"ABA" (space) message & send to 7575

India\'s War on Muslims…(2)

فادر سٹین کا کیس صرف 84 سالہ بیمار بزرگ کی گرفتاری کے دوران مارے جانے کا کوئی عام مقدمہ نہیں بلکہ بھارت میں مسلم‘ سکھ‘ عیسائی کے ساتھ ساتھ ذات پات کی تقسیم میں ذلت کی زندگی گزارنے پہ مجبور دلت ہندوئوں کے دکھوں کا کیس سٹڈی بھی ہے۔
2018ء میں گرفتاری کے بعد بیمار فادر سٹین کو تقریباً ڈیڑھ سال پہلے Covid-19نے آ گھیرا۔ ضعیف العمری کی وجہ سے فادر سٹین گلاس سے پانی پینے کی صلاحیت سے بھی معذور ہو گئے۔ اُنہوں نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ انہیں کولڈ ڈرنکس پینے والا straw گھر سے منگوانے کی اجازی دی جائے۔ہندوستان کے نظامِ انصاف نے بیمار بزرگ پادری کو نلکی سے پانی پینے کی اجازت تک نہ دی ۔آپ اسے فادر سٹین کے ساتھ ظلم کی انتہا اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ شرمناک غیر انسانی سلوک کا دل دُکھا دینے والا ریاستی رویہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انڈین ریاست ان بدسلوکیوں کو روکنے کے بجائے ان کی سہولت کار بن چکی ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے لیے انصاف کا مطلب ہے حشر کے دن تک انتظار۔نریندر مودی کے تخلیق کئے گئے بھارتی سماج میں بھارت کے مہاتما موہن داس کرم چند گاندھی جی اب ہیرو نہیں رہے بلکہ اُن کی جگہ ارنب گوسوامی سکول آف تھاٹ نے لے لی ہے۔ مودی راج کے لے پالک ارنب گوسوامی فاکس نیوز کے میزبان Tucker Carlson کہلانے کے شوقین ہیں۔ ان کے ری پبلک ٹی وی میں جو کچھ کہا جائے وہ تھوڑی دیر میں مودی گورنمنٹ کی پالیسی بن جاتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک انڈین کالم نگار رانا ایوب اور انڈین کانگریس کے تین مسلمان ممبرز کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان لوگوں نے ٹوئٹر اکائونٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی تھی جس میں ایک مسلمان بزرگ کو بھارتی ریاست ہریانہ میں ہندو گینگ گھیر کر تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔ گوسوامی اور بی جے پی کی ریاستی حکومت نے ویڈیو کو ناقابلِ یقین کہہ کر تشدد کو گود لے لیا۔ مسلم بزرگ پر تشدد کرنے والے بچ گئے اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ مذہبی تنائو بڑھانے اور'' مِس انفارمیشن‘‘ پھیلانے کے الزام پر ان چاروں مسلمانوں کے خلاف پولیس کارروائی ہوئی۔
دنیا بھر میں مذہبی بنیاد پر انسانوں کی نسل کشی اور Ethnic Cleansing کے معاملات کی ممتاز اتھارٹی مانے جانے والے ڈاکٹر Gregory Stanton نے پچھلے سال عالمی اداروں کے نام وارننگ جاری کی تھی۔ اس توجہ دلائو نوٹس میں ڈاکٹر گریگری نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف مقبوضہ کشمیر اور انڈیا میں بد ترین نسل کشی کی تیاری چل رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عالمی برادری کا رد عمل اس سے زیادہ لا تعلق نہیں رہ سکتا۔
حال ہی میں بھارت کے میگزین The Wire نے کہا ہے کہ وہ مذہبی نفرت پر مبنی پُر تشدد حملے رپورٹ کرنے والے صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ میگزین نے ہریانہ میں مسلمان بزرگ پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے پر باقاعدہ ادارتی بیان جاری کیا جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ''یہ واقعات کے آفیشل ورژن کے علاوہ کسی بھی قسم کی رپورٹنگ کو criminalize کئے جانے کی کوشش ہے‘‘ اور یہ کہ یہ رپورٹنگ ''کئی میڈیا آرگنائزیشنز کی جانب سے درست اور سچی رپورٹس پہ مبنی تھی اور اس کی بنیاد‘ مظلوم کا واقعے کے بارے میں بیان تھا‘‘۔
صرف ایک سال کے عرصے میں ڈاکٹر Gregory Stanton کی جاری کردہ وارننگ اب جمع ہونے والے طوفان کے کالے بادل میں تبدیل ہو چکی ہے جو بھارت کے سماجی اُفق پر کھلی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے‘ جس کے لیے ہندو نیشنلسٹ سیاسی جماعتیں ڈٹ کر جس طرح سے بیان دے رہی ہیں اُس پر مبنی چند کھلم کھلا نعرے یہ ہیں:
پہلا نعرہ: دہلی میں مسلم سٹریٹ ہاکرز یعنی ریڑھی بانوں کو ان کے ہندو حریف ہاکرز نے لائسنس ہونے کے باوجود گلیوں سے بے دخل کر دیا ہے۔ ان ہندو حریف کاروباریوں نے ہاتھ سے ریڑھی چلا کر روزی کمانے والے مسلمانوں کو ''سٹریٹ وینڈر جہاد‘‘ کے نام پر بے روزگار کیا۔ ان مسلمان ہاکرز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
دوسرا نعرہ: مودی نواز اور بی جے پی کی ہم نوا پارٹیاں مسلمانوں کے خلاف لینڈ جہاد میں شریک ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی جدّی پشتی یا خریدی ہوئی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنا جائز ہے اور مسلمانوں کو اُن کی جائیداد سے بے دخل کرنا نئے بھارتی سماج میں دیش بھگت ہونے کی علامت ہے۔
تیسرا نعرہ: یہ نعرہ مسلمانوں کو ''اکنامک جہاد‘‘ ،''کورونا جہاد‘‘ ،''ہسٹری جہاد‘‘ اور''میڈیا جہاد‘‘ کے ذریعے سے نئے بھارتی سماج میں زندہ زمین میں گاڑنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جب سرکاری سرپرستی میں چلنے والی اس طرح کی نفرت انگیز تحریکوں کی وجہ سے نہتے مسلمانوں پر تشدد پسند ہتھیار بند ہندو گروہ حملہ کرتے ہیں تو ان مظلوم مسلمانوں کے پاس کوئی ہمدرد ہوتا ہے اور نہ ہی کریمنل جسٹس سسٹم جہاں وہ فریاد کر سکیں۔ بھارتی پولیس اور سکیورٹی کے اداروں کو بھی ہندو بنیاد پرستی کی پالیسی پر چلا لیا گیا ہے۔ یہ حقیقت پولیس کی حراست میں مسلمانوں کی ہلاکتوں اور کسٹوڈیل تشدد میں حالیہ اضافے کے غیر جانب دار اعداد و شمار کے ذریعے سامنے آئی ہے۔
دنیا بھر میں حراستی تشدد اور اموات کے حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف 2019ء میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور اصلاحی افسران کی تحویل میں 1731 لوگوں کو جان سے مار دیا گیا‘ جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ دلت طبقات کے لوگ بھی دورانِ حراست مارے جانے والے لوگوں میں شامل تھے۔
بھارت سے سامنے آنے والی ایک fact finding رپورٹ میں یہ ہولناک اقرارِ جرم ہوا کہ 2020ء کے دہلی فسادات کے دوران پولیس افسران نے 52 مسلمانوں کی ہلاکتوں میں حصہ لیا تھا۔ اسی رپورٹ میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں مسلم خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے واقعات‘ مسلم کش تشدد میں پولیس کی براہ راست شرکت اور گھروں میں گھس کر بدترین بدسلوکی میں ملوث ہونے کے ثبوت بھی شامل ہیں۔
مودی سرکار کی سرپرستی میں جاری وار آن مسلمز کے خلاف بہت سے اہم عالمی فورمز پر آواز اُٹھ رہی ہے۔ یہ فورمز بھارت کے اینٹی دہشتگردی قوانین کو ٹیلر میڈ اینٹی مسلم لا کہتے ہیں۔ فارن پالیسی میگزین میں روی اگروال نے '' Why India's Muslims are in great danger?‘‘ کے عنوان چشم کشا تفصیلات شائع کی ہیں۔ آشوتوش وارشنے جو برائون یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں‘ کی انعام یافتہ تصنیف میں بھی بھارت میں نسلی تقسیم کے دوران سماجی زندگی میں سکھوں اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی تفصیلات جمع کی گئی ہیں‘ روی اگروال نے بھی اس موضوع میں حصہ ڈالا ہے۔ اس نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی وجوہات منفرد انداز میں اس طرح سے جمع کی ہیں۔ ''Your existence is reason enough‘‘ یعنی مودی کے انڈیا میں مسلمانوں کا وجود اُن پر تشدد کے لیے معقول وجہ ہے۔
کوئی حد بھی ہے آخر
سنگٹھنیوں کے مظالم کی
کہ ان کے جورِ پیہم پر ہے
فطرت اشک بار اب تک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں