"ABA" (space) message & send to 7575

تین دوست اور اُن کے آپشن

آپشن کی بحث تاحیات نااہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم کی بیماری سے شروع ہوئی تھی۔ اب یہ بحث شیطان کی آنت جتنی لمبی ہو چکی ہے۔ آپشن کے دو سب سے بڑے موضوع گوروں کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ پہلا نواز شریف صاحب کے ویزے میں توسیع کرنے سے یو کے حکومت کا انکار جبکہ دوسرا 31 اگست کے بعد امریکی فوج کا افغانستان میں مزید قیام سے انکار۔ دونوں کے نتائج آپشن کہلاتے ہیں۔
آپشنز کی بحث میں تین دوستوں کے مفادات خطرے میں ہیں یا نشانے پر۔ تینوں ایشیا کے علاقائی امور پر ایک جیسی رائے رکھتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں بھی۔ چلئے بڑے دوست سے شروع کر لیتے ہیں۔ پرائم منسٹر آف انڈیا نریندر مودی‘ جو نواز شریف صاحب کے ایسے عزیز دوست تھے جن کے لیے وہ پاکستان میں بغیر اطلاع‘ ویزا‘ امیگریشن کے دراندازی کرکے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے سے بھی نہ کترائے‘ ان دنوں افغانستان کی تازہ صورتحال میں ان کے مفادات‘ بھارت کی تنصیبات اور جنگی آلات سمیٹے اور لپیٹے جا رہے ہیں‘ جن میں سے تازہ ترین تصویر اس ایم آئی35 ہیلی کاپٹر کی ہے جو مودی حکومت نے اپنے دوست اشرف غنی کو تحفے کے طور پر اپنے ہی ملک میں بمباری کرنے کیلئے خلوصِ دل سے پیش کیا تھا۔ اس گن شپ ہیلی کاپٹر پر دو دن پہلے طالبان جنگجوئوں نے قبضہ کرلیا۔ ان حالات میں مودی اپنے مفادات افغان سرزمین سے لپیٹے جانے کے ساتھ ہی آپشنز کی ناپ تول میں جُت گئے ہیں۔
لپیٹے جانے سے یاد آیا کہ روس کے خلاف افغان جنگ میں ناردرن الائنس کے سب سے تگڑے سمجھے جانے والے وارلارڈ رشید دوستم تھے۔ ان کی تنظیم گِلم جِم کے نام سے پہچانی جاتی تھی جس کا مطلب ہے رولنگ کارپٹ‘ یعنی جس علاقے سے گلم جم کے لشکروں کا گزر ہوتا تھا‘ وہاں کی ہر چیز اور ہرعمر کے لوگ رولنگ کارپٹ کی زد میں آجاتے تھے۔ رشید دوستم اب مارشل رشید دوستم کہلاتے ہیں اور افغانستان کی حکومت میں شریکِ اقتدار بھی ہیں۔ طالبان فائٹرز نے مارشل رشید دوستم کے محل میں بیٹھ کر اجتماعی کھانا کھانے کی تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی ہے۔
یو ایس ایڈمنسٹریشن میں پنٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے اپنے 20 سالہ حلیف افغان صدر صاحب کو تین تازہ خوشخبریاں سنا دی ہیں۔ یہ تینوں خوشخبریاں امریکہ بہادر کے ہوم میڈ تازہ ترین آپشن ہیں۔ پنٹاگون کے ترجمان جان کربی نے پریس بریفنگ میں حق دوستی تین جملوں میں یوں ادا کیا: پہلا جملہ: ہمیں 31 اگست تک افغانستان سے یو ایس آرمی کے انخلا کا ٹاسک ملا ہے جس کو ہم ہر صورت میں پورا کریں گے۔ افغانستان میں یو ایس آرمی کے قیام میں کوئی توسیع نہیں ہو گی۔ دوسراجملہ: افغانستان کا دفاع کرنا تین لاکھ افغان فوج کی ذمہ داری ہے اور کسی کی نہیں۔ تیسرا جملہ: افغانستان کے فیصلے افغانوں نے خود کرنے ہیں۔ وہاں کے صوبائی دارالحکومت بھی افغانستان کے ہی ہیں‘ جن کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری افغانستان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
نواز شریف کا آپشن اور اس آپشن کے بچے دو طرح سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک آپشن کو شریفانہ آپشن کہہ سکتے ہیں۔ ایسے آپشن ساری دنیا کے قانون پسند لوگ ہمیشہ سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ وہ ہے سزا دینے والی عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے اور اپیل سننے والی عدالت میں پیش ہوجانے کا۔ یہ واحد باعزت آپشن ہے۔ گلیوں گلیوں‘ قریہ قریہ جگ ہنسائی اور ملکوں ملکوں میں بے توقیری کے بجائے وطن واپسی سے اچھا اور کیا آپشن ہوسکتا ہے؟ مگر نواز شریف کے ارد گرد ان کی تین نسلوں اور چھ رشتوں کے مفروروں کا گھیرا ہے۔ لندن کے باخبر وکیل بتاتے ہیں کہ نواز شریف کے قریبی اس آپشن کو نئی لش پش رولز رائس چھوڑ کر پرانی کھٹارا پولیس وین میں بیٹھنے کا آپشن قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عزت صرف ووٹ کی ہوتی ہے‘ قانون کا احترام کس چڑیا کانام ہے؟ لیڈروں کو عزت نہیں سہولت دیکھنی چاہئے۔ اس لئے بیماری کے نام پر مفروری میں بے عزتی کا سوال کہاں سے آگیا؟
لندن کے باخبر قانونی حلقوں‘ جو نواز شریف اور ان کے مفرور رشتے داروں کے ساتھ کندھے رگڑتے ہیں‘ کے مطابق نواز شریف جس دلدل میں چلے گئے وہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ بظاہر آلِ شریف کے قریبی یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ انڈیا کا مودی‘ یو کے کی پریتی پٹیل کے ذریعے کام دکھا دے گا۔ اس سازشی تھیوری کا مرکزی نکتہ کراچی کے مفرور کا حوالہ دے کر بیان کیا جا رہا ہے مگر وہ حوالہ نواز شریف کے کسی کام نہیں آسکتا کیونکہ اب ایشیائی‘ علاقائی اور عالمی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے ادارے‘ افراد سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ ایسا سیاستدان جسے کسی ملک کی آخری عدالت تاحیات نااہل قرار دے چکی ہے‘ نااہلی کے فیصلے کے خلاف نگرانی بھی خارج ہوگئی ہے‘ جس کی پارٹی میں نظریے اور بیانیے دونوں کا فساد پایا جارہا ہے‘ اس کا مقابلہ پاکستان کے سب سے بڑے ساحلی صنعتی شہر کے مفرور سے نہیں کیا جا سکتا۔
اگرچہ افسوس سے کہنے والی بات یہ ہے کہ نواز شریف صاحب نریندر مودی کیلئے تو اثاثہ ہو سکتے ہیں لیکن برطانوی مفادات کیلئے ان کی حیثیت زیرو اور قیمت صفر ہے۔ عالمی پریس میں نوازشریف کی سزا اور مفروری کے پس منظر میں جب بھی کچھ چھپتا ہے تو ان کو ایک صوبے کی پارٹی کا لیڈر کہہ کر پہچان دی جاتی ہے۔ نواز شریف کے آپشنز کے حوالے سے تیسری اہم بات وہ ہے جس کی طرف پاکستانی تجزیہ کار نہیں گئے۔ نواز شریف کے لندن میں لمبا عرصہ رہنے کی اصل وجہ اور ان کے ویزے کی Plea یہ تھی کہ وہ علاج کیلئے لندن آئے ہیں۔ پرائیویٹ علاج کیلئے لندن جانے والوں کو 11 مہینے کا ویزا ملتا ہے۔ نواز شریف کے پاس نہ تو اب یو کے کا ویزا ہے اور نہ ہی پاکستانی پاسپورٹ۔ ایسی صورت میں Valid پاسپورٹ کے بغیر کسی ویزے کی نہ کوئی انتظامی توسیع دی جاسکتی ہے اور نہ ہی عدالتی توسیع۔ ویزا ایک ایسا ڈاکومنٹ ہے جو صرف Valid پاسپورٹ پر چسپاں کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کے قانونی اور عدالتی کلچر کو سمجھنے والے یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہاں عدالت کے معاملات میں کوئی بھی وزارتی مداخلت یا حکومتی اور سیاسی اثرورسوخ سرے سے دستیاب نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ایک مشہور برطانوی کیس کی ٹائمنگ نواز شریف کی 1997ء والی حکومت سے ملتی جلتی ہے۔ تب لندن میں چِلی کے ڈکٹیٹر جنرل Augusto Pinochet Ugarte کو ملک واپس بھجوائے جانے کا مقدمہ چل رہا تھا جبکہ پاکستان میں نواز شریف کے ہینڈ پِکڈ نون لیگی سینیٹر کی سربراہی میں احتساب سیل نون لیگ کے مخالفوں کی گرفتاریاں کر رہا تھا۔ یاد رہے کہ آخرکار Augusto Pinochet Ugarte کو گرفتار ہو کر اپنے ملک واپس جانا پڑا تھا۔ یوکے امیگریشن ٹریبونل کے ساتھ ساتھ یو کے اپر ٹریبونل میں اپیلوں کی شنوائی صرف گرائونڈز آف لاء پہ ہوتی ہے۔ فیکٹس پر تقریباً نہیں۔ ان کے مزید سٹے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ویزے میں توسیع کیلئے میڈیکل گرائونڈ کی ناکامی ہے۔ اگر نواز شریف کی اپیل امیگریشن ٹریبونل کے بعد جوڈیشل ریویو میں سیدھی ہائی کورٹ پہنچے تو وہاں ایسا بیمار شخص جس کے گھومنے پھرنے‘ میچ دیکھنے‘ واک کرنے اور ریسٹورنٹس میں کھانے پینے کی بے شمار ویڈیوز موجود ہوں‘ وکیل مزید سٹے کیلئے اس کی کم ہی مدد کرسکتے ہیں۔
سیاسی پناہ کیلئے امیگریشن کائونٹر سے لے کر پہلی انٹری پر وکیل کے دفتر تک اسائلم مانگ لینے کی شرط پہلی ہے۔ یوکے بارڈر ایکٹ 2007ء بارہ مہینے سے زیادہ بیرون ملک سزا یافتہ مجرموں کی ملک بدری کا قانون بھی موجودہے لہٰذا اب سیر پر قانون کے سائے غالب نظر آتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں