"ABA" (space) message & send to 7575

آہ زادی

سب سے پہلے یہ بات میں نے اپنے گھر میں سنی۔ حیران کن تھی‘ اس لیے کچھ عجب سا لگا۔ پھر دنیا میں انفارمیشن کا سونامی آ گیا۔ کرۂ ارض‘ نیشن سٹیٹس میں تو بٹا رہا لیکن ٹیکنالوجی نے اسے عالمی گائوں میں تبدیل کر چھوڑا۔ اس عشرے میں تقابلی مطالعہ ہو یا تقابلی جائزہ‘ علوم کے درمیان یا پھر قوموں‘ ملکوں اور اُن کی سماجی قدروں یا قوانین کے درمیان‘ ٹَچ سکرین والے موبائل نے معلومات کی سرسوں ہماری ہتھیلی پر جما دی ہے۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہمارا سکولنگ کا دور تھا۔ لاہور کے ایوانِ اقبال میں مجھے والد صاحب کے ساتھ ایک تھنک ٹینک کی دعوت پر گفتگو کے لیے شرکت کا موقع ملا۔ وہ کہہ رہے تھے اور میں حیران ہو رہا تھا کہ امریکہ سمیت دنیا کا کوئی ملک بھی پاکستان کے مقابلے میں Land of Opportunities نہیں ہے۔ پھر میرے لیے قانون کی تعلیم کے لیے انگلستان جا کر ٹھہرنے کا وقت آ گیا۔ تب یہ راز حقیقت بن کر میرے سامنے آ کھڑا ہوا کہ پاکستان واقعی مواقع کی سب سے بہترین سرزمین ہے۔ اس پہ طرفہ تماشا یوں ہے کہ مواقع کے اس سوئمنگ پول (حمام کا دور گزر گیا) میں بے شمار متضاد طبقات اکٹھے ہی بے لباس ہوتے ہیں۔
جناب واصف علی واصف کا یہ قول اب ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے نام سے منسوب کر کے دہراتا چلاجا رہا ہے کہ ہمارا سماج ناشکرے پن کی بیماری کا شکار ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے سوکڑے پن کی بیماری اور ناشکرے پن کی بیماری میں زیادہ فرق نہیں پایا جاتا۔ سوکڑا پن سکڑنے کی طرف لے جاتا ہے جبکہ ناشکرا پن مُکرنے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ ہر مہربانی‘ ہر سہولت‘ ہر کرم اور ہر عطا سے مکر جانے پر۔ اس وقت کرۂ ارض کے گلوبل ویلج میں کوئی 100 فیصد پرفیکٹ سوسائٹی موجود نہیں ہے‘اسی لیے میں نے تقابلی مطالعہ کا لفظ اوپر کے پیراگراف میں استعمال کیا تھا۔
یوں تو آزادی کی بے شمار قسمیں ہیں مگر ظالم استعمار سے کسی مظلوم سرزمین کی آزادی کو ہمیشہ بنیادی آزادی مانا گیا ہے جسے عام طور پر خود مختاری کہتے ہیں۔ اس کے بعد معاشی آزادی‘ مساوی مواقع کی آزادی‘ ادارہ جاتی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کا نمبر آتا ہے۔ پچھلے کئی سو سال اور اس سے پہلے کے کروڑ ہا سال ملا کر بھی اس وقت آزادیٔ اظہار جس عروج پر ہے‘ اُس کی انسانی تاریخ میں پہلے کوئی مثال ہر گز نہیں پائی جاتی۔
سال 1973 میں آئینِ پاکستان کے فریمرز نے اظہارِ رائے کی آزادی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آئین کے ایک ہی آرٹیکل میں شامل کر ڈالا۔ یہ ہے آرٹیکل نمبر 19 جس کی زبان‘ زبانِ حال سے لبرٹی اور ڈیوٹی یعنی فرض اور آزادی میں بیلنس کا نمونہ پیش کرتی ہے۔
آرٹیکل19: اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت‘ سلامتی یا دفاع‘ غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات‘ امن عامہ‘ تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت‘ کسی جرم ]کے ارتکاب[ یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع‘ ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق ہوگا‘ اور پریس کی آزادی ہو گی۔
جی ہاں! پاکستان میں آزادیٔ اظہار اور فریڈم آف پریس کو بنیادی حقوق میں شامل کرنے والے باب نمبر1کا یہی 19واں آرٹیکل ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھیے اور سوچیے نہیں بلکہ کسی بھی میڈیم پر انفارمیشن کو کھول لیجئے اور پھر چند سوال دامِ خیال سے نکال کر حسب حال دیکھ لیں۔
پہلا سوال: کیا وطن عزیز میں فریڈم آف ایکسپریشن کی پہلی شرط پوری ہورہی ہے؟ اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت پر کوئی سوال نہیں اٹھتا‘ کوئی تبصرہ نہیں ہوتا‘ کوئی تقریر نہیں ہوتی؟ کیا یہ نہیں کہا جاتا کہ اگر میری بات نہ مانی گئی تو ملک نہیں رہے گا؟ کیا ملک کو فیل سٹیٹ ڈکلیئر کرنے والے دن رات جانتے بوجھتے یا انجانے میں بھارت کے بیانیے کا ابلاغ نہیں کرتے؟ کیا اس ملک کی سالمیت اور اسلام کی عظمت پر حضرت علامہ اقبال ؒ اور بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے نظریات کے مقابلے میں پاکستان مخالف کانگریسی مولویوں کی تقریریں اور پاکستان کے خلاف پیش گوئیاں وائرل نہیں کی جاتیں؟
دوسرا سوال: کیا پاکستان کی سلامتی کے اداروں اور ذمہ داروں کو سیاسی مفاد کے لئے نشانہ بنا کر مڈ نائٹ جیکالز کی طرح ان کے دروازے پر دستک دے کر ان سے خفیہ ملاقاتیں نہیں کی جاتیں؟ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب یہ کہا گیا کہ حکومت اور فوج کے درمیان والا پیج پھاڑ دیا گیا ہے‘ حکومت جا رہی ہے۔ پھر حکومت نہ گئی تو مایوسی میں سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے سرکاری اہلکاروں کے نام لے لے کر اُنہیں طعنے اور کوسنے نہیں دیے گئے؟
تیسرا سوال: آرٹیکل 19‘ توہین عدالت یا اس کی ترغیب سے منع کرنے کے متعلق قانون کے ذریعے عائد کی گئی reasonable restrictions کے پرخچے نہیں اڑائے جاتے۔ بغیر کسی ثبوت‘ بغیر کسی ڈیٹا‘ بغیر کسی سٹڈی کے آئینی عدلیہ کو آزاد نہ ہونے کے طعنے نہیں دیے جاتے؟ طعنے دینے والے ہیں کون؟ کیا وہ ہی تو نہیں جنہیں خود یا جن کے سہولت کاروں کو ''نا معلوم امراض‘‘ کا علاج یو کے میںکرانے کی اجازت ملتی ہے۔ ان کی قید بادشاہی سے بھی بالاتر ہے۔
چوتھا سوال: باقی چھوڑیئے آرٹیکل19 میں درج تہذیب و اخلاق کو لے لیں۔ کیا کسی دوسرے ملک میں کوئی عدالتی مفرور قیدی قانون کی بالادستی کے بارے میں ٹی وی پر لیکچر دے سکتا ہے؟
دو دن پہلے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان‘ جناب جسٹس گلزار احمد نے پورے دردِ دل سے ایسی ہی مادر پدر آزادی کا پوسٹ مارٹم کیا جو قوم کے اجتماعی شعور کے لیے آہ زادی بن چکی ہے۔ سی جے پی کی تقریر کے دو نکات قوم کے لیے بہت دل گداز نکلے‘ جن میں سے پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اس کے بارے میں مایوسیاں اور بدگمانیاں نہ پھیلائی جائیں۔ پاکستان ان شاء اللہ سدا قائم و دائم رہے گا۔ دوسرا نکتہ یہ کہ عدلیہ آزاد ہے اگر کسی کو کسی فیصلے پر اعتراض ہے تو وہ بتائے‘ کس مقدمے کی بات ہورہی ہے۔ آپ عدالت آئیں یا وہ کیس سامنے لائیں‘ جس کا فیصلہ کسی کے کہنے پر ہوا۔ عدلیہ جیسے قومی ادارے کے بارے میں بے بنیا د پروپیگنڈا اور افواہیں نہ پھیلائیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے سے باز آئیں۔
احمد ندیم قاسمی نے ایسی آہ زادی پر خوب کہا:
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحبِ اسرار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں