"ABA" (space) message & send to 7575

خلافت ‘القدس اور حضرتِ اقبال ؒ…(1)

اس شہر کی تاریخ سات ہزار سال پرانی ہے جس کی تصدیق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے طویل جیولوجیکل تحقیق اور سروے کے بعد کی۔ 1948ء کے بعد ہالی وڈ میں صہیونی سرمایہ کاری سے ''Story of Goliath and Simpson‘‘ جیسی جتنی بھی پروپیگنڈا فلمیں بنائی گئیں‘ ان میں فلسطینیوں کو غاروں کے باسی اور پسماندہ دکھایا گیا‘ لیکن اسرائیل کے پروموٹر‘ سکرپٹ رائٹر یہ بھول گئے کہ وہ اس پروپیگنڈے کے ذریعے بھی فلسطینیوں کو ہی اس خطے کا مالک مان رہے ہیں۔ اس شہر کو مختلف ادوار میں اُرسلم‘ یروشلم جیسے ناموں سے پکارا گیا لیکن شہر کے جو نام تاریخ میں سب سے زیادہ معروف ہوئے وہ بیت المقدس اور القدس الشریف ہی ہیں۔ مقامی فلسطینی مسلمان اپنے شہر کو الحرم القدس الشریف یا پھر المسجدالاقصیٰ کے نام سے پکارتے ہیں۔ شہر کی تاریخ جتنی پرانی ہے‘ اس شہر کی گلیوں اور آبادیوں میں اس سے کئی گنا زیادہ خون بہائے جانے کی سیاہ تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ اس نسل در نسل اور اس قدر مسلسل ستم گری کے باوجود اس تاریخ کا جو ورق بھی اٹھائیں‘ خواہ وہ عبرانی میں ہو‘ عربی میں یا پھر آرمینی زبان میں ہر جگہ لفظ فلسطین اور فلسطینی موجود نظر آتا ہے۔ یہ شہر 48.23 مربع میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ مکہ مکرمہ میں موجود حرم کعبہ شریف سے بیت المقدس میں موجود مسلمانوں کے قبلہ اول‘ مسجد اقصیٰ‘ قبۃ الصخرہ اور جامعہ عمریہ کا فاصلہ تقریباً 1300 کلومیٹر بنتا ہے۔
بیت المقدس کی تاریخ مغرب کے صہیونی ماہرین اور ان کے سرپرست حکمران جتنی پیچیدہ بنا کر پیش کرتے ہیں‘ فلسطین کا مقدمہ اتنا ہی سادہ ہے۔ آج ایک بار پھر اسرائیلی مقبوضہ فلسطین کا یہ کیس عالمی ہیڈلائنز میں ہے۔ آئیے پہلے اس مقدمے کا مرکزی نکتہ یا خلاصہ دیکھ لیں۔ یہ کیس سٹڈی مشرق کے کسی مسلم ملک کے کسی سکالر کا پیش کردہ نہیں بلکہ یہ مقدمہ آئرش ایم پی مسٹر Richard Boyd Barrett نے آئرلینڈ میں اسرائیل کے سفیر کی موجودگی میں دنیا کے سامنے رکھا۔ Richard Boyd Barrett نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں لاجواب کردینے والے یہ دلائل پیش کئے:
پہلی دلیل: Ambassador میں صاف صاف کہوں گاکہ میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جن کا ایمان ہے کہ آپ کواس ملک (آئرلینڈ) سے نکال دینا چاہئے جس کی وجہ میرے نزدیک آپ کی سٹیٹ کی پالیسی سے تعلق رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر میں یہودی ہوتا اور میں نے کبھی اسرائیل میں قدم تک نہ رکھا ہوتا توبھی میں کل وہاں جاکر شہریت کلیم کرسکتا ہوں لیکن اس کے برعکس وہ 60 لاکھ لوگ جن کی جڑیں وہاں ہیں‘ جسے آج آپ لوگ اسرائیل کہہ کر بلاتے ہیں‘ انہیں زبردستی ان کی زمین پر سے 1947ء‘ 1948ء میں بے دخل کیا گیا۔ کیا یہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیاں تنازعے کی وجوہات میں سے ایک نہیں ہے؟
دوسری دلیل: آپ نے کیسے انہیں ان کے گھروں‘ زمینوں اور دیہات میں واپس جانے کے حق سے محروم کردیا۔ ان کے پاس اپنے وطن واپس جانے کا جائز حق تھا لیکن آپ نے انہیں اس حق سے بھی محروم کردیا۔ آپ نے کس قانونی اختیار کے تحت فلسطینیوں کو وطن واپسی کے حق سے محروم کیا اور آپ نے یہ حق ان دوسرے لوگوں کو کیوں دے دیا جن کا اس زمین سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے‘ آپ اسے فلسطین کہیں یا اسرائیل!
تیسری دلیل: آپ نے اب بھی فلسطینیوں کی سرزمین پر کیوں قبضہ جاری رکھا ہوا ہے‘ اگر آپ اوسلو اکارڈ اور Two-state solution کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو پھر اس معاہدے کے تحت یہ فلسطینیوں کی زمین ہے۔ پانچ لاکھ اجنبی لوگ آپ باہر سے کیوں لائے جن کا زیادہ تر حصہ Oslo Accords کے بعد آیا‘ آپ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ یہ بہت غیرمعمولی واقعہ ہے۔ آپ فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہیں۔
چوتھی دلیل: مسٹر Ambassador کیا آپ نے ہم لوگوں کو بیوقوف سمجھ رکھا ہے؟ آپ سنجیدہ سا منہ بناکر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ امن کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ یہ کیا سنجیدگی ہے‘ آپ جہاں سے چاہیں فلسطینی زمین ضبط کرلیتے ہیں‘ پھرآپ فلسطینیوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کچھ بھی نہ کریں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ فلسطینی لوگ کیا مانگ رہے ہیں۔پانچویں دلیل: آپ جانتے ہیں کہ فلسطینی لوگ کیا مانگ رہے ہیں۔ یہ اس سے بہت کم ہے جو باقی دنیا کے لوگ مانگتے ہیں (کیونکہ میرے خیال میں) تو نسلی برتری اور نسل کشی کا پورا نظام ہی ختم ہوجانا چاہئے لیکن فلسطینیوں نے غزہ میں محاصرہ ختم کرنیکی درخواست کی ہے۔ آپ غزہ میں فلسطینیوں کوانکا آزاد ایئرپورٹ کیوں نہیں دیتے؟ آپ غزہ کی حکومت فلسطینیوں کے کنٹرول میں دے دیں۔ انکے پاس صاف پانی ہوگا یا نہیں؟ ان کے پاس ادویات ہوں گی یا نہیں؟ اسرائیل خود ایک نیوکلیئر پاور ہے‘ اسے جنگ چھیڑکر غزہ میں تباہی پھیلانے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟
قارئین وکالت نامہ‘ جب یہ تحریر آپ کے ہاتھ میں پہنچے گی‘ تب تک قبلہ اول مسجد اقصیٰ اور غزہ کی پٹی کے تازہ فوجی محاصرے کے دو ہفتے مکمل ہوجائیں گے۔ ان دو ہفتوں میں اسرائیل اپنی ساری انتظامی اور عسکری قوت جھونکنے کے باوجود محصور فلسطینیوں کو نہ تو احتجاج سے روک سکا اور نہ ہی وہ شیخ جراح کے علاقے‘ جن کو خالی کرانے کیلئے اسرائیل نے یہ ایکشن شروع کیا تھا‘ کو خالی ہاتھ فلسطینی مسلمانوں سے خالی کرانے میں کامیاب ہواہے۔ اس دوران مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ایک بار پھر آگ لگا کر دیوارِ گریہ کے باہر تشدد پسند اسرائیلی اور صہیونی‘ شیطانی ناچ ناچتے رہے جس کی لائیو سٹریمنگ والی ویڈیو بیت المقدس میں محصور فلسطینی بچیوں اور بچوں نے ساری دنیا تک پہنچا دی۔ اسرائیل نے حالیہ رمضان شریف میں جو جنگی جرائم مقبوضہ بیت المقدس میں کئے آزاد سوشل میڈیا کی موجودگی میں کوشش کے باوجود اسرائیل انہیں چھپانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 1967ء کے 54 سال بعد اب اسرائیلی حکومت کو اپنے آفیشل پیج پر وضاحتیں دینا پڑرہی ہیں۔
یہاں ایک بنیادی نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ عالمی ذرائع ابلاغ اور گلوبل رائے عامہ کی دنیا میں اسرائیلی ایکشن کا جو شدید ترین ری ایکشن ہوا ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا‘ حالانکہ 1979ء میں بھی اسرائیل نے لبنان میں واقع فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرہ اور شتیلا میں تین ہزار سے زائد پناہ گزینوں کا قتل عام کیا تھا مگر تب وہ آواز جو آج پہنچی ہے‘ دنیا کے سارے دارالحکومتوں میں نہیں پہنچ سکی تھی۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل اپنے آپ کودنیا میں پیرس‘ روم‘ سپین اور سوئٹزرلینڈ کے متبادل ٹریولنگ اور سیاحتی مرکز کے طور پر پیش کررہا تھا۔ اس کا وہ تاثر جوپچھلے دوعشروں میں سیاحتی حوالے سے پیش کیا گیا‘ دھماکے سے اُڑگیا ہے۔ اب جب ساری دنیا کے لوگ ایک دن میں 160 میزائل اسرائیل پرگرنے کی خبر اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اورکانوں سے سنتے ہیں توانہیں یہ یقین دلانا کہ یہ میزائل یروشلم سے بہت دور گررہے ہیں‘ ناممکن ہے۔ کوئی اس پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں۔
غزہ آتش وآہن کی بارش کی زد میں ہے۔ ایک ہزار سے زائد بچے‘ عورتیں اور بزرگ فلسطینی زخموں سے چور ہیں جبکہ کچھ میڈیا شہدا کی تعداد چند سو بتاتے ہیں اور کچھ بہت زیادہ۔ اقوام متحدہ کا اجلاس ویٹو ہوجائے گا یا ہوکر بھی بے نتیجہ رہے گا۔ مسلم ممالک فلسطین پر کیا اب کبھی متحد ہوسکتے ہیں؟ ایسے سوال ذہن میں آئیں تو حضرتِ اقبالؒ اور خلافت عثمانیہ دونوں یاد آتے ہیں۔ خلافت کبھی لیگ آف مسلمز تھی‘ لیگ آف نیشنز سے بہت بہتر۔ خلافت جیسی مرکزیت کے بغیر احمد فراز کی نظم 'محاصرہ‘ یاد آتی ہے۔
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کج کلاہ میں ہیں (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں