"ABA" (space) message & send to 7575

کمرہ نمبر 21

پرنسپل صاحب آگے بڑھے‘ اُن کے ساتھ ہاسٹل وارڈن تھے۔کہنے لگے: یہ ہے کمرہ نمبر21۔ اس سے آگے ایک پوراحیرت کدہ تھا۔سناتن دھرم‘مسلمانوں کا ہلال‘حضرت دائودؑ کا ستارہ‘سکھ مذہب کی کرپان‘ حضرت عیسیٰ ؑکی صلیب‘ہندو ترشول۔ کالج کی وسیع و عریض زمین کے تیسرے حصے سے بھی زیادہ سرکاری بلکہ تعلیمی سرزمین پر لینڈ مافیا کی قبضہ کالونی۔
گزری جمعرات کی شام والد صاحب نے بتایا کہ صبح کورٹ جانے سے پہلے مجھے اُن کے ساتھ کہیں چلنا ہے۔ہم گھر سے نکلے تو گاڑی کا رُخ پنڈی کی طرف تھا۔مری روڈ سے اصغر مال روڈ کی طرف مڑ گئے‘ میں نے پوچھا کہ ہم نے جانا کہاں ہے؟ پتہ چلا کہ ہم پوٹھوار کی سب سے بڑی اور قدیم درس گاہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج جا رہے ہیں جہاں سے میرے والد صاحب نے اکنامکس کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ مری روڈ سے مغرب کی جانب دس بارہ منٹ کے فاصلے پر بائیں ہاتھ پہ یہ سڑک بنّی چوک کی طرف مڑتی ہے جہاں پوٹھوار کے سب سے لذیذ کھابے ملتے ہیں‘ ناشتے سے لے کر مِڈ نائٹ فوڈ تک۔یہاں اکثر گلیاں اور بازار بہت پرانے اور تنگ ہیں لیکن چھوٹی سی دکان میں موجود لذت اور ساتھ ساتھ دکان کی قیمت بھی آدمی کو ہکا بکا کر دینے کیلئے کافی ہے۔ یہاں ہر قسم کا آرگینک کھانا پایا جاتا ہے۔ اصغر مال روڈ پر 500گز مزید آگے جائیں تو دائیں ہاتھ مڑنے والی سڑک سیٹلائٹ ٹائون کو جاتی ہے جس کے شروع میں سٹوڈنٹس فاسٹ فوڈز کی دکانیں ہیں جبکہ بائیں ہاتھ پر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج (اصغر مال)کا وسیع و عریض کمپائونڈ ہے۔
میں نے خاموشی توڑنے کے لیے والد صاحب سے پوچھا کہ کالج واپس جاتے ہوئے آپ کو کیا یاد آرہاہے؟کہنے لگے:ساحر لدھیانوی کی نظم نذرِ کالج۔پھر اُس کا مطلع سنایا :
اے سر زمینِ پاک کے یارانِ نیک نام
بہ صد خلوص شاعرِ آوارہ کا سلام
اے وادیٔ جمیل مرے دل کی دھڑکنیں
آداب کہہ رہی ہیں تری بارگاہ میں
بڑے گیٹ کے عین سامنے پرنسپل جناب پروفیسر اصغر ملک اکیڈیمیا کے ساتھ پرنسپل آفس کے باہر کمال مہربانی سے موجود تھے۔وائس پرنسپل صاحب‘ہاسٹل وارڈن اور مختلف شعبہ جات کے ہیڈز آف ڈیپارٹمنٹ بھی۔کالج کے اساتذہ اکرام نے پوچھا‘آپ کتنے عرصے بعد اس کالج میں واپس آئے ہیں؟والد صاحب نے بتایا41سال بعد۔وہ بڑے احترام سے ایک ایک استاد کے سامنے گئے‘سب کو مؤدبانہ سلام کیا اور ہم پرنسپل آفس میں چلے گئے‘جہاں فوٹو سیشن ہوا۔پرنسپل صاحب نے پوچھا کہ آپ کو یہ آفس یاد ہے؟والد صاحب نے کہا : کیوں نہیں سر‘1977ء کے ہنگامہ خیز سال میں یہاں داخلہ لیا تھا اور سٹوڈنٹس یونین سرگرمیوں کی وجہ سے اس کمرے میں بڑی پیشیاں بھگتی ہیں۔جس پر محبت اور شفقت سے بھرپور بڑا قہقہہ لگا۔ یہاں سے کالج کا سب سے پرانا بلاک دکھانے کیلئے لے جایا گیا۔ 108سال پہلے سناتن دھرم (یعنی مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی)نامی تنظیم نے یہ میگا سٹرکچر کھڑا کیا تھاجو آج بھی پوری شان اور آب و تاب سے قائم ودائم ہے۔اس کے چار بڑے بلاکس ہیں جہاں کلاس رومز اور مختلف ڈگری کے شعبہ جات کے ایچ او ڈیز کے آفس واقع ہیں۔ ہر بلاک کے ماتھے پر ہلال‘سٹار آف ڈیوڈ‘گرو جی کی کرپان‘کرسچین کراس‘ ترشول‘اینٹوں سے بلڈنگ کے ماتھے پر بڑی مہارت سے بنائے گئے ہیں۔عمارت میں ہر بلاک مسلم اور کرسچین طرزِ تعمیر کا امتزاجی نمونہ ہے۔ پرنسپل صاحب کے آفس کے سامنے دو بلاکس کے درمیان قائد اعظم ہال آتاہے جہاں کالج کے اساتذہ اور طلبہ کی تصنیف شدہ کتابوں کی نمائش اور تقریبِ پذیرائی منعقد ہوئی۔
قائد اعظم ہال کی ساری سیٹیں بھری ہوئی تھیں اور بہت سے طلبہ و طالبات کھڑے تھے۔ایک طالبہ نے تلاوت ِقرآن حکیم سے تقریب کا آغاز کیا۔ایک سینئر پروفیسر نذیر صاحب نے بڑی دل آویز نعت پڑھی جس کے بعد کالج پرنسپل اصغر ملک صاحب نے کالج کی ہسٹری بتائی اور اس کالج سے والد صاحب کی وابستہ یادوں کا ذکر چھیڑا۔ کہنے لگے: اکثر طالب علم لیڈر ایک بار سٹوڈنٹس یونین میں آجائیں تو پھر کالج سے نکلتے ہی نہیں تھے لیکن آج کے مہمان اور ہمارے طالب علم معاشیات میں 83 فیصد نمبر حاصل کرکے ایسے پاس آئوٹ ہوئے کہ پھر ہمیں دعوت نامہ لکھ کر انہیں آج بلانا پڑا۔
کالج کے ایک انتہائی خوبصورت بولنے والے پروفیسر صاحب سٹیج سیکرٹری تھے۔والد صاحب نے اپنے پرانے کالج کی نئی نسل سے دل کی باتیں کیں‘تجربات شیئر کئے اور نوجوان نسل سے کہا کہ آپ کے پاس آج اپنی آواز ساری دنیا میں پہنچانے کے ٹولز آگئے ہیں۔ آپ اپنے بولنے کا آغاز اپنی ماں دھرتی کی محبت سے کیا کریں۔ساتھ ساحر لدھیانوی کے کچھ اشعار بھی سنائے :
تا حشر یہ حسین فضائیں بسی رہیں
دورِ خزاں میں بھی تری کلیاں کھِلی رہیں
ماضی کا نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا
تیری نوازشوں کو بھلایا نہ جائے گا
گائے ہیں اس فضا میں وفائوں کے راگ بھی
نغماتِ آتشیں سے بکھیری ہے آگ بھی
نغمۂ نشاط روح کا گایا ہے بارہا
گیتوں میں آنسوئوں کو چھپایا ہے بارہا
انہوں نے پرنسپل صاحب کے خط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس خط کے ساتھ اپنی طرف سے سفارشی عریضہ لکھ کر وزیر تعلیم اور قومی ورثہ چودھری شفقت محمود صاحب کو اس سفارش کے ساتھ بھجوایا ہے کہ گورنمنٹ کالج کی بلڈنگ کو ثقافتی ورثے کی عمارات کی فہرست میں شامل کرلیا جائے۔میں نے وزیر تعلیم سے زبانی بات بھی کی ہے تا کہ ہمارا یہ عظیم سرمایہ آنے والی نسلوں کیلئے ورثے کے طور پہ محفوظ ہوجائے۔
تلاوت قرآن پاک سے شروع ہونے والی تقریب قومی ترانے پہ ختم ہوئی۔یہاں سے ہمیں پرانے ہاسٹل لے جایا گیا جو کالج کے ساتھ ہی تعمیر ہوا تھا۔یہاں والد صاحب کمرہ نمبر 21میں رہائش پذیر تھے۔ ہاسٹل میں مقیم طالب علم بڑی محبت سے کافی دیر باتیں کرتے رہے‘ سیلفیاں بنائیں۔ ہاسٹل وارڈن صاحب بڑے ایکٹو آدمی ہیں جنہوں نے مختلف مسائل بتائے اور موقع پر موجود اسسٹنٹ کمشنر سٹی اور بلڈنگ ڈپارٹمنٹ کے سب ڈویژنل آفیسر نے انہیں حل کرنے کا اور اے سی سٹی نے کالج کی زمین ناجائز قبضے سے چھڑوانے کاوعدہ کیا۔ ہاسٹل کے باہر ایکڑوں پر پھیلا ہوا کالج سپورٹس گرائونڈ ہے‘اس کی مارگلہ سائیڈ پر فیصل ہال ہے جہاں ماسٹرز کے چھ ڈسپلنز کے کلاس رومز ہیں۔ معاشیات‘انگلش‘جغرافیہ‘اردو‘سٹیٹسٹکس اور کیمسٹری۔ اردو ڈپارٹمنٹ میں لے جایا گیاجہاں طلبہ کے درمیان مختصر شعری مقابلہ سنا۔کالج کی ایک اور خاص بات سٹوڈنٹس کا یونیفارم تھااور ڈسپلن بھی۔
اس کالج کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1947ء میں بھارت کے طول و عرض سے جو لٹے پٹے مسلمانوں کے قافلے آئے تھے‘ اُن کی میزبانی‘ آباد کاری تک یہیں سے ہوتی رہی۔
کالج ڈے آئوٹ تین گھنٹے یوں گزرے جیسے تین شاداب گھڑیاں روح کو سیراب کرتی گزرگئیں۔
گر یاں نہیں‘ یہاں سے نکالے ہوئے تو ہیں
اے مادرِ علمی تیرے پالے ہوئے تو ہیں
اے مادرِ علمی مری اے جنت خیال
ہیں تجھ میں دفن میری جوانی کے چار سال

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں