکسٹرو ہمیشہ یہ ہوتا، کہ ملک کے سارے مسئلے وہی جانتے ہیں‘ کسی اور کو کَکھ پتہ نہیں‘ اس لئے قانون اور انصاف کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُنہیں واپس لایا جائے۔ وہ بھی چِلی کے مفرور Augusto Pinochet کی طرح سے نہیں بلکہ شاہی پروٹوکول کے ساتھ۔ ایسے جیسے وائسرائے ہند اپنے مفتوحہ علاقوں کے دورے پر آیا کرتے تھے۔
کراچی سمیت پورے ملک کے لوگوں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر اور لاہور ہائی کورٹ کا بے شمار شکریہ ادا کیا جب اُنہیں اِن یک طرفہ، زبردستی کان کے پردے پھاڑ دینے والی تقریروں سے نجات ملی۔ پچھلے ہفتے پاکستانیوں کو ایک بار پھر لندنی خطاب سے نوازا گیا۔ لندنی خطاب کے ذریعے عدالتوں کے مفرور لندن میں بیٹھ کر ملک کے غریب عوام کو جمہوریت اور بہادری کا ٹیوشن پڑھا رہے تھے۔ یہ ویسا ہی جادو اثر ٹیوشن تھا جیسا کبھی کراچی والا ہوتا تھا۔ ایسا جادو جس کا منتر پڑھنے والا کبھی پاک سرزمین پر قدم رکھنے کی سعادت حاصل نہیں کر سکتا‘ ہاں البتہ بھارت میں اس تقریر کو خوب سرکاری سرپرستی مل رہی ہے، ویسے ہی جیسے پچھلے والے کی تقریروں کو ملا کرتی تھی۔ نئے کمیونیکیشن ٹولز آنے کے بعد اب پورا پاکستان جانتا ہے کہ بھارت میں پذیرائی حاصل کرنے کے لیے صرف دو طرح کے بیانیے پر مشتمل بات ہو تو تب ہی بات بنتی ہے۔ ان میں سے پہلا پاکستان کی سلامتی اور اتحاد کے ضامن اداروں پر حملہ ہوتا ہے اور دوسرا تقسیم ہند کو 'واہگہ کی لکیر ایویں سی‘ کہنے والی تقریر۔
ہمارے عدالتی مفرور 3 مرتبہ کے سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف نے تین بڑے پتے کی باتیں پاکستانیوں کو بتائی ہیں۔
پہلی: یہ کہ پاکستان میں کچھ پرائم منسٹرز کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا‘ جو بڑی زیادتی کی بات تھی۔ اس سے کئی سپلیمنٹری سوال پیدا ہوئے ہیں۔ یہ سوال 100 فیصد خالص تاریخی سوال ہیں۔ پاکستان کی جدید تاریخ کے چلتے پھرتے ثبوت اور یہ کوئی کائونٹر بیانیے والے سیاسی بیان ہرگز نہیں ہیں۔ نواز شریف صاحب کی سیاست جنرل ضیا صاحب کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے جن کے دور میں ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم جناب ذُوالفقار علی بھٹو کو غیر آئینی طریقے سے ہٹایا گیا۔ کیا نواز شریف صاحب یہ بتانا پسند کریں گے کہ اس غیر قانونی اِقدام کے وقت وہ کہاں کھڑے تھے؟ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ، یا جنرل ضیاالحق صاحب کی سیاسی گود میں؟ نواز شریف صاحب چونکہ مکمل طور پر نظریاتی، لبرل، انقلابی لیڈر ہیں، اس لیے وہ اپنے ٹویٹر اور فیس بُک اکائونٹ پر زور زبردستی سے ہٹائے جانے والے پہلے وزیر اعظم کی جدوجہد کے دور کی پہلی تصویریں ضرور شیئر کر دیں تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ آپ کے نظریات، لبرل اِزم اور انقلاب کی اصلی تاریخ کیا ہے۔
دوسری بات جو نواز شریف صاحب نے قوم کو بتائی، یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست دانوں کے ساتھ نہیں ملنا چاہیے۔ اُس کی وجہ یہ بتائی کہ جرنیلوں کے ساتھ ملاقات (ن) کے طرزِ جمہوریت کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ موصوف نے وہ سارا کچھ کہا جو ہندوستان ٹائمز سے لے کر این ڈی ٹی وی تک پورے بھارت میں بار بار دُہرایا جا رہا ہے۔ اس طرح نواز شریف صاحب نے بڑی کامیابی کے ساتھ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کے اندر یقینا اپنی لابی مضبوط کرلی ہو گی‘ لیکن اپنے ہاں انہوں نے اے پی سی کا دھڑن تختہ کرکے رکھ دیا۔ ان کے بیان کے 2 نتائج فوری طور پر سامنے آ گئے۔ پہلا حیران کُن نتیجہ نکلا تو قوم کو پتہ چلا، اس تقریر سے چند دن پہلے پی ایم ایل این کے مرکزی لیڈرز آرمی چیف سے ڈی جی انٹیلی جنس کی موجودگی میں ملاقات کر چکے ہیں۔ اس پر نواز شریف صاحب کی صاحب زادی مریم صاحبہ نے یو ٹرن لینے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں اگلا دھماکا بھی ہو گیا۔ اس دھماکے کو سوشل میڈیا نے ترمیم شدہ نئے اردو محاورے میں یوں بیان کیا ہے۔ 100 لوہار کی، ایک ISPR کی۔ پتہ چلا، نواز شریف کے دستِ راست سابق گورنر سندھ محمد زبیر عمر، اسلام آباد آکر بڑے دروازے پر ڈبل حاضری لگوا کر آئے ہیں۔ اس راز سے بھی پردہ اُٹھا دیا گیا ہے کہ وہاں نواز شریف کے قریبی ساتھی کیا عرضیاں اور پرچیاں لے کر آئے تھے۔ پہلی عرضی یہ کہ نواز شریف کوریلیف ملے اور دوسری کے مطابق نواز شریف صاحب کی بیٹی کو ریلیف دیا جائے۔ آئی ایس پی آر کا موقف بہت مضبوط اور سنجیدہ ہے، جس کے دو اہم نکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ سیاسی مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ کے فورَم سے رُجوع کریں۔ دوسرے نکتے کے مطابق، پاک فوج نے اپنے منصب کا موقف پھر واضح کیا کہ سیاست کی طرح عدالتی کارروائیوں سے بھی فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اِن مقدمات میں کسی بھی ریلیف کے لیے ملک کی معزز عدالتیں موجود ہیں۔ ان میں کوئی بھی شخص پیش ہو سکتا ہے۔
تیسری بات: تین مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے سے گرنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے قوم کو تیسری بات یہ بتائی کہ وہ ابھی قوم کی مزید خدمت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کے اثاثے، قطر کی انویسٹمنٹ، یو اے ای والی بزرگوں کی کمائی، ایمیرٹس ہِلز، مے فیئر، پارک لین والی خدمت سے نواز شریف صاحب ابھی مطمئن نہیں ہوئے یا ان کی تین چار نسلیں ابھی مطمئن نہیں ہو سکیں۔ اس لیے وہ قوم کی مزید خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ 
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
لندن پارٹ 2 کا ٹیوشن ابھی جاری تھاکہ ایکشن شروع ہو گیا۔ پہلے منظر میں بھتیجی نے چچا کو بس کے سامنے دھکا دیا۔ دوسری بار پردہ اُٹھا تو چچا نے بھتیجی کے کارِ خاص کو ڈبل ڈیکر کے آگے دے مارا۔ 
لندن ٹیوشن پارٹ 2 کے اثرات 12 بور کی خطرناک شاٹ گن کی طرح نکلے‘ جو کارتوس باہر نکالنے کے بجائے نالی پھاڑ کر چھرّے پھیلا دیتی ہے۔ جو بیچارے اِدھر اُدھر چھپ چھاپ گئے ہیں، وہ حق پر ہیں کیونکہ جان بچانا آدمی کا پہلا حق ہے۔ باقی رہی جمہوریت، تو اُسے مضبوط کرنے کے لیے مفروروں کو پہلے گھر آنا پڑے گا۔ آپ سے کیا پردہ، ابھی تک ایسی کوئی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہوئی جو دُور بیٹھ کر پرانی گاڑی کے خراب انجن کے پُرزے جوڑ سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں