"ABA" (space) message & send to 7575

جعلی ووٹ اور ای وی ایم کا خوف

اب بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ صرف ایک صوبے میں چالیس لاکھ سے زیادہ بلیوں کے تھیلے برآمد ہوئے۔ تردید آئی تو صرف اتنی سی کہ چند ہزار یا چند سو جاری کئے گئے حالانکہ اب تو قوم جان چکی ہے‘ دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کے لیے صرف ایک عدد ایجنٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو بھی کافی ہوتا ہے۔ چند سو غدار یا چند ہزار دہشت کار تو قیامت کی نشانیاں سمجھ لیں۔ بہرحال جعلی شناختی کارڈ کسی اجنبی دشمن کے ہاتھ پکڑا دینا‘ اُسے چند ڈالروں کے عوض پاکستان کی شناخت کی ٹوپی پہنا دینا‘ صرف تعزیراتِ پاکستان کا جرم نہیں‘ پورے پاکستان سے سنگین غداری ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے اندرونِ سندھ کی سیاست میں ایک دوسرے سے منہ پھیرے ہوئے سیاسی لوگ اب اچانک ایک دوسرے کو منہ لگا رہے ہیں۔ جعلی شناختی کارڈ کی کہانی کے سیاسی تانے بھی اس سے کچھ ملتے جلتے لگتے ہیں۔ شاید لوگوں کو احساس ہوا کہ سب مل کر زور لگائیں گے تو جعلی ووٹ کے طوفان کو روک پائیں گے۔ 2002ء کے الیکشن میں اسلام آباد کے غربی حلقے میں ہزاروں افغانوں کے جعلی ووٹ درج ہوئے۔ ظاہر ہے اُن کو پہلے جعلی شناختی کارڈ بنا کر دیے گئے تب ہی اُن کا ووٹ رجسٹر ہوا۔ پھر چشمِ فلک اور سی سی ٹی وی کیمروں نے اٹک اور لاہور کی جانب سے سینکڑوں بسوں میں پردہ دار ووٹروں کو طلوع آفتاب سے پہلے کیپٹل آف نیشن میں ''لینڈ‘‘ کرتے ہوئے دیکھا۔ بہت بعد میں ایک تحقیقاتی رپورٹ سے پتہ چلا کہ یہاں ایک ایک فلاحی سینٹر‘ خدمتِ خلق کے مرکز اور حجرے کے ایڈریس پر ایک ایک بلڈنگ میں سینکڑوں ووٹ درج تھے۔ اس طرح کے گھوسٹ ووٹوں کو ضمنی ووٹرز لسٹ کہہ کر صرف مطلوبہ اُمیدوار اور اس کے سرپرست پولنگ آفیسرز اور پولنگ ایجنٹوں کو تھما دیا گیا تھا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ ملک کی تاریخ کے سب سے مقدس این آر او کی داستانِ ہوش رُبا کا ذکر ہے جسے بعض نکتہ دانوں نے مشرف کی وردی کو صدارتی ووٹ دینے والے ملا ملٹری الائنس کا نام دے ڈالا تھا۔
راوی کہتا ہے کہ اسی طرح کے کرشماتی الیکشن میں ایک حاجی صاحب ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ سٹیشن پر پہنچے۔ حاجی صاحب نے اپنا شناختی کارڈ پولنگ سٹاف کو پیش کیا پولنگ بوتھ کے پریزائڈنگ آفیسر نے ایک نظر حاجی صاحب کے شناختی کارڈ پر ڈالی دوسری نظر اُن کے چہرے پہ۔ پولنگ آفیسر کہنے لگا کہ آپ میاں بیوی دونوں اکٹھے ووٹ ڈالنے کیوں نہیں آتے؟ پھر بتایا کہ آپ کی بیگم صاحبہ ابھی ابھی ووٹ ڈال کر گئی ہیں۔ حاجی صاحب نے یہ سنتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ پولنگ سٹاف نے انہیں دلاسا دیا‘ پانی آفر کیا اور پوچھا کہ حاجی صاحب آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حاجی صاحب نے جواب دیا کہ میں اپنی بد قسمتی پہ رو رہا ہوں۔ میں تھوڑی دیر پہلے پہنچ جاتا تو میری ملاقات میری بیگم سے ہو جاتی جو 23 سال پہلے مجھے اکیلا چھوڑ کر دنیا سے چلی گئیں!
اس الیکشن کے 16 سال بعد 2018ء میں پہلی بار ووٹروں کی رجسٹریشن کا نظام بدلنا شروع ہوا‘ یعنی کوئی بھی شخص جو NADRA میں بطور پاکستانی شہری رجسٹر ہے وہ دو جگہوں میں سے ایک پر ووٹر کے طور پر اپنا نام رجسٹر کرا سکتا ہے۔ پہلا ایسے ووٹر کا مستقل پتہ ہے جس کا مطلب ہوا اُس کا گائوں‘ گوٹھ‘ محلہ‘ تحصیل‘ ضلع یا شہر۔ دوسری صورت میں اُس کا وہ عارضی پتہ جہاں پہ اُس کی جاب یا وقتی رہائش ہے۔ وہاں پر بھی اُس کا ووٹ رجسٹر ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے ایک ایک ووٹر کئی کئی وارڈز‘ حلقہ انتخاب یا شہروں میں اپنا ووٹ درج کرا سکتا تھا۔ اس ووٹنگ پیٹرن کے نتیجے میں وہ ووٹر جن کے ووٹ مِڈ نائٹ جیکالز ڈالا کرتے تھے‘ وہ سلسلہ رک گیا۔ ماسوائے جعلی شناختی کارڈ والے ووٹروں کے۔
آپ اسے ون مین ون ووٹ کا صحیح معنوں میں نقطۂ آغاز کہہ سکتے ہیں۔ ملک کے پس ماندہ علاقوں اور وڈیرے کی طاقت کے محاصرے میں آئے ہوئے غریب ہاریوں کی عورتوں سے ایک دن میں تین تین جگہ پر بھی ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ اس طریقہ ووٹنگ یا طریقہ واردات کی لا تعداد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جہاں بڑی تعداد میں بیلٹ پیپرز پر ایک ہی آدمی ٹھپے مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ ون مین ون ووٹ نے کئی بڑے شہروں میں بڑے سیاسی اپ سیٹ کر دکھائے جس کی ایک وجہ مستقل یا عارضی پتے پر ووٹر زرجسٹریشن والی چھوٹی سی الیکشن ریفارم تھی۔
کچھ ماہ پہلے حکومت نے الیکٹورل ریفارمز کا جو ایجنڈا قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات کے ایکٹ کے طور پر منظور کرایا اُس سے گھبرانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے‘ اور اُس کی مخالفت کی وجہ کون سی ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے تین نکات پر نظر ڈالنا ضروری ہو گا۔
پہلا نکتہ: ہم سب جانتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات کے بعد جتنے بھی جنرل الیکشن ہوئے اُن کے پراسیس اور نتائج پر سخت اعتراض سامنے آتے رہے۔ اکثر الیکشن کو آر اوز کا الیکشن کہا گیا۔ لیکن یہ بھی ہمارا تلخ تاریخی ریکارڈ چلا آتا ہے کہ 70 سال بعد بھی کسی حکومت نے الیکشن کے پراسیس کو ریفارم کرنے کی کوشش نہ کی حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان سمیت ملک کی کئی عدالتوں نے انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر فیصلے جاری کئے۔ ان فیصلوں میں آئی ووٹنگ اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے سے انتخابی دھاندلی کو روکنے کے احکامات صادر ہوئے۔ اس سلسلے کا آخری اور اہم ترین فیصلہ صدارتی ریفرنس پر آیا۔ یہ ریفرنس پچھلے سال سینیٹ الیکشن سے پہلے صدر پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت جاری کیا گیا جس میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے سینیٹ الیکشن کو فیئر‘ فری اینڈ ٹرانسپیرنٹ بنانے کا آرڈر دیا گیا تھا۔ اس تناظر میں پاکستان کے پاس دو ہی آپشن موجود ہیں‘ ایک مسلسل عدالتی احکامات اور بار بار کے انتخابی تجربات کی روشنی میں الیکشن ریفارمز پارلیمنٹ منظور کرے جبکہ دوسرا آپشن وہی ہے کہ ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور اُٹھے اور لوگوں کو انتخابی نظام پر عدم اعتماد کے سوا کوئی راستہ نظر نہ آئے۔
دوسرا نکتہ: حالیہ انتخابی اصلاحات کا بل جو اس وقت سینیٹ آف پاکستان کی سٹینڈنگ کمیٹی میں زیرِ تجویز ہے اُسے غور سے دیکھ لیا جائے۔ بل پر بات کرنے والے 99 فیصد سے زیادہ لوگ بل کو پڑھنے کی زحمت نہیں کر رہے۔ آپ ساری تنقید اُٹھا کر دیکھ لیں‘ اس میں فلاں نے یہ اعتراض کیا اور فلاں کا اعتراض یوں ہے کے علاوہ کوئی تحقیقاتی سوال یا الیکشن ریفارم کے لیے متبادل قانونی تجویز نظر نہیں آئے گی۔
تیسرا نکتہ: اس وقت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) ساری دنیا میں جانی پہچانی ٹیکنالوجی ہے۔ جسے دیکھے اور آزمائے بغیر اس میں سے کیڑے نکالنا اور ایسے زمانے میں جب اربوں ڈالر روزانہ کی ای بینکنگ ہو رہی ہے‘ الیکٹرانک مشین کو مسترد کرنے کی وجہ کیا ہے؟
جعلی ووٹ اور ای وی ایم کا خوف دونوں کو ملا کر دیکھیں تو الیکٹرانک ریفارمز کی مخالفت کے تھیلے سے بھی بہت سی بلیاں بر آمد ہوتی نظر آ جائیں گی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں