"ABA" (space) message & send to 7575

سینیٹ الیکشن میں ووٹ کی عزت

کبھی کبھی یہ سوال اُٹھتا رہتا ہے کہ آپ ماضی میں مت جائیں‘ اسے مرحوم سمجھ لیں۔ ظاہر ہے مرحوم کو سپردِ خاک کر دیا جاتا ہے۔ اس دلیل کا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے ''مٹی پائو پالیسی‘‘۔ پھر یہ سوال بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ بار بار ایک ہی بات کو کیوں دہرایا جاتا ہے؟ اس کا جواب کارپوریٹ دنیا کے کمرشل اشتہار دیکھ کر آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔ کئی کمرشل اشتہاروں میں ایسے ایسے وَن لائنر استعمال ہوئے جو اَب ہماری اردو زبان کے محاورے بن چکے ہیں‘ مثال کے طور پر اگر کسی شخص یا ادارے کی خوبی یا خامی بہت زیادہ مشہور ہو جائے تو اُس پر یہ اشتہاری نعرہ فِٹ کر دیا جاتا ہے ''بس نام ہی کافی ہے‘‘۔ 
اگر ہم ماضی مرحوم سے صرف ''کیوں نکالا‘‘ کو کھود لیں تو پتہ چلے گا کہ نواز شریف صاحب کی نا اہلی سے لے کر آج تک شاید ہی اتنا بڑا کوئی اشتہار تخلیق کیا گیا ہو۔ کیوں نکالا کی بغل بچی کا نام رکھا گیا ''ووٹ کو عزت دو‘‘۔ میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ووٹ مذکر ہے یا مؤنث‘ کیونکہ لکھا یہ جاتا ہے کہ میں نے اپنا ووٹ ڈال دیا ہے‘ لیکن اس کے برعکس ووٹ کو عزت دو کہہ کر اسے مانگنے والے اُمیدوار اکثر یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ میں نے تم سے ووٹ لینی ہے‘ اس طرح ہماری سوسائٹی اور ہماری سیاسی لغت میں ووٹ ہوتا بھی ہے اور ہوتی بھی ہے۔
بات ہو رہی تھی ووٹ کو عزت دو والے نعرے کی۔ اس تازہ نعرے کے کئی تر و تازہ مطلب نکالے جا رہے ہیں۔ تازہ ترین تو وہی تھا جو نواز شریف صاحب کی پارٹی نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پہ جا نکالا۔ اس سے پہلے خلائی مخلوق کو مخاطب کر کے یہ نعرہ لگایا جاتا تھا۔ پھر جوں جوں مودی کے راج میں بھارت کے اندر پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف بخار بڑھتا گیا ویسے ویسے یہ نعرہ پاکستانی فوج کی جانب مڑتا گیا؛ چنانچہ کبھی اس کا مخاطب سی او اے ایس کو بنایا گیا‘ کبھی پاک چائنا سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کو اور کبھی پاکستان کی قابل فخر گلوبل سپائی ماسٹر انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کی طرف نعرے کا رخ موڑا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کو تو اس نعرے کا نشانہ بننا ہی تھا‘ ساتھ ساتھ نظامِ عدل و انصاف کو بھی لپیٹ لیا گیا۔ یہ نعرہ‘ نعرے کی حد تک آگے بڑھتا چلا گیا۔ ظاہر ہے وقت کب رُک جانے والا فیکٹر ہے‘ اس لیے آگے بڑھ کر وقت نے اس نعرے کو کان سے پکڑ لیا۔
ووٹ کو عزت دو والے نعرے کے لکھاری اور پیش کار تب کان سے پکڑے گئے جب ہماری وفاقی کابینہ نے سینیٹ کے الیکشن شو آف ہینڈز کے ذریعے منعقد کروانے کا فیصلہ کیا۔ آئیے پہلے اس فیصلے کے پس منظر پر نظر ڈال لیں۔
پہلا منظر: پاکستان میں سینیٹ الیکشن کا آغاز سینیٹ الیکشن ایکٹ مجریہ 1975ء کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ قانون بننے کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کا ایوانِ بالا تشکیل پا گیا لیکن اسے سیاسی آوارگی اور قومی بدبختی کے علاوہ اور کیا نام دیا جائے کہ ایوانِ بالا ہونے کے باوجود اس ایوان کا الیکشن پستی کی طرف لُڑھکتا چلا گیا۔ پہلے زور زبردستی‘ پھر ہارس ٹریڈنگ اور پھر چھانگا مانگا آپریشن کے بعد سینیٹ آف پاکستان کے الیکشن پر ووٹوں کی نیلامی کے کالے بادل چھانے لگے۔
دوسرا منظر: یہ حیران کن بات سامنے آئی کہ صوبہ بلوچستان اور کے پی میں باہر کے لوگ سینیٹر بننے کے لیے جانا شروع ہو گئے۔ جو جتنا بڑ ا ڈیلر ویلر تھا‘ اُس کی جیب کے سائز کے مطابق ووٹ کا ریٹ بڑھتا چلا گیا۔ کئی ہستیاں تو ایسی ہیں جن کے پاس نہ کوئی پارٹی ہوتی ہے نہ کوئی شاندار پروفیشنل کیریئر‘ اس کے باوجود وہ ہر دفعہ سینیٹ کی سیٹ مکھن میں سے بال کی طرح نکال لینے کے فن سے واقف ہیں۔ اس طرح سینیٹ آف پاکستان کے الیکشن میں نوٹ کو عزت دو‘ سکہ رائج الوقت بن گیا۔ ہر الیکشن میں ہر دفعہ ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات یا معاملات سامنے آئے۔ بظاہر یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔
تیسرا منظر: جو لگاتا ہے‘ وہ کھاتا بھی ہے۔ اس کا ثبوت کوئی ادارہ دیکھنا چاہے تو وہ صرف اسلام آباد کی کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز اور کمرشل ہائوسنگ سوسائٹیز کا ریکارڈ منگوا کر دیکھ لے۔ غضب کرپشن کی ایسی ایسی عجب کہانی سامنے آئے گی کہ بڑے بڑے وارداتیوں کی ایسی کی تیسی پھر جائے گی۔
چوتھا منظر: ہائوس آف فیڈریشن کے الیکشن میں سب سے تازہ مثال پچھلی بار چیئرمین آف سینیٹ کے الیکشن میں سامنے آئی جب مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے شور مچایا کہ اُن کے ووٹرز بھگوڑے بن کر ہائی جیک ہو گئے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے بڑے بڑے لیڈروں نے بڑی بڑی دھمکیوں والی پریس کانفرنسز منعقد کیں۔ ان پریسرز میں بڑے بڑے فلمی ڈائیلاگ بولے اور ووٹ کوعزت دینے کے لیے بھگوڑے ووٹروں کو سینیٹ سے گھر بھجوانے کا اعلان کر دیا۔ آج سے صرف تین مہینے بعد مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے ووٹ کو عزت نہ دینے والے ووٹر باعزت طور پر سینیٹ سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کچھ کو پھر سینیٹ میں واپس لایا جائے لیکن یہ نہیں ہو سکتا‘ کسی قیمت پر نہیں کہ ان کے خلاف نمائشی طور پہ ہی سہی کوئی ڈسپلنری ایکشن ہو سکے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ دال میں کچھ کچھ کالا‘ الیکشن میں اپنے لیے ووٹ کی عزت مانگنے والے اپنی طرف سے ضرور ڈال دیتے ہیں۔
پانچواں منظر: ایک ایسی حکومت کے دور میں سامنے آیا جب دو بڑی نیشنلسٹ پارٹیوں اور دو بڑی باریاں لینے والی پارٹیوں کو ہرا کر‘ کے پی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ پی ٹی آئی 2013ء میں جنرل الیکشن کے نتیجے میں پہلی مرتبہ کے پی میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی کی یہ اولین حکومت بھی مخلوط تھی جس میں چار دوسری جماعتوں کو حصہ ملا اور یہ سب ملا جلا کر اسمبلی میں حکومت کی اکثریت کے صرف تین ووٹ۔ جی ہاں! اتنی دھاگے جیسی پتلی اکثریت کے باوجود جب کے پی اسمبلی میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا الزام لگا تو پی ٹی آئی نے اس پر تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔ اس کمیٹی نے تفتیش کرکے جو ثبوت اکٹھے کئے اس کا نتیجہ سن کر سٹیٹس کو کا کلیجہ حلق کو آ گیا۔ پی ٹی آئی کی ڈسپلنری کمیٹی نے اپنی ہی پارٹی کے 20 ارکانِ اسمبلی کو اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر کے پارٹی سے یوں نکالا کہ اس ایکشن نے اپنی ہی پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔
اگلے روز وزیر اعظم عمران خان نے سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈز کے ذریعے کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ساری پارٹیاں ووٹ کو عزت دینے کے لیے اس اعلان کا ساتھ دینے کا اعلان کرتیں‘ لیکن ہوا وہی جس سے دال میں موجود کالا اُبھر کر سامنے آ گیا۔ پی ڈی ایم والے شو آف ہینڈز پر کیوں بھڑک رہے ہیں؟ سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ کو عزت دینے کے لیے کیوں تیار نہیں ہو رہے؟ کیا مال لگا کر آل اور کھال بچانے کے لیے آل اور کھال کو عزت دینا چاہتے ہیں؟ اس میں نیا کیا ہے؟ پہلے ہی چاروں صوبوں‘ وفاق‘ اے جے کے اور جی بی میں خواتین کی نشستیں پارٹی نمبرز کے مطابق چُنی جاتی ہیں۔ کیا پی ڈی ایم کی بڑی پارٹیاں نہیں چاہتیں کہ سینیٹ کے الیکشن میں چھوٹی پارٹیوں کو ان کی طاقت کے مطابق حصہ ملے؟
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے 
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں