"ABA" (space) message & send to 7575

ڈیپ سٹیٹ میں دو خط

پاک بھارت تعلقات کو سمجھنے کے لئے دو عدد آسان اور آرگینک نکات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ جب سے بھارت کی ڈیپ سٹیٹ آف انڈیا میں مودی راج آیا ہے، بھارت آگے بڑھنے سے یا تو لرزاں ہے یا انکاری ہے۔ ان میں سے پہلا بڑا مسئلہ نریندر مودی انتظامیہ کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ یہ ہے بھارت کے طول و عرض میں 'پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں کی گونج۔ یہ نعرے کبھی سکھ مذہب کے ماننے والے لگاتے ہیں۔ کبھی دلّت، کبھی ہندوئوں کے روشن خیال خواتین و حضرات، جو سڑکوں پر انسانیت کی کھلے عام تذلیل ہضم نہیں کر پا رہے۔ اسی لئے بڑے تسلسل کے ساتھ، کبھی آسام اور بنگال سے تعلق رکھنے والے پبلک اوپینئن کے لیڈروں کے دل سے یہ آوازیں بے ساختہ نکلتی ہوئی ملتی ہیں، اور کبھی ناگالینڈ اور میزورام جیسے علاقوں سے بھی یہی آوازیں لوگوں کے اندر کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ڈیپ سٹیٹ آف انڈیا کیلئے دوسرا پریشان کُن نکتہ بڑے ہی لمبے عرصے کے بعد پیدا ہوا ہے۔ دوسرا نکتہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے موجودہ سربراہوں میں سے صرف ایک لیڈر، منتخب وزیر اعظم عمران خان ہیں، جن کے حق میں ڈیپ سٹیٹ آف انڈیا کی ناک کے نیچے لگنے والے لاتعداد نعرے ہیں، وہ بھی اَن گنت جگہوں پر، بڑے تواتر کے ساتھ۔ یہاں قابل توجہ حقیقت یہ بھی ہے کہ مودی کے انڈیا کی غیر مسلم آبادیاں، مسلمانوں سے کہیں زیادہ یہ نعرے اَز خود بلند کرنا شروع ہوچکی ہیں۔
اس تناظر میں مودی راج کی جانب سے اشتعال اور اس کے جواب میں عمران خان کی حکومت کی Restraint Diplomacy نے پبلک اوپینئن کی عالمی سونامی میں کیا حال کیا، اس کیلئے اسی صفحے پر چھپنے والا (وکالت نامہ مورخہ 5مارچ 2021)، جس کا عنوان ''PAF اور مودی کا بھیانک خواب‘‘ ہے، ریفرنس کیلئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم کی استقامت اور دلیرانہ دانش نے بالآخر مودی کو اس وقت کچھ برف پگھلانے کی طرف مائل کر لیا‘ جب ملک کے اندر اور قومی اسمبلی کے ایوان میں حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت کے عین وسط میں نازک چیلنج کا سامنا تھا۔ اعتماد کی ووٹنگ میں عمران خان صاحب کو وزیر اعظم بننے کے پہلے دن سے بھی چار ووٹ زیادہ ملے
اس موقع پر پاکستان میں جاری جمہوری نظام کو جو تقویت ملی وہ فوری وجہ بنی، اور پاکستان کی حدود میں بھارتی جہازوں کے حملے کے بعد ہمارے دلیر فوجی جوانوں نے ابھی نندن ورتھمان کو جو Fantastic Tea پیش کی تھی‘ اس کا taste پہلے نمبر پر آیا۔ پاکستان کی پرائم منسٹر شپ کیلئے دوسری بار قومی اسمبلی کے ایوان سے پُراعتماد اظہارِ اعتماد کا ووٹ لینے کے تناظر میں خط لکھنے کے لئے 23 مارچ کے دن کا انتخاب کیا۔ پرائم منسٹر آف انڈیا نریندر مودی کے اس انتہائی غیر متوقع، بہت ہی مختصر، مگر اہم خط کو ایک نظر پہلے دیکھ لینا مناسب ہو گا:
22 مارچ 2021
Excellency،
پاکستان کے قومی دن کے موقع پہ، میں پاکستانی عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔پڑوسی ملک کے طور پہ انڈیا، پاکستانی عوام کے ساتھ خوش گوار تعلقات کا خواہاں ہے۔ اس کیلئے دہشت اور دشمنی سے پاک، اعتماد کا ماحول لازمی ہے۔
Excellency، انسانیت کے اس مشکل وقت میں، میں آپ کو اور پاکستانی عوام کو عالمی وبا Covid-19 کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نیک خواہشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ براہ کرم میری Highest Consideration کی یقین دہانی کو قبول کیجئے۔
نریندر مودی
پڑوسی ملک کے قومی دن کے موقع پر، سلام دعا قوموں کی تہذیب کی روایت ہے‘ لیکن مقبوضہ کشمیر میں انڈین آرمی کے لاک ڈائون کے بعد، انڈین پرائم منسٹر کے اس خط میں خوشگوار تعلقات کی خواہش، دہشت اور دشمنی سے پاک اعتماد کا ماحول پیدا کرنا، اور عالمی وبا کووڈ 19 کے چیلنجز سے نبرد آزما پاکستانی عوام کیلئے نیک خواہشات کو یقین دہانی کے طور پہ ساتھ رکھنا، مودی کے خط کو معنی خیز بناتا ہے۔ اسی سال 29 مارچ کے دن وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی پُر مغز اور تاریخی لفظوں میں مودی کے اس خط کا جواب اسلام آباد سے دہلی بھجوایا۔ وزیر اعظم کا خط پیش خدمت ہے:
اسلام آباد
29 مارچ 2021
Excellency،
یوم پاکستان کی مبارک باد کے خط کا شکریہ!
پاکستانی عوام اس دن کو اپنے آبائواجداد کی دانشمندی اور دور اندیشی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مناتے ہیں‘ جن کا تصور ایک آزاد، خودمختار ریاست تھا، جہاں وہ آزادی کے ساتھ رہ سکیں اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال کرسکیں۔
پاکستان کے لوگ انڈیا سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن تعلقات اور باہمی تعاون کے خواہاں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام بھارت اور پاکستان کے مابین تمام جاری امور حل کرنے کیلئے ضروری ہے، خاص طور سے مسئلہ جموں و کشمیر۔
اصلاحی اور نتیجہ خیز بات چیت کیلئے enabling ماحول بنانا لازمی ہے۔
میں اس موقع پہ Covid-19 پینڈیمک کے خلاف انڈیا کی لڑائی کیلئے نیک خواہشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔براہ کرم میری Highest Consideration کی یقین دہانی کو قبول کیجئے۔
وزیر اعظم عمران خان
انڈین پی ایم کے خط کے مقابلے میں ہمارے وزیرا عظم نے اپنے مختصر جواب میں تاریخ کے کئی اہم ترین پہلو بیان کر دیئے۔ مثال کے طور پہ:
پہلا پہلو: یوم پاکستان کی مبارکباد کو وزیر اعظم نے 1940 کی قرارداد سے جوڑتے ہوئے کہا: پاکستان کے لوگ یہ اپنے آبائواجداد کی دانشمندانہ سوچ اور دور اندیشانہ سیاست کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مناتے ہیں، جنہوں نے پاکستان جیسی آزاد اور خود محتار ریاست کا تصور پیش کیا۔
دوسرا پہلو: پاکستان میں مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت کے لئے وہ آزادانہ ماحول ہے، جس میں وہ اپنی صلاحیتیں اور زندگیاں دونوں، برابری کے مواقع کی روشنی میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ آج کی ڈیپ سٹیٹ آف انڈیا میں ایسا ماحول کسی بھارتی اقلیت کو دستیاب نہیں رہا۔
تیسرا پہلو: بھارت کے ساتھ پُرامن تعلقات کی بحالی، اور Mutual Cooperation کا راستہ بھی وزیر اعظم کے خط میں پھر سے متعین ہوتا ہے۔ جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام بھارت اور پاکستان کے مابین تمام مسائل حل کرنے کیلئے ضروری ہے۔ پھر زور دے کر وزیر اعظم نے لکھا، ''خاص طور سے مسئلہ جموں و کشمیر‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ بامعنی حصول مقصد کیلئے نتیجہ خیز بات جیت شروع کرنے کیلئے وزیر اعظم نے بھارت کو سی بی ایمز دکھانے کا کھلا مشورہ دیا ہے۔
یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ یہ بیان دو خطوں کی شہ سرخی بھی کہلا سکتا ہے اور ضمیمہ بھی‘ جس کا ایک حصہ یوں ہے:''انڈیا اور پاکستان کے مستحکم تعلقات وہ چابی ہے، جس سے مشرقی اور مغربی ایشیا کے مابین رابطے یقینی بناتے ہوئے جنوبی، وسطی ایشیا کی صلاحیتوں کو 'اَن لاک‘ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
ساتھ کہا، ''یہ موقع دو ایٹمی ہمسایہ ملکوں کے تنازعات سے یرغمال ہے‘‘۔ جنرل باجوہ نے بھی تنازعہ کشمیر کو واضح طور پر مسائل کا مرکز قرار دیا۔
عرصے بعد بامعنی باتیں تو ہوئیں... Deep Thoughts

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں