"ABA" (space) message & send to 7575

پاکستان کا گھیراؤ، شیلا اور شریف

یہ دوسرا بڑا زلزلہ ہے، COVID-19 کے بعد۔ عالمی معیشتیں اس کا سکیل دیکھ کر ہل کر رہ گئی ہیں۔
پاکستان پہنچنے کے بعد یہی چند لفظ لکھے تھے کہ ٹی وی سکرینوں پر ہمارے آج کے موضوع سے تعلق رکھنے والی وارداتوں میں سے ایک بڑی واردات کی عدالتی کارروائی رپورٹ ہونا شروع ہوگئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس جناب عامر فاروق اور جناب جسٹس محسن اختر کیانی نے عدالتی مفرور، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کی رپورٹ پوچھی۔ ایک لا آفیسر نے فاضل ڈویژن بینچ کو بتایا کہ لندن ایون فیلڈ اپارٹمنٹس (اس کی ملکیت نہ نواز شریف مانتے ہیں، نہ حسن نواز، نہ حسین نواز، نہ مریم نواز اور نہ ہی کوئی اور شریف) پر لندن میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کا نمائندہ دو مرتبہ عدالتی وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے پہنچا۔ پاکستانی ہائی کمیشن کے آفیسر رائو عبدالحنان، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس گئے جہاں موجود شخص ایڈی نے وارنٹ لینے سے انکار کردیا جبکہ شریفوں میں سے کوئی شریف بھی اپنے وطن کے ہائی کمیشن کے افسر سے ملنے کو تیار نہ ہوا۔ اے پی جی نے عدالت کی توجہ اس طرف دلائی کہ نواز شریف کو ان کے وکیل نے بھی عدالتی آرڈر سے آگاہ کررکھا ہے۔ نواز شریف اور ان کی فیملی نے موقف اپنایا کہ وہ پاکستانی عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند نہیں۔ کارروائی کے اس مرحلے پر جناب جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اس ساری ایکسرسائز کا مقصد یہ ہے کل ملزم آئے تو یہ نہ کہے کہ اسے معلوم نہ تھا۔ فاضل جسٹس صاحب نے بڑی دردمندی سے یہ بھی فرمایا کہ ملزم کو پتہ ہے‘ وہ سارے سسٹم کو شکست دے کر باہر گیا ہے۔ وہ وہاں بیٹھ کر پاکستان کے سسٹم پر ہنس رہا ہوگا۔ یہ نہایت شرمناک بات ہے۔ اس معاملے پر عدالت فیصلہ دے گی۔
ہائیکورٹ کے فاضل ڈویژن بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کل نواز شریف واپس آکر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے وارنٹ گرفتاری کا علم نہیں۔ وہ کل یہ موقف اختیار نہیں کر سکتے کہ مجھے موقع نہیں دیا گیا۔ ان کا ملک سے باہر جانا پورے نظام کی تضحیک ہے۔ فاضل عدالت نے وفاقی حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئندہ وفاقی حکومت کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے کسی فرد کو باہر جانے دینا ہے یا نہیں؟ جتنا وقت ایک مجرم کو وارنٹ پہنچانے میں لگ رہا ہے، اس وقت میں کئی سائلین کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ عدالت، حکومت، دفتر خارجہ مل کر ایک وارنٹ کی تعمیل کروا رہے ہیں۔ عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت کینسل کرنے کی درخواست، سماعت کے لیے منظور کر لی، اور 7 اکتوبر تک جواب طلب کر لیا۔ 
اس وقت غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو جس عالمی جنگ کا سامنا ہے‘ وہ ہے منی لانڈرنگ فنانشل کرائم کے بھگوڑوں کا پیچھا کرنا اور نظامِ سرمایہ داری کے ان گماشتوں سے ہاتھا پائی کرنا جو منی لانڈرنگ کے مجرموں کے آگے کھڑے ہوکر ان کو بچاتے ہیں۔
اب آیئے دوسرے بڑے زلزلے کی جانب، جو اصل میں فنانشل کرائمز کا دوسرا بڑا لیکس وینچر ہے۔ بین البرّاعظمی فنانشنل کریمنلز کی دنیا میں تہلکہ مچانے والی لیکس کی تاریخ سال 2014 میں شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کرائم پروسیڈ اور منی لانڈرنگ، آف شور کمپنیوں کے کالے پردے میں بند ہوتے رہے۔ پہلی لیکس کو Luxe لیکس کا نام دیا گیا جس کے ذریعے بلیک منی کو وائٹ کرنے والے کالے چہرے بے نقاب ہوئے۔ اس کے بعد صرف ایک سال کے اندر اندر 2015 میں Swissera لیکس آگئے۔ سوئس لیکس نے ٹیکس چوری کی جنت کے نیچے سے پروٹیکشن کا قالین کھینچ لیا۔ سوئس بینک، جو کبھی بلیک منی کے لیے بلیک واٹر سے زیادہ تگڑا قلعہ سمجھا جاتا تھا‘ وہیں پر سوئس لیکس نے ایسے ہزاروں اکائونٹس 2015 میں بند کرا دیے، جو 18ویں صدی کے آخر سے غریب ملکوں کی دولت وہاں پہنچانے اور چھپانے والے انٹرنیشنل چوروں کی وجہ سے آباد تھے۔
لیکس کی دنیا میں صرف 2016 کا وقفہ آیا، اور پھر 2017 میں مشہورِ عالم پانامہ پیپرز پوری دنیا کے سامنے آگئے۔ ان پانامہ پیپرز کے ذریعے دنیا کے کئی حکمرانوں کو منی لانڈرنگ کے زور پر کھڑی کی گئی پاور پالیٹکس کے سیاسی ایمپائر اور اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑگئے‘ جن میں عجیب اتفاق یہ ہواکہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون صاحب اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف صاحب‘ دونوں ہی اقتدار سے بے دخل ہوگئے۔ اسے بھی آپ حسین اتفاق کی تنظیم سازی کہہ سکتے ہیں کہ آج کل جناب ڈیوڈ کیمرون اور جناب نواز شریف گریٹ برٹن کے ایک ہی شہر گریٹر لنڈن میں ایک دوسرے سے تھوڑے ہی فاصلے پر اپنے لوگوں سے چھپ چھپا کر رہ رہے ہیں۔ لوگوں کا پانامہ والا غصہ ہے کہ اترنے میں ہی نہیں آرہا۔
اسی غصے سے بچنے کے لیے نواز شریف یو کے میں 4 غیر ملکی ایمبیسیز کے چکر لگاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
صرف تین دن پہلے ہم لنکنز اِن سے نکل کر چانسری لین پر جارہے تھے کہ ایک بیرسٹر صاحب کے عزیز، جو لندن میں پاکستانی صحافی ہیں، آگئے۔ بتانے لگے کہ پاکستانی صحافی شریف خاندان کا ایسے ہی پیچھا کرتے ہیں، جیسے فرانس کے پاپا رازی لیڈی ڈیانا کا پیچھا کرتے تھے۔ اس پر سب ہنسنے لگے اور پھر انہوں نے شریف اِن ایمبیسیز والی تفصیل بتائی۔ اُنہی میں سے کسی اجنبی ملک کے کسی سرپرست کے کہنے پر نواز شریف صاحب پاکستان کے عالمی گھیرائو کی مہم پر نکل پڑے ہیں۔ اس مہم کے تین سٹریٹیجک مقاصد ہیں۔ پہلا یہ کہ چور چور کے شور سے جان چھڑانے کے لیے باغی ہونے کی ایکٹنگ کرنا۔ دوسرا، پاکستان کی فوج، عدالتوں، پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں اور انصاف کے ایوانوں کو دنیا بھر میں بدنام کرنا، اور تیسرا پاکستان کے گھیرائو سے چوری کا مال بچانے کے لئے چوتھا این آر او نکالنا ۔ سیانے کہہ گئے ہیں: چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے۔
دوسرے بڑے زلزلے کو FinCEN لیکس کہا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کنسورشیم آف جرنلسٹس نے بہت باریک بینی سے لیکس پڑھے اور بتایا، ان میں 18 سال کی مدت میں 2 ٹریلین ڈالرز کی مشکوک ٹرانزیکشنز کی معلومات ہیں۔ یو ایس ٹریژری کی شاخ، مشکوک ٹرانزیکشنز کو سامنے لائی، جس کا نام ہے SAR۔ مشکوک لین دین کا انڈین حصہ پاکستان سے 400 گُنا زیادہ ہے‘ لیکن FATF انڈیا کے نام پر سو رہی ہے۔
یہ ہیں پاکستان کے تاجر وزیر اعظم جن کا پورا ٹبّر مقروض ہے۔ اب آئیے اپنے پہلے درویش وزیر اعظم لیاقت علی صاحب کی بیوی شیلا آئیرین پانٹ کی طرف جو 1931 میں اکنامکس کی پروفیسر تھیں۔ اگلے سال اسلام قبول کیا اور بیگم رعنا لیاقت علی ہو گئیں۔ جب بیگم رعنا ہالینڈ میں سفیر بنیں تو ڈچ ملکہ سے ان کی دوستی ہوئی۔ ایک دن شطرنج کھیلتے ہوئے ملکہ نے شرط لگائی کہ اگر وہ بازی ہار گئیں تو ایک محل بیگم رعنا کے نام کر دیں گی۔ قسمت نے ملکہ کو ہرا دیا۔جب بیگم رعنا نے سفارت کاری چھوڑی، تو انہوں نے وہی محل پاکستانی سفارت خانے کو گفٹ کر دیا۔ آج بھی پاکستان کا سفارت خانہ اُسی محل میں ہے۔ قسمت نے پاکستان کو دونوں انتہائیں دکھا دیں۔
غرورِ جاں کو مرے یار بیچ دیتے ہیں
قبا کی حرص میں دستار بیچ دیتے ہیں
یہ لوگ کیا ہیں کہ دو چار خواہشوں کے لئے
تمام عمر کا پِندار بیچ دیتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں