"ABA" (space) message & send to 7575

جج ‘جذبات اور جوڈیشل ریویو

یو ایس اے کی تاریخ میں چار مقدمے ایسے ہیں جنہیں براہ راست عام پبلک اور جسٹس سسٹم میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ٹی وی پر نشر کیا گیا۔ان میں سے دو مقدمات تھوڑے پرانے ہیں اور دو عدد کیس بالکل تازہ۔بلکہ منیاپولس میں پولیس کے ہاتھوں بے رحمی سے مارے جانے والے جارج فلائیڈ کا مقدمہ ان دنوں ٹرائل کورٹ سے ڈی ڈبلیو‘بی بی سی اور سی این این جیسے ساری دنیا کے معروف ٹیلی ویژن نیٹ ورکس براہ راست دکھا رہے ہیں۔اس سلسلے کا پہلا مقدمہ سٹار فٹ بالر او جے سمپسن کے خلاف چلا تھا۔فٹ بالر پہ الزام تھا کہ اس نے اپنی ہم راہی خاتون کی جان لی تھی ۔اس مقدمے کا دفاع کرنے والے لیڈ وکیل رابرٹ کارڈیشین اور اُن کے ساتھ وکلا کی ٹیم کو امریکہ کی نشریات کی دنیا میں ''ڈریم ٹیم آف لائیرز‘‘ کا خطاب ملا۔ان شاندار پروفیشنل وکیلوں کے تاریخی ٹرائل کے بارے میں فروری 2016 ء میں ٹی وی سیریز بنائی گئی جس کا نام ''The People v. O. J. Simpson: American Crime Story‘‘تھا‘ جبکہ اس ٹرائل کے بارے میں ''If I did It‘‘کے ٹائٹل سے ایک معروف کتاب بھی سامنے آئی ۔
امریکہ کی تاریخ کا دوسرا بڑا پبلک ٹرائل جو عام ٹی وی سکرینوں پر براہ راست نشر ہوا وہ پام بیچ کائونٹی کا کیس ہے جس کے فریق امریکہ کے صدارتی امیدوار مسٹر الگور اور بُش جونیئر تھے ۔ ان دونوں مقدمات کو اتنی زیادہ پبلسٹی اور ہائپ ملی جس کی مثال پہلے شاید ہی موجود ہو۔ اس کے باوجود وکیل اور جج ایک لمحے کے لیے کبھی جذباتی نہ ہوئے۔الگور بنام بُش کا فیصلہ کئی اعتبار سے متنازع سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود وکلا کو تحمل سے مکمل طور پر سنا گیا اور کورٹ کے کنڈکٹ پر کوئی سوال نہ اُٹھا ۔ آپ اسے علم الکلام اور منطق کی خوبصورتی بھی کہہ سکتے ہیں۔
امریکہ کی تاریخ کا تیسرا مقدمہ‘ پریذیڈنشیل امپیچ منٹ کی شکل میں پچھلے امریکی صدر ڈی جے ٹرمپ کے خلاف امریکی سینیٹ میں چلایا گیا تھاجہاں فریقین کے وکیلوں نے دلائل ‘ویڈیو کلپس ‘تقاریر کے تراشے اور ویژوئلز بھی اپنے کلائنٹ کے حق میں استعمال کئے۔دونوں طرف سے ایک ایک لیڈ کاؤنسل تھا اور باقی وکلا کی پوری گلیکسی۔کیپٹل ہل پر ہونے والے متشدد ہنگاموں کے بعد اُمید تھی کہ یہ ٹرائل نہ ہائوس کے اندر پُر امن رہ سکے گا اور نہ ہی ہائوس کے باہرلیکن مشتعل جذبات کے باوجود سسٹم کا احترام اور ڈیکورم پوری کارروائی پر غالب نظر آتا رہا ۔
تازہ مقدمہ''بلیک لائیوز میٹر‘‘جیسی احتجاج کی عالمی تحریک چلنے کے بعد شروع ہوا۔جارج فلائیڈ کے قتل کی نومنٹ اور 27سیکنڈ طویل دورانیے کی ویڈیو کورٹ روم اور پھر ساری دنیا میں دکھائی گئی۔ جارج فلائیڈ اپنے قاتل‘ ڈیرک چاون سے 27مرتبہ درخواست کرتا ہے کہ وہ سانس نہیں لے پا رہا ۔وہ مر جائے گا۔اس کے باوجود اس ٹرائل کا کوئی فریق جذبات میں نہیں آیا ۔میری نسل کے وکیلوں نے انصاف کے بارے میں جو پرانی کہانیاں سُن رکھی ہیں‘ اُن کے دو پہلو بڑے دلچسپ ہیں۔ایک یہ کہ انصاف گاہ کو انصاف کا مندر کہا گیااور دوسرا یہ کہ سارے مغرب میں انصاف کی دیوی کی جتنی مورتیاں اور مجسمے لگے ہوئے ہیں ان میں انصاف کی دیوی کو اندھا دکھایا گیا ہے۔ایسا کیوں ہے ؟میرے خیال میں ہم سب جانتے ہی ہیں ‘اس لیے آگے بڑھنے میں کوئی ہرج نہیں۔
وطنِ عزیز کی تاریخ میں جس مقدمے نے جوڈیشل ‘Legislative‘ اور ایگزیکٹو کے بارے میں کچھ بنیادی اصول طے کئے ہیں‘اس بینچ کے فاضل ارکان میں جسٹس منظور احمد ملک‘جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان شامل تھے لیکن فُل بینچ کا فیصلہ جناب جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے تحریر کیا ہے۔بظاہر یہ ایک معمول کا چھوٹا سا مقدمہ تھا جس میں ملتان الیکٹرک پاور کمپنی اسسٹنٹ لائن مین کی نوکری کے ایک امیدوار محمد الیاس کے خلاف سپریم کورٹ میں 2020ء میں اپیل لے کر آئی۔اس فیصلے سے جو اصولِ قانون سامنے آئے وہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے زیرِ اپیل فیصلے کو تھوڑا ساجان لیں۔کیس ہسٹری کے مطابق الیاس کو نوکری نہ ملی تو اس نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔جہاں فاضل جج صاحب نے اسے بھرتی کر کے اپوائنٹ منٹ لیٹر عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔جب میپکو نے ایسا نہ کیا تو الیاس کی توہین عدالت والی درخواست پر کارروائی چل پڑی۔جس کے نتیجے میں مئی 2019 میں میپکو کے اعلیٰ افسران کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری ہواجسے میپکو نے دو رکنی بینچ کے سامنے اپیل میں چیلنج کیا مگر وہ اپیل ڈسمس ہوگئی۔اب آئیے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے اہم قانونی نکات کی جانب۔
پہلا قانونی نکتہ: 22مارچ 2021ء کے فیصلے کا پہلا اہم نکتہ پیراگراف نمبر 5میں یوںملتا ہے۔ نظام عدل کے پاس ایسا اختیار ہے جس کے ذریعے مقننہ اور ایگزیکٹو کے ایکشنز کو اور ساتھ ساتھ حکومت کے ایڈمنسٹریٹو آرم پر چیک لگایا گیا ہے‘ جس کے ذریعے یہ طے کیا جاتا ہے کہ ان اداروں کے ایکشن آئین اور قانون سے متصادم ہیں یا ان کے مطابق ۔ایسا جو بھی ایکشن ملک کے لیگو کانسٹی ٹیوشنل نظام کے خلاف ہوا اسے مسترد کیا جا سکتا ہے۔ یہاں اہم نکتہ یہ طے کیا گیا کہ ملک کے قانون ساز‘ ایگزیکٹو اور جوڈیشل ادارے اپنا وسیع ایریا آف آپریشن رکھتے ہیں۔اس لئے آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان تین اداروں میں سے کوئی ایک دوسرے ادارے کے دائرہ اختیار سے تجاوز کرے ۔اس لئے منصف ہر وقت قانون کے چاروں کونوں کے اندر رہے ۔ جذبات کی رو میں بہہ جانے یا اپنی مرضی کو انصاف قرار دینے کی قطعاً اجازت نہیں۔
دوسرا قانونی نکتہ:دوسرا اصول ِقانون جو اسی فیصلے کے پیراگراف نمبر 6میں ملتا ہے ‘اس کے مطابق کسی منصف کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی کا رول سنبھال لے ۔ایسا کرنا عدلیہ کے کور فنکشن کے خلاف ہے ‘جس کے تحت عدالت کا کام صرف مقدمات سن کر میرٹ پر فیصلے کرنا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ عدلیہ اُن آئینی بائونڈریز کو نظر انداز نہیں کر سکتی جن کے ذریعے سے اختیارات کی تقسیم کو چھوڑ کر مصنوعی طاقت اور اتھارٹی استعمال کی جائے۔
تیسرا قانونی نکتہ:یہ بہت نادر نکتہ ہے جس میں ملک کے آئینی نظام کی مثلث کے بارے میں پیراگراف نمبر 7میں کہا گیاکہ جوڈیشری ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتی ہے تو پھر وہ بھرتیوں کے معیار اور ریکروٹمنٹ پالیسی کو چیک کرتی ہے ‘جو خالصتاًایگزیکٹیو پالیسی کا معاملہ ہے۔ یہاں ایک خوبصورت آئینی ڈاکٹرائن کا حوالہ دیا گیا‘جسے جوڈیشل Overreachکہتے ہیں‘جس کا مطلب یہ نکالا گیا کہ ایسا کام جو عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہو اور جس کے ذریعے ایگزیکٹو یا مقننہ کے مینڈیٹ میں تجاوز کیا جائے۔یہ آئینی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے تصور سے بھی متصادم ہے ۔ فیصلہ کہتا ہے کہ موجودہ کیس جوڈیشلOverreachکا ٹیکسٹ بُک کیس ہے ۔
جج ‘جذبات اور جوڈیشل ریویو کی Oversiteکے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ فیصلے میں اختیارات کی تقسیم کو ہماری جمہوریت کی بنیاد قرار دیاگیااور یہ بھی کہ آئینی حدود سے ماورا فیصلے آئینی بحران پیدا کرنے کی یقینی ریسپی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں