"ABA" (space) message & send to 7575

(3)…Criminals in Politics

انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بات چل رہی تھی، جن میں سے ایک 25 ستمبر 2018 کو چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک لارجر بینچ نے تحریر کیا، جس میں جسٹس فوہِنٹن پالی، جسٹس اے ایم خان وِلکر، جسٹس ڈاکٹر ڈی وائے چندرا چڈ بھی شامل تھے۔ 120 پیراگرافوں پر مشتمل فیصلہ، یوگندر کمال جسوال بنام سٹیٹ آف بہار کے مقدمے میں اِن لفظوں میں جاری کیا گیا:
''ہمیں پورا یقین ہے کہ ڈیموکریسی کا لاء میکنگ وِنگ اس ملک کو لاحق کرپشن اور کرمینلز اِن پالیٹکس جیسے کینسر کے خاتمے کا ذمہ لے گا۔ ہم سب جانتے ہیں اس خرابی کا اب بھی علاج ہوسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے علاج کا وقت جلدی ہونا چاہئے اور بیماری کی اسی سٹیج پر علاج اچھا ہوسکتا ہے ورنہ کرمینلز اِن پالیٹکس کا رواج جمہوریت کیلئے جان لیوا ہوگا۔‘‘
انڈین سپریم کورٹ نے جو تجویز جمہوریت کی صحت مندی کیلئے دی ہے، وہ معاشروں کی سرحدوں سے ماورا گلوبل سچائی ہے۔ سماج اور علاج کے ذمہ دار اداروں کے دل کے دروازے اور شعور کی آنکھیں کھلنے کے انتظار میں کھڑی گلوبل سچائی۔
دوسری پابندی سپریم کورٹ آف انڈیا نے سیاسی جماعتوں کی طرف سے پراسیس آف سلیکشن برائے امیدوار کے حوالے سے لگائی۔ ہر سیاسی پارٹی کو پابند بنایا گیا کہ وہ تحریری طور پر وہ وجوہات بتائے کہ کرمینل ریکارڈ رکھنے والے کسی امیدوار کو اُن دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں ترجیح دے کر کیوں چنا گیا جو جرائم کے حوالے سے کلین سلیٹ رکھتے تھے۔ سیاسی جماعتوں پر یہ پابندی بھی لگا دی گئی کہ وہ صاف ریکارڈ رکھنے والے امیدواروں کو کلین سلیٹ کے باوجود پارٹی ٹکٹ جاری نہ کرنے کی وجوہات لکھ کر بتائیں گی۔
اس کا واضح مطلب ہے سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی معاملات میں من مرضی کے عشروں سے جو فیصلے کرتی آرہی تھیں، انڈین سپریم کورٹ نے اِس طوفان بدتمیزی کے آگے بند باندھ دیا کیونکہ پارٹی کا جو فیصلہ وجوہات لکھ کر کیا جائے گا، اُن وجوہات کے جائز یا ناجائز ہونے کا معاملہ عدالتیں طے کریں گی۔ اس طرح پہلی بار کسی ایشین ملک میں پولیٹیکل پارٹیز کے اندر جائز، ناجائز قدروں کو جانچنے کا دروازہ کھلا۔
تیسری پابندی: ہم سب جانتے ہیں، ہمارے ہاں اقتدار کی سیاست، اوّل تا آخر میرِٹوکریسی کا گلا گھونٹ کر عام آدمی کے ٹیلنٹ سے راج نیتی میں آگے بڑھنے والوں کے دروازے بند کرتی چلی آئی ہے۔ ایسے وَرکرز جو گلی محلے میں جان کی بازی لگا کر سالوں، عشروں پارٹی کاز کیلئے محنت کرتے ہیں، اُنہیں الیکشن جیتنے کی ''صلاحیت‘‘ کے نام پر بَلی چڑھا دیا جاتا ہے‘ لیکن ترقی کی سیڑھی نہیں چڑھنے دیا جاتا۔ اس طرح کی مثالیں ہر ملک کے ہر علاقے، ضلع، تحصیل، شہر میں موجود ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا‘ اس کیلئے انگریزی میں ایک دلچسپ اصطلاح کو بھی ساتھ میں ایجاد کردیا۔ یہ اصطلاح ''Winnability‘‘ ہے جس کا ترجمہ آپ جیتنے کی صلاحیت کرسکتے ہیں۔ صلاحیت سے مراد، مَسل اینڈ مَنی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے، اور صلاحیت کی یہ دونوں بنیادیں جرم کی دنیا سے زیادہ اور کہیں پائی بھی نہیں جاتیں۔ اب یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ قوموں، ملکوں اور معاشروں کیلئے سب سے بڑی اجتماعی تباہی اور بربادی لانے والا جرم اِکنامک کرائم ہے۔
کچھ ایسی تفصیلات ہمارے انتخابی نظام سے بھی رپورٹ شدہ بھی ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب کے ایک علاقے میں الیکشن میں حصہ لینے والی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو ایسے غیر معروف نام نے شکست دے دی، جس کا اپنا گھی کا بزنس تھا؛ چنانچہ چمکیلے رنگ کی گھی والی بالٹی کھلے عام ووٹ کو عزت دیتی رہی‘ مگر انتخابی قانون اور ملکی انصاف دونوں حرکت میں نہ آ سکے۔ جنرل مشرف صاحب کے دور میں ایک سیاسی گروہ ملّا ملٹری الائنس کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس میں ایک اے ٹی ایم پولٹری والا کی شہرت سے امیدوار بنا اور لاکھوں مرغے تہہ تیغ چلے گئے۔ تب جا کر اس الائنس کا امیدوار کامیاب ٹھہرایا جا سکا۔
انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، سیاسی جماعت امیدوار کو میدان میں اتارنے اور ٹکٹ دینے کے سلیکشن پراسیس کی وجوہات میں امیدوار کی تعلیمی قابلیت، کسی بھی شعبے میں اُس کی اَچیومِنٹس اور دوسرے پارٹی امیدواروں کے مقابلے میں اُس کا میرٹ، سب کو علیحدہ علیحدہ لکھ کر دوسروں پر اُس کی ترجیح کی وجوہات بھی لکھے گی۔ آئندہ صرف پولنگ جیتنے کی صلاحیت امیدواریت کا معیار نہیں بنایا جائے گا۔
چوتھی پابندی: اوپر جو کچھ بتایا گیا وہ محض کاغذی کارروائی نہیں ہو گا۔ اِس کا دو نکاتی حل بھی انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے۔ پہلا نکتہ یہ کہ امیدوار کے سلیکشن پراسیس، اہلیت، میرِٹ اور اَچیومِنٹس کی تفصیل ایک سب سے کثیر اشاعتی مقامی اخبار اور دوسرے نیشنل نیوز پیپر میں پبلش کروائی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ ٹکٹ جاری کرنے والی پولیٹیکل پارٹی اپنے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز، جن میں پارٹی کا فیس بُک اکائونٹ اور پارٹی کا آفیشل ٹویٹر اکائونٹ بھی شامل ہے‘ پر یہ ساری تفصیل نمایاں طور پر ڈالے گی۔
پانچویں پابندی: انتخابی امیدوار کی سلیکشن ہونے کے پہلے 48 گھنٹے کے اندر اندر، اور پھر کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے سے دو ہفتے پہلے یہ تفصیل پبلک کیلئے عام کی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ لگتی ہے کہ اگر کوئی شخص پارٹی کے اندر یا مخالف کیمپ سے اِن معلومات کو چیلنج کرنا چاہے تو اُس کے پاس مناسب فورم تک پہنچنے اور متعلقہ ریکارڈ تک رسائی کا مناسب وقت موجود ہو۔
چھٹی پابندی: امیدواروں کے سلیکشن پراسیس سے گزرنے والی سیاسی پارٹی تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ کی ان ہدایات پر مکمل عمل درآمد کی تفصیل کے ثبوت کے ساتھ الیکشن کمیشن میں سلیکشن آف کینڈیڈیٹ مکمل ہونے کے 72 گھنٹے کے اندر پیش کرنے کی پابند ہوگی۔
انڈین سپریم کورٹ نے سرزمینِ الیکشن کے زمینی حقائق سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کو صرف الیکشن کمیشن تک محدود نہیں رکھا بلکہ ساتھ یہ شرط عائد کردی کہ اگر کوئی سیاسی جماعت عدالتی احکامات پر 100 فیصد عمل درآمد رپورٹ عدالت کے ٹائم فریم میں الیکشن کمیشن کے پاس جمع نہیں کرواتی تو ایسی صورت میں الیکشن کمیشن آف انڈیا ڈیفالٹ کرنے والی پولیٹیکل پارٹی کا معاملہ سپریم میں پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ ایسی خلاف ورزی کو سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کے زُمرے میں سنا جائے گا۔
قانون و انصاف کی دنیا کے بڑے گرو کہتے ہیں: انسان کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون کمی بیشی اور غلطی سے پاک نہیں ہو سکتا‘ اسی لئے ہر ملک میں ہر انسانی قانون میں ترمیم کی اجازت ہے‘ چاہے وہ آئین ہی کیوں نہ ہو۔ سوال یہ ہے، جن ملکوں میں قانون کی حکمرانی ہے اور جہاں جہاں قانون موم کی ناک ہے، اُن کے درمیان فرق کہاں پایا جاتا ہے؟ اس ملین ڈالر سوال کا جواب دیوار پر لکھا ہے۔ نوشتۂ دیوار ہم سب کو پڑھنا پڑے گا۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں