"ABA" (space) message & send to 7575

سلیکٹڈ کون؟

نہ چیخ، نہ چنگھاڑ، نہ ہی اووَر ایکٹنگ کی بھرمار۔ نہ بھاشن، نہ تقریر لیکن سوال ایسے، جن کے ذریعے باپ بیٹی کے بیانیہ کو دھان پان سی خاتون نے چیرپھاڑ کر رکھ دیا۔ اس سے پہلے اسلام آباد ریڈزون کی یاترا کرنے والے خواتین و حضرات انٹرویو کرتے رہے۔ ظاہر ہے، یہ ایسے انٹرویوز تھے جن کے لئے وقت طے کرنے سے پہلے سوال طے ہوتے ہیں۔ ایسے سپاٹ فکسنگ جیسے انٹرویو میں راشن کے بدلے بھاشن کی لنڈا سیل لگتی ہے۔
لیکن اس سے پہلے راشن کے بدلے بھاشن کے اس پوسٹ مارٹم کی طرف چلتے ہیں، جسے صرف سوشل میڈیا میں ہی جگہ مل سکی۔ وہ تھا بی بی سی کو دیے گئے مریم نواز صاحبہ کے تازہ انٹرویو کا وہ حصہ جس میں لیڈی رپورٹر نے پاکستان میں معیشت کی بحالی کے بارے میں سوال کیا۔ لیڈی رپورٹر نے یہ سوال بار بار دُہرایا، لیکن اس کے جواب میں شور شرابے اور پریشانی کے اظہار کے علاوہ مریم صاحبہ کے مُنہ سے اور کچھ نہ نکل سکا۔ آیئے اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا موازنہ دیکھ لیتے ہیں۔ یہ موازنہ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 9 کوارٹرز کے عرصہ اقتدار، اور مریم نواز صاحبہ کے والد صاحب کی مسلم لیگ (ن) حکومت کے اتنے ہی عرصے (9 کوارٹرز) کا موازنہ یا تقابلی جائزہ ہے، جس کا سورس نامعلوم، سیاسی یا کوئی اور نہیں بلکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔ وہی سٹیٹ بینک آف پاکستان، جس کے پاس بیرون ملک سے لئے گئے قرضوں کا حساب کتاب رکھا ہوتا ہے۔ یہ موازنہ دو حصوں میں تقسیم کرکے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
پہلا حصہ: پہلے آیئے مسلم لیگ ( ن) کے دور کی طرف، جو مارچ 2016 سے شروع کرکے جون 2018 تک بنتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے اس عرصے میں کل بیرونی قرض 24.8 ارب ڈالر تک بڑھ گیا‘ جبکہ اسی عرصے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس غیرملکی کرنسی کے ذخائر 6.3 ارب ڈالر کم ہوگئے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ مریم نواز صاحبہ کے والد صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے تیسرے دورِ اقتدار میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی زبان میں Overall Liabilities Impact، 3.1ارب ڈالر کا ہوا تھا۔ اس کے برعکس اتنے ہی عرصے میں یعنی جون 2018 سے شروع کرکے ستمبر 2020 تک، وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کے اوّلین دورِ حکومت میں کل بیرونی قرض 18.5 ارب ڈالر بڑھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر میں 2.4 ارب ڈالر تک کا اضافہ بھی ہوگیا‘ یعنی مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے 9 کوارٹرز کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں 9 کوارٹرز کا Overall Liabilities Impact، 16ارب ڈالر کا ہوا۔ یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے 15 ارب ڈالر یعنی 48 فیصد کم ہے۔
دوسرا حصہ: مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے 9 کوارٹرز والے عرصے میں موازنے کا دوسرا حصہ قرض کی واپسی کے بارے میں ہے۔ بڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جن حکومتوں نے پی ٹی آئی سے پہلے 30 سال کے عرصہ حکومت میں قرض لیا، وہ قرض واپس کرنے میں ناکام رہے۔ اگر وہ قرض لے کر پانچ سال میں اسے مناسب جگہ پہ لگا کر حکومت چھوڑتے تو پھر آج پاکستان جس بُرے معاشی سرکل سے باہر آنے کے لئے تیار ہے، وہ سرکل کبھی پیدا ہی نہ ہوتا۔ اس 'قرض واپس مت کرو‘ کی مسلسل پالیسی کے نتیجے میں بیرونی قرض پاکستان کی معیشت کے لئے سب سے بڑا خطرناک مرض بن چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے دن رات ایک کرکے اب تک 19.7 ارب ڈالر کا بیرونی قرض Principle plus Interest کی صورت میں واپس کردیا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے تیسرے دورِ حکومت میں اتنے ہی وقت میں صرف 16.7 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا گیا تھا۔ اس تقابلی جائزے سے یہ حقیقت صاف طور پر سامنے آجاتی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں 13ارب ڈالر یعنی 77 فیصد قرضہ زیادہ واپس کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے تیسرے دور کے پانچ سال کے عرصے میں بیرونی قرض کی واپسی صرف 33.7 ارب ڈالر تھی۔
اس تقابلی موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پچھلے دور کے مقابلے میں 48 فیصد کم قرض لیا ہے اور 77 فیصد زیادہ قرضہ واپس کردیا ہے۔
لیڈی رپورٹر کے سرجیکل سوال کو گھمانے کی بار بار کوشش کے دوران خود مریم نواز صاحبہ نے اپنے والد صاحب کا بیانیہ گھما کر رکھ دیا۔ نواز شریف صاحب کا یہ بیانیہ مسلسل ترقی کرتا آیا ہے، جس کے چار مرحلے قوم کے سامنے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ وہ تھا، جس کے دوران نواز شریف صاحب نے بیانیے کا بیج بویا‘ وہ بھی جی ٹی روڈ پر، اپنے بھائی کی حکومت کی طرف سے دیے گئے مکمل پولیس پروٹوکول اور سکیورٹی کور کے 100 فیصد سائے میں۔ یہ بیانیہ خلائی مخلوق کی مداخلت سے تین چار لوگوں کی طرف سے ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کے رونے دھونے پر مشتمل تھا۔ اس کا دوسرا مرحلہ تب شروع ہوا، جب نواز شریف صاحب کے پلیٹ لیٹس پاپ کارن کی طرح اُچھلنا کودنا شروع ہوئے۔ کبھی زیرو کبھی آسمان پر۔ اسی دوران قطری تھری کی قسط چل گئی۔ لگژری ڈریم جیٹ آیا اور نواز شریف علاج کا غم غلط کرنے کے لئے اُن مے فیئر اپارٹمنٹس میں پہنچ گئے جن کے بارے میں وہ نہیں جانتے کہ ان کا مالک کون ہے، خریدار کون، بینی فشل اونر کون؟ لہٰذا وہ نہیں بتا سکتے کہ جنابِ والا یہ ہیں وہ وسائل اور ذرائع جن کے ذریعے ہم نے یہ اپارٹمنٹس بنائے۔
بیانیے کا تیسرا دور بزنس پارٹنر سجن جندال، اور تین چار غیر ملکی سفارت خانوں سے مسلسل مشاورت اور کئی ناقابل بیان ملاقاتوں کے بعد مکمل کیا جا سکا۔ اس کے بھی کئی حصے ہیں۔ پہلا حصہ وہ، جس میں عمران خان تو نواز شریف کا مسئلہ ہی نہیں ہے کیونکہ وہ سلیکٹڈ ہے۔ اس کا دوسرا حصہ یہ کہ ووٹ کو عزت دو۔ اس کے تیسرے حصے میں سپہ سالار اور انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کے نام شامل کر دیئے گئے۔ اس کے چوتھے حصے میں یہی نعرہ ''ووٹر کو بھی عزت دو‘‘ بن کر سامنے آیا۔ پانچواں حصہ یہ کہ فوج اپنا تاریخی پروفیشنل ڈسپلن توڑ دے جو پاک ملٹری کا سب سے بڑا ورثہ اور اثاثہ ہے۔ یوں چوروں کی چوری کو بچانے کے لئے اپنے ہی ڈسپلن کی باغی ہو جائے جبکہ چھٹا حصہ وہ تھا، جسے لیڈی رپورٹر کے ایک سوال نے ایکسپوز کرکے وہ ''چوہا‘‘ کھود نکالا جسے پی ڈی ایم کی فنانشل ڈھیری کے نیچے چھپانے کی بھرپور کوشش ہو رہی تھی۔
آج کا سوال ہے، سلیکٹڈ کون؟ جس کا جواب ایوب خان کی سلیکٹڈ کابینہ، ضیاء الحق کے سلیکٹڈ مجلس شوریٰ والے اور جنرل مشرف کے سلیکٹڈ لیڈروں کے لئے این آر او والے نہیں تو اور کون ہے؟ پاکستان میں 1977 اور 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے سب سے بڑے الزامات سامنے آئے۔ تاریخ دیکھ لیں 1970 اور 2018 کا الیکشن یورپی مانیٹرز اور فافن جیسے اداروں نے شفاف قرار دیا۔ سلیکٹڈ لیڈروں کی اگلی نسل 2023 تک الیکشن کا انتظار کرنے کے بجائے پھر سے سلیکشن مانگ رہی ہے۔
فوج سے یہ کہنا کہ عمران خان کی حکومت پہلے گھر بھجوائو، سلیکشن اَلائنس کا نیا ماورائے آئین چارٹر آف ڈیمانڈ ہے۔ اب کی بار سلیکٹڈ لیڈروں کے سلیکٹڈ بچوں کے لئے تاکہ ان کے بچے Emirates Hills اور پارک لین میں نئے محل تعمیر کر سکیں۔ آپ کا خون چوس کر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں