"ABA" (space) message & send to 7575

چیف جسٹس صاحب کی درد مندی

یہ سن کر جمہوریت کی ماں کے بھی آنسو نکل آئے ہوں گے‘ جسے ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی کہلانے پر بڑا ناز تھا۔ لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کے لئے۔ پاکستان کے ذہین بزنس مین حکمرانوں نے یوکے کی اس جمہوریت کا دیسی تاج پہن لیا۔ یہ تاج پوشی اس طرح سے ہوئی کہ اس سے ویسٹ منسٹر برانڈ جمہوریت کی تاریخ بھی بدل کر رکھ دی گئی، تعریف بھی بلکہ وَرشن بھی۔ کوئی ہلکا پُھلکا نہیں، بلکہ یہ انتہائی باریک اور سمارٹ کام تھا۔ اس تعریفِ جمہوریت میں صرف دو لفظوں کا اضافہ ہوا۔ پہلا لفظ ہے ''چند‘‘ اور دوسرے لفظ کا نام ہے ''خاندان‘‘ چنانچہ آج کی بزنس برانڈ جمہوریت کے حُسن کی تعریف یہ بنتی ہے! چند خاندانوں کی حکومت، چند لوگوں کے ذریعے، چند خاندانوں کے لئے۔ اس طرزِ جمہوریت کی وجہ سے دو عدد کام اس وقت کسی دوسرے ملک میں نہیں ہو رہے، جن کی یہاں اپنے ہاں انتہا کی جا رہی ہے۔ آئیے! ان دونوں کاموں کی ہلکی سی جھلک دیکھ لیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب گلزار احمد صاحب نے قوم اور وکیلوں کی توجہ بہت درد مندی سے اس طرف دلائی ہے۔
پہلا کام: پاکستان کی سب سے بڑی آئینی عدالت کی کریڈیبلٹی اور وقار کو داغ دار کرنے کی مہم آتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہر عدالتی فیصلے پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ گُڈ فیتھ میں بول کر ایسا اعتراض کیا جا سکتا ہے اور جوڈیشل پراسیس میں لکھ کر بھی ایسا اعتراض عدالتی طور پر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ مثال کے طور پر سوِل جج کلاس 3 کا فیصلہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے پاس چیلنج ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے فیصلے کی آئینی سُپرنٹینڈنٹس، ملک کی 5 ہائی کورٹس کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے آئین کے آرٹیکل 175 کے ذریعے ملک کا سارا عدالتی نظام قائم کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 175کہتا ہے:
''پاکستان کی ایک عدالتِ عظمیٰ، اور ہر صوبے کے لئے ایک عدالتِ عالیہ (اور دارالحکومت اسلام آباد کے لئے ایک عدالت عالیہ) اور ایسی دوسری عدالتیں ہوں گی جو قانون کے ذریعے قائم کی جائیں گی‘‘۔
اس آئینی آرٹیکل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عدالتی نظام ایک اہم سٹیٹ آرگن ہے جس کی ہر طرح سے آزادی قائم رکھنا، ایگزیکٹیو سے زیادہ جوڈیشل اور لیگل ایریاز میں فرض ادا کرنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔
اسی تسلسل میں، 1973 کے آئین کے آرٹیکل189 کی رو سے ملک کی ساری عدالتوں کے لئے کسی بھی اصولِ قانون پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ غالب رہے گا۔
ملاحظہ ہو آئین کا آرٹیکل 189: ''عدالت عظمیٰ کا کوئی فیصلہ، جس حد تک کہ اس میں کسی امر قانونی کا تصفیہ کیا گیا ہو‘ یا وہ کسی اصول قانون پر مبنی ہو، یا اس کی وضاحت کرتا ہو، پاکستان میں تمام دوسری عدالتوں کے لئے واجب التعمیل ہو گا‘‘۔
اسی اہم اور آئینی بات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان، محترم جناب گلزار احمد صاحب نے وکیلوں کی محفل میں کُھل کر کیا۔ دو دن پہلے پاکستان کے چیف جسٹس، جناب جسٹس گلزار احمد سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں تشریف لے گئے‘ اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے جو تقریر کی اس کے اہم نکات کا خلاصہ یہ ہے:
نکتہ نمبر1: ججز کے فیصلوں کو طاقت اور کمزوری سے نہ جوڑا جائے۔ ایسا تاثر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے بارے میں بنانا ہرگز مناسب نہیں ہو گا۔ اس طرح کا تاثر کسی طرح سے نہیں بننا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا سپریم کورٹ کی توہین ہے۔
نکتہ نمبر2: چیف جسٹس صاحب نے بار کے لیڈرز سے کُھل کرکہا کہ وہ بینچ میں تقسیم کے بارے میں اس طرح کے بیان دینے سے گریز کریں۔ جناب چیف جسٹس کے خیال میں اس سے سپریم کورٹ کی ساکھ کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
نکتہ نمبر3: سپریم کورٹ کے ہر فاضل جج کی ججمنٹ صرف سپریم کورٹ کی ججمنٹ ہوتی ہے، اور کچھ نہیں۔ یہ بات اس لئے بھی درست طور پر کہی گئی ہے کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی نظیر کے طور پر لیگل بُکس میں پرنٹ ہوتا ہے، اور اسے وکیل مختلف عدالتوں میں اپنے موقف کے حق میں پیش کرتے ہیں‘ تو ایسے موقع پر ساری دنیا میں میجارٹی کی رائے کے ساتھ ساتھ مینارٹی کا فیصلہ بھی پیش کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات مینارٹی کا فیصلہ میجارٹی سے زیادہ متاثر کُن دلائل پر مبنی ہو سکتا ہے‘ اس لئے اس کی لیگل ویلیو اور فورس، سماعت کے دوران عدالت کی صوابدید کے مطابق کسی بھی فیصلے کی بنیاد بن سکتی ہے۔
نکتہ نمبر4: جناب چیف جسٹس صاحب نے آئینی طور پر سپریم عدالت میں دراڑ پیدا کرنے کے تاثر پہ بھی گفتگو کی۔
اس وقت پرنٹ،آلٹرنیٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے ملک میں دو بڑے سٹیٹ آرگن پر چاند ماری کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کا کراچی میں وکیلوں سے خطاب بروقت تھا، اور مناسب بھی، کیونکہ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان پر کئی حملے ہو چکے ہیں۔ ایک حملہ وہ تھا جب لوگوں کے جتھے لاہور سے اُٹھا کر لائے گئے، اور منتخب ایم این اے اور ایم پی ایز کی قیادت میں وہ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے۔ کورٹ رومز میں ججوں کی تختیاں توڑ ڈالیں اور مرحوم چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کی قیادت میں بینچ نمبرایککو فرض کی ادائیگی چھوڑ کر ریٹائرنگ روم میں جانے پر مجبور کردیا گیا۔ دوسرا حملہ، چند سال پہلے پنجاب ہائوس اسلام آباد سے شروع ہوا، اور سرکاری خرچ پر ''کیوں نکالا‘‘ کے عنوان سے لاہور تک چلتا گیا۔ ایک حملہ اور بھی تھا، جس میں دو سابق جج حضرات کا رول ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے‘ جن کے ذریعے انہوں نے سپریم کورٹ کی ایک عدالت کو دو عدالتوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اب آیئے دیکھتے ہیں دوسرا کام ...
جس کے ذریعے دو اہم ترین آئینی سٹیٹ آرگنز میں بغاوت انجیکٹ کرنے کی کوشش ہورہی ہے، وہ ہے نظامِ انصاف کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ریاست اور سرحدوں کا دفاعی نظام۔ کیا دنیا کا کوئی ایسا دوسرا ملک ہے، جہاں منتخب لوگ سرکاری عہدوں اور سرکاری خرچ پر اُٹھائے گئے حلف کو یوں بے توقیر کرسکیں۔ آئین کی بالادستی کے نام پر آئینی اداروں میں بغاوت اور دراڑ کی دعوت دے کر۔ ایسا صرف دو طرح کے آئوٹ لاز ہی کرسکتے ہیں۔ پہلے وہ جن کی آل، مال، کھال سات سمندر پار جمع ہوں، اور دوسرے وہ جو ''ہِز ماسٹرز وائس‘‘ پر بولنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
شورش کاشمیری نے بھی بڑی دردمندی سے یہی سوال اُٹھایا تھا:
تمہارے سینے میں دل تو ہو گا، جو ہو سکے تو اسی سے پوچھو
کہ تم نے جو قوم سے کِیا ہے! تم ہی کہو ناروا نہیں ہے
ہماری اولاد کے مصائب، تمہاری اولاد تک بھی پہنچیں
ہمارے ذیشان رہنمائو، یہ آرزو ہے، دُعا نہیں ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں