"ABA" (space) message & send to 7575

Black Lives Matter

یہ ایک خوش حال گوری فیملی کی کہانی ہے ‘ جس نے گھر سے باہر نکلتے ہوئے پڑوس میں رہنے والی بچی کو جھولے میں پڑے نومولود کا خیال رکھنے کیلئے کہا۔ امریکن جوڑا چند منٹ میں گھر واپس آجانے کے خیال سے باہر نکلا تھا۔ اس دوران بچی نے نومولود کو پالنے سے اُٹھالیا‘ بچہ اس کے ہاتھوں سے پھسل کر سر کے بَل نیچے جا گرا اورفوت ہوگیا۔ یہ واقعہ چونکہ المناک حادثہ تھا‘ کوئی سوچی سمجھی کرمنل واردات نہیں تھی‘ اس لئے بچے کے والدین نے بچی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔
دوسری جانب متعلقہ امریکی ریاست کی میونسپلٹی نے بچی کا نام ایسی فہرست میں شامل کر دیا جسے Infant Killers کا رجسٹر کہا جاتا تھا۔ کافی عرصہ گزر گیا اور لوگ اس دردناک کہانی کو بھول گئے۔ اس دوران پڑوس کی بچی بڑی ہو کر یو ایس اے کے فنانشل کیپٹل میں ایک معروف بینک میں جاب کرنے لگ گئی۔ اس واقعے کے کافی سال گزرنے کے بعد کسی Investigative رپورٹر نے معصوم بچوں کی ہلاکت والی فہرست حاصل کرلی۔ اس طرح فہرست میں لکھے ہوئے نام شائع ہو کر پبلک ہوگئے۔ تب تک وہ بچی 42 سال کی میچور خاتون اور بینکر بن چکی تھی۔ جب یہ فہرست شائع ہوئی تو کسی دوست نے بینکر خاتون کی توجہ اس کی طرف دلائی؛ چنانچہ لیڈی بینکر نے فوری طور پر ایک وکیل سے رابطہ کیا اور ازالۂ حیثیت ِعرفی یا پرسنل انجری کا لاء سوٹ میونسپلٹی کے خلاف دائر کردیاگیا۔ لاء سوٹ کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ خاتون بے قصور تھی اور میونسپلٹی نے اپنی انٹرنل فہرست کو پبلک کر کے اس کی سماجی زندگی برباد کردی ہے۔ مجاز عدالت نے لاء سوٹ میں خاتون کے حق میں ڈگری جاری کردی‘ جس پر امریکن اخباروں نے لکھا کہ اگر وہ خاتون 42 سال تک کسی بینک کی چیف ایگزیکٹیو کے عہدے پر لگی ہوتی تب بھی وہ اتنی رقم نہیں کما سکتی تھی جتنی اسے میونسپلٹی کے خلاف ہرجانے کے طور پر مل گئی ہے۔ یہ ایک طرح کا ریکارڈ تھا‘ امریکن جسٹس سسٹم کی تاریخ میں پاورفُل ادارے کے خلاف عدالت میں ایک نہتی خاتون کے حق میں ایک لینڈ مارک عدالتی فیصلے کی صورت میں۔
ادھر ‘ بڑا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد 2021ء میں 12 مارچ کے دن جار ج فلائیڈ کے مقدمے نے 42 سالہ خاتون کے مقدمے کا ریکارڈ توڑ دیا۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ریاست Minnesota کے سٹی Minneapolis میں جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے نتیجے میں سٹی آف منیاپولس کے خلاف جارج فلائیڈکی فیملی کے فائل کردہ لاء سوٹ میں ریکارڈ رقم کا ہرجانہ مقتول کی فیملی کو دینے کی سیٹلمنٹ ہوئی۔ امریکی پریس اور یو ایس لائیرز نے اس طرح کے لاء سوٹ میں موجودہ ہرجانے کو سب سے بڑی رقم قرار دیا‘ جو پاکستانی کرنسی میں چار ارب 24 کروڑ 3 لاکھ 50 ہزار روپے بنتی ہے۔ اس کی بنیاد نومنٹ کی ایک ویڈیو ریکارڈنگ کو بنایا گیا جو ایک عام شہری نے ریکارڈ کی تھی‘ جس کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ اس ویڈیو کلپ میں سٹی آف منیاپولس کے ایک پولیس آفیسر‘ جس کا نام ڈیریک چاون ہے‘ نے جارج فلائیڈ کو سڑک پر گرا رکھا ہے اوراُس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا ہوا ہے۔ جس وقت جارج فلائیڈ کے لاء سوٹ میں منیاپولس کے سٹی آفیشلز اور جارج فلائیڈ فیملی کے وکلا 27 ملین یو ایس ڈالرز کے سیٹلمنٹ کا اعلان کر رہے تھے‘ عین اُسی وقت قتل کا ملزم ڈیرک چاون‘ سٹی ہائوس سے آدھے میل سے بھی کم فاصلے پر ایک عدالت کے ٹرائل روم میں بیٹھا ہوا تھا جہاں پراسیکیوٹرز اور اس کے وکلا کی موجودگی میں ٹرائل کیلئے جیوری کے ممبران کا انتخاب کیا جارہا تھا۔ اس موقع پر سٹی آف منیاپولس کے میئر جیکب فرے‘ سول رائٹس لائیر‘ بین کرمپ‘ جو سیاہ فام جارج فلائیڈ کی فیملی کے وکیل تھے‘ دونوں نے تاریخی جملے کہے جس کی طرف بعد میں آتے ہیں۔ پہلے آئیے اس تاریخ ساز مگر المناک ٹرائل اور امریکن جسٹس اینڈ جوڈیشل سسٹم پر ایک نظرڈال لیتے ہیں۔
پہلا پہلو: یہاں آپ کو اپنے ہاں کے کرمنل جسٹس سسٹم اور جوڈیشل سسٹم میں صاف فرق نظر آئے گا۔ آپ اسے اتفاق بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان دنوں پاکستان میں الیکشن سے پہلے ایک امیدوار کے بیٹے کی ویڈیو کلپ ہر روز ٹی وی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی تھی جس میں والد کے الیکشن میں شریک ووٹروں کے ووٹ ریجیکٹ کر کے اُن کو ضائع کرنے کی ٹیوشن پڑھائی جا رہی ہے۔ یہ الیکشن پاکستان کی قومی اسمبلی میں ہوا‘ جہاں ٹیوشن پڑھانے والے صاحب کے والد صاحب مخالف امیدوار کے سات ووٹ ریجیکٹ ہونے کی وجہ سے الیکشن جیت گئے‘ لیکن شاہراہ دستور پر واقع پارلیمنٹ کے اسی کمپائونڈ میں اسی ہفتے کے اندر اندر سینیٹ فلور پر عین اُسی طرح سے پورے سات ووٹ ریجیکٹ ہونے کی وجہ سے بیٹے کے پڑھائے ہوئے ٹیوشن کے عین مطابق ابا جی کو شکست ہوگئی۔ آپ چاہیں تواسے نیچرل جسٹس سسٹم کا شاخسانہ کہہ لیں۔
پاکستان میں کرمنل لاء ترمیمی آرڈیننس 1972ء سے پہلے فوجداری جرائم کے ٹرائل میں سیشن جج صاحب کے ساتھ assessors بیٹھا کرتے تھے جو ایک طرح سے جیوری کا کردار ادا کرتے تھے۔ تب سیشن ٹرائل سے پہلے دفعہ 30 کے جوڈیشل مجسٹریٹ ساری شہادتیں ریکارڈ کرتے‘ پھر اس بات کا فیصلہ کرتے کہ یہ قتل کا مقدمہ بنتا بھی ہے یا نہیں۔ تب مقدمہ سیشن کے سپرد ہوتا۔ اُس دور میں قتل کے مقدموں کی فوری سماعت کی عدالتیں نہیں تھیں مگر کرمنل جسٹس سسٹم میں فیصلوں کو سالہا سال تک لٹکانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
امریکہ میں برطانیہ کی طرح قتل کے مقدمات متعلقہ ریاست میں باری آنے پر چلائے جاتے ہیں۔ 46 سالہ امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار سابق پولیس آفیسر ڈیرک چاون کا مقدمہ آج سوموار کے دن شروع کیا جائے گا۔ پچھلے ہفتے سے عدالتی کارروائی میں شرکت کیلئے 16 ارکان کی جیوری سلیکٹ ہو رہی ہے‘ جو ڈیرک چاون کے ساتھ تین دیگر پولیس اہلکاروں کے کورٹ ٹرائل میں بیٹھے گی۔ کیس کی سماعت سے قبل بے نیپن کائونٹی کے جج نے مقامی شہریوں کی بڑی تعداد کو طلب کیا تاکہ ان میں سے اہل اور واردات کے بارے میں زیادہ معلومات رکھنے والے افراد کو چنا جا سکے۔
دوسرا پہلو: ان شہریوں کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے پہلے ہی 16 صفحات پر مشتمل سوال نامہ بھیجا گیا تھا۔ جیوری میں شامل کرنے سے پہلے ان شہریوں سے پوچھا گیا کہ آیا وہ جارج فلائیڈ قتل کیس میں منصفانہ انصاف کی فراہمی کے اہل ہیں یا نہیں؟
تیسرا پہلو: جارج فلائیڈ قتل کیس کی پیروی کرنے والی پراسیکیوشن ٹیم کے ممبرز اور ڈیفنس وکیل‘ دونوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ جج پیٹر کاہل سے کسی بھی جیوری ممبر کو متعصبانہ رائے رکھنے کی بنیا د پر جیوری سے نکالنے کی سفارش کر سکتے ہیں۔ ایک دفعہ جیوری مکمل ہونے کے بعد اصل ٹرائل کا باقاعدہ آغاز 29 مارچ سے ہوگا۔
چوتھاپہلو: شہریوں کو بھیجے گئے سوال نامے میں پوچھا گیا ہے کہ انہوں نے کتنی دفعہ جارج فلائیڈ کی موت والی ویڈیو دیکھی ہے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ انہوں نے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی؟ تیسرا سوال یہ کہ پولیس کے حق میں نکالے گئے مظاہروں‘ جن میں ''بلیو لائیوز میٹر‘‘ کے نعرے درج تھے‘ اس پر آپ کے کیا تاثرات اور خیالات ہیں؟ اہم ترین سوال یہ تھا‘ کیا آپ کو یقین ہے کہ ہمارا انصاف کا نظام کام کرتا ہے؟
میئر جیکب اور وکیل بین نے کہا ''منیاپولس کے سیاہ ترین وقت میں دنیا کی آنکھیں یہاں لگی ہوئی تھیں‘ مگر اب شہر نئی اُمید‘ روشنی اور تبدیلی کی شمع بن گیا ہے۔ امریکہ سمیت تمام گلوبل شہروں کیلئے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں