"ABA" (space) message & send to 7575

Dark Decade …(1)

کیا کمال کا دور آیا ہے! سات سمندر پار کے راز اس طرح کھلے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے سامنے کی دیوار پر کچھ لکھا ہوا ہو۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس طوفانِ بے لگام کی عاشقی میں شاعر کے بقول عزتِ سادات بھی ساتھ گئی۔
آرٹ آف گورننس میں ٹرانسپرنسی، مالیاتی ڈسپلن پر لمبے لمبے بھاشن، جگت بازی، تقریریں، ہم سب کو یاد ہو چکی ہیں۔ یہ سُن سُن کر عام لوگوں کے کان پک گئے کہ اگر تم ایک دھیلے کی کرپشن اس خادم کی ثابت کرکے دکھا دو تو ساری زندگی کے لئے سیاست چھوڑ کر کھمبے سے اُلٹا لٹک جائوں گا۔ کوئی ایک مقامی مخالفت کی تہمت ہو پھر تو بات اور تھی‘ اسے دشمن داری اور انتقامی کارروائی بھی کہا جا سکتا تھا‘ لیکن انٹرنیشنل پبلیکیشنز کا کیا علاج کیا جائے؟
یہاں اپنے ملک میں ذرا سی بات پر نوٹس، ہرجانے کے دعوے اور عزت داری کے کلیم عدالتوں میں داخل کر دیئے جاتے ہیں۔ ایسے ہی عزت داروں کا ایک پورا سنڈیکیٹ ان دنوں ایون فیلڈ اپارٹمنٹ اور مے فیئر محل میں بھگوڑا ہے۔ یہ ایک ایسا سنڈیکیٹ ہے جس نے چارٹر آف کرپشن کے ذریعے سے ملک، قوم، سلطنت کو ڈارک ڈیکیڈ میں دھکیل دیا تھا۔ یہی کولیشن آف کرائم کے مفرور، اِن دنوں دن رات 22 کروڑ غریب پاکستانیوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اس منی لانڈرنگ سنڈیکیٹ کی خدمتی مصروفیات کے بارے میں پانامہ لیکس سے لے کر براڈ شیٹ لیکس تک سے جتنے دھیلے برآمد ہوئے‘ جس قدر قصیدے پکڑے گئے، وہ سارے کے سارے دن دہاڑے لندن اور اس کے گردونواح سے نکلے ہیں۔ وہی لندن جہاں پاکستان کے عدالتی مفرور، تاحیات نااہل اور ریڈوارنٹ سے بھاگنے والے سرٹیفائڈ شریف، عزت کا دہی کلچہ کھا رہے ہیں۔
بات ہورہی تھی انٹرنیشنل پبلیکیشنز کی‘ جن میں 22 کروڑ غریبوں کی خدمت کیلئے اقامہ سے نقب لگا کر پانامہ کی واردات تک پہنچنے والوں کے کارنامے لکھے ہوئے ہیں۔ ان انٹرنیشنل پبلیکیشنز میں سے پہلی ڈاکومنٹری برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی تیار کی ہوئی ہے‘ جس میں پاکستان سے لوٹی جانے والی رقم پارک لین تک پہنچنے کی پوری جادوگری کی داستان موجود ہے۔ اس آنکھیں کھول دینے والی ڈاکومنٹری کا نام ہے ''From Pakistan to Park Lane‘‘۔ یہ ڈاکومنٹری ساری دنیا کے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مشہور ترین، عجب کرپشن کی غضب کہانیوں کی رینکِنگ میں ٹاپ پر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لندن میں بی بی سی کا دفتر اور غریب پاکستانیوں کی لوٹی ہوئی رقم سے دہی کلچہ کھانے والوں کے دفاتر ایک ہی صف میں تھوڑے سے فاصلے پر کھڑے ہیں‘ لیکن چونکہ چوری کے مال کو بچانے کی انگلش شرافت کا بنیادی تقاضا یہی ہے کہ بی بی سی سے پنگا نہ لیا جائے‘ اس لئے اس ڈاکومنٹری سے شہباز شریف اور لندن جائیدادوں کی بینی فشل اونر اِن کی سیاسی بھتیجی‘ جو اِن دنوں شہباز شریف والی مسلم لیگ پر قبضہ مالک بھی ہیں‘ ساتھ ہی ان جائیدادوں کو فراری کیمپ کے طور پر استعمال کرنے والے نواز شریف صاحب‘ ان سب میں سے کسی کی ذرا بھی سبکی نہ ہوئی۔ اس لئے آج تک اس شاہکار منی لانڈرنگ تھرلر پر نہ کوئی ہتکِ عزت کا دعویٰ کسی انگلش کورٹ میں داخل کیا گیا‘ اور نہ ہی اس ''ملٹی ٹرِیلین‘‘ کرپشن کے ثبوت سامنے آنے پر کسی کی سیاسی غیرت جاگی کہ وہ کیمرے پر اپنی قوم سے کئے ہوئے بار بار کے وعدے کو پورا کرنے کے لئے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہو جائے۔
پاکستان میں عوام کے خزانے کی لوٹ مار کرنے والوں نے یہاں پر اندھیرا پھیلا دیا‘ لیکن تاجِ برطانیہ کے عین سائے تلے مے فیئر، پارک لین اور ایون فیلڈ کے اُجالے خریدنے والے نئی تبدیل شدہ دنیا کے ہر دروازے پر '' اینٹی کرپشن آئی‘‘ کے طوفان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس طوفان کے سونامی کا نام ''Capitalism's Achilles Heel ‘‘ ہے۔ یہ ریمنڈ بیکر کی وہ کلاسیکی سچی کہانی ہے، جس کے ٹاپ چیپٹر میں پاکستان کے عدالتی مفروروں کی ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی بلیک منی اور منی لانڈرنگ وَیب کے سارے تانے بانے لکھے ہوئے ہیں۔ گورے ریمنڈ بیکر کی یہ کتاب پارک لین سمیت ہر علاقے کی لائبریری اور بُک سٹال پر موجود ہے۔ ریمنڈ بیکر کی بیان کردہ اس گلوبل کہانی کا حوالہ تقریباً مسلسل، کسی نہ کسی مضمون، ویڈیو یا خبر میں ہر روز سامنے آتا رہتا ہے۔ وہ بھی پاکستان سمیت ساری دنیا میں۔ ریمنڈ بیکر چونکہ گورا ہے، اور گوروں کو پتہ ہے کہ ان کے دیس میں دُور، دیش سے کون کون سے چور اور اُٹھائی گیرے غریب لوگوں کا مال لے کر چھپے ہوئے ہیں، اس لئے ان سے بھی پنگا لینا ممکن نہیں ہے‘ لہٰذا شیر اس مرحلے پر اِک واری فیر دُم دبا کر دَبکے ہوئے ہیں۔ اپنے ملک میں ناجائز کمائی کی گاڑیوں اور اِن کے پیچھے بھاگتی ہوئی نوکروں کی فوج میں وی وی آئی پی کہلانے والے، لندن کی سڑکوں اور چوکوں پر اکیلے بھاگ کر روڈ کراس کرنے کو عزت سمجھتے ہیں۔ وہاں سڑک پر کھڑا کرکے لوگ انہیں چور ای اوئے یا ڈاکو ڈاکو کے نام سے پکاریں، تب بھی نہ ان کی توہین ہوتی ہے، نہ ہی ریمنڈ بیکر کے ہاتھوں اپنے گریبان کی چیر پھاڑ کے باوجود ان کی کوئی ہتک کا خدشہ ہوتا ہے۔
جب پاکستان لُٹ رہا تھا اس Dark Decade میں چوری کا پیسہ کس طرح مختلف سٹیشنوں سے گھما کر مڈل ایسٹ، لندن، امریکہ اور یورپ پہنچایا گیا۔ شریفوں کی اس واردات پر تیسری انٹرنیشنل پبلیکیشنز Kim Barker کا آئی فون ہے۔ کِم بارکر کی کہانی کو دنیا میں بڑی توجہ سے فالو کیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے سات سمندر پار پاکستان کا تعارف منی لانڈرنگ کے سیف ہیون کی صورت میں کروایا جاتا ہے۔ اب آپ اسے کسی اتفاق فائونڈری کا حسنِ اتفاق سمجھ لیں کہ کِم بارکر بھی دیسی نہیں ہے، فرنگی ہے۔ اس لئے اپنے ہاں برانڈِڈ ہیٹ اور ایسٹرن یورپ کے گرم لانگ کوٹ پہننے والے 'گورا‘ بنتے ہیں، لیکن فرنگی کو دیکھ کر ان کے دل کی تنگی کا حال دیکھنے والا ہوتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہر گورا دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ کہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عمل کرنے والے تو نہیں پہنچ گئے۔
چوتھے نمبر پر شریفس آف پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ کہانی آئی سی آئی جے کی پیش کش ہے جسے حرفِ عام میں پانامہ لیکس کہتے ہیں۔ نام ہی کافی ہے۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا فیصلہ، قطری خط 1، قطری خط 2۔ اپنے بنائے ہوئے احتساب کے ادارے کا ریفرنس۔ عدالتی فیصلے، ٹرائل‘ گواہیاں، سزائیں، جعلی بیماری اور اصلی مفروری۔
انٹرنیشنل پبلیکیشنز کا پانچواں سٹار انگلستان کا اخبار ڈیلی میل ہے‘ جس نے ''Penthouse Pirates‘‘ کے نام سے لبادے رول کر رکھ دیئے۔ اس سے اگلا نمبر WSJ ابراج کا آتا ہے جبکہ اب ساری دنیا میں کاوے موساوی کی براڈ شیٹ والی چارج شیٹ کا ہے‘ جس میں اپنے خلاف تفتیش رُکوانے کے لئے آل، مال اور کھال بچانے والوں نے صرف ڈھائی کروڑ امریکی ڈالرز رشوت کی پیشکش کی۔ اس سے ایک بات تو پھر سچ ثابت ہوگئی کہ وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ لگانے سے نہ جانے کیوں لوگوں کو وہ بریف کیس یاد آ جاتے ہیں جن کے ذریعے نواز دور کی ڈارک نوازشات نے وہ کرشمہ برپا کیا، جس کا نام رہتی دنیا تک انصاف کے مندروں میں بجتا رہے گا۔ ڈارک ایجز سے آج تک کیا کوئی ایسا حکمران ہو گا، جو اپنے ملک کا وزیر اعظم ہو اور کسی دوسرے ملک کا تنخواہ دار سکیورٹی گارڈ۔کیا کسی وزیر اعظم نے ملک کی آخری عدالت کے دو ٹکڑے کرکے ایک ہی دن میں دو علیحدہ علیحدہ سپریم کورٹ بٹھائیں؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں