"ABA" (space) message & send to 7575

18کروڑ 70 لاکھ انسان اور دو انجان… (2)

ڈیموکریٹک انڈیکس بنیادی طور پر الیکٹڈ ڈیموکریسی کا انتظام رکھنے والے ممالک کی فہرست ہے۔ پچھلے سال شائع ہونے والے جمہوری انڈیکس کی رپورٹ میں شمالی امریکہ کے دو‘ مغربی یورپ کے 21‘ لاطینی امریکہ اور کیریبین کے 24‘ ایشیا اور آسٹریلیا (آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور اس کے آس پاس کے جزائر) پر مشتمل 28‘ سینٹرل اور مشرقی یورپ کے 28‘ سب صحارن افریقہ کے 44 اور مڈل ایسٹ کے ساتھ ساتھ شمالی افریقہ کے 20 ممالک جمہوری انڈیکس میں شامل ہیں۔
یوکے سمیت جن ملکوں میں پلورل ووٹنگ کا حق دیا گیا تھا یا وہ ملک جن میں اِن ڈائریکٹ ووٹنگ ہوتی تھی وہاں ریفارمر پولیٹیکل ورکرز نے بڑی جدوجہد کے بعد ون مین ون ووٹ کا حق حاصل کیا۔ اگر ہم ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی انتخابی اصلاحات اور ہر ووٹر کو الیکشن میں صرف ایک ووٹ ڈالنے کی الیکشن ریفارم بڑی جدوجہد اور دیر کے بعد نافذ ہو سکی۔ پہلے مرحلے پر ویسٹ منسٹر الیکشن سے پلورل ووٹنگ کے نظام کو آہستہ آہستہ کم کر کے ختم کیا جا سکا لیکن لندن کے باہر پھر بھی پلورل ووٹنگ کا سلسلہ چلتا چلا گیا۔ 1969ء میں یوکے میں ریپریزینٹیشن آف پیپلز ایکٹ نافذ کر کے پورے برطانیہ سے پلورل ووٹنگ کا حق ختم کر دیا گیا۔
دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں والوں کے لیے یہاں بھی نشانیاں ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جوں ہی ملک میں پولنگ ڈے ووٹ چوری اور پوسٹ پولنگ بدمعاشی اور بد انتظامی روکنے کے لیے الیکٹورل ریفارمز کا بل فلور پر آتا ہے کچھ خاص چہرے‘ بہت سے الیکٹ ایبلز اور باریاں لگانے والی پارٹیاں اتنا زیادہ شور مچاتی ہیں‘ جس کا ہزارواں حصہ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر شور نہیں مچایا۔ اس شور کی کوئی وجہ تو چاہئے ناں۔ وجہ صاف ظاہر ہے‘ جن حلقوں میں بندوبستی الیکشن لڑے جاتے ہیں وہاں اگر بندوبست والے نتائج کے بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر لگے ہوئے کائونٹر کے ذریعے سے ووٹ گنے گئے تو بندوبستی الیکشن والے الیکشن ہاریں گے۔ اس کے علاوہ اگر ملک کے انتخابی نظام میں اصلاح اور ریفارم کی کوشش کی مخالفت آپ کے علم میں ہے تو اسے قوم کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔ اپنے ہاں 12 اکتوبر 1973ء کے دن ون مین ون ووٹ کو آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی تحفظ ملا لیکن اسے بد قسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے الیکٹورل سسٹم میں نام تو ووٹ کا لیا جاتا ہے مگر کام سکہ رائج الوقت نوٹ سے چل رہا ہے۔ جیسے عوامی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا: ع
نام چلے ہرنام داس کا‘ کام چلے امریکہ کا
نوٹ اور ووٹ میں گڈمڈ کی دو تازہ ترین مثالیں دو عدد الیکشنز میں کھل کر سامنے آئی ہیں‘ جہاں پارلیمنٹ کے دونوں ہائوسز میں علیحدہ علیحدہ دو مرتبہ نوٹ کے ذریعے ووٹ کو عزت سے نوازا گیا۔
پہلا الیکشن: اس سلسلے کا پہلا الیکشن نیشنل اسمبلی ہائوس میں منعقد ہوا جہاں اقلیت نے اکثریت کے امیدوار کو شکست دے دی‘ جس کے بعد دوسرا مرحلہ ایوانِ بالا میں جا کر آیا جہاں پہ اپوزیشن کی اکثریتی جماعت کے مقابلے میں حزب اختلاف کی اقلیتی پارٹی نے اپنا اپوزیشن لیڈر منتخب کروا لیا۔ ایسے کرشمے بین الاقوامی جمہوری انڈیکس میں شامل کسی بھی دوسرے ملک میں ابھی تک نہیں ہو سکے۔ بے چارے جمہوریت کے مارے غیر معجزاتی عوام کے ملک۔
دوسرا الیکشن: یہ ضمنی لیکشن ان دنوں انتخابی مہم کے مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں اُنہی دو سیاسی پارٹیوں کے امیدوار مقابلے میں موجود ہیں جن کے درمیان سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے حاصل کرنے کے لیے زور آزمائی کا دنگل برپا ہوا تھا۔ دونوں طرف کے الیکشن کیمپوں سے سوشل میڈیا پر وڈیو لیکس کا سلسلہ جاری ہے جن میں بینر لگے کیمپ کے باہر ووٹ کو عزت دینے والے ووٹر خواتین و حضرات کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ کیمپ کے اندر اور باہر امیدواروں کے نام‘ انتخابی نشان‘ پارٹی ہیڈز کی تصویریں‘ انتخابی حلقے کا نام اور پولنگ کیمپ بھی موجود ہیں۔ پارٹی امیدواروں کے لیڈ کریکٹرز کے سامنے رکھی میز پر ایک طرف نوٹ پڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں دوسری طرف ایک خالی کرسی کے سامنے مصحف شریف رکھا ہے۔ ہر اندر آنے والے ووٹر سے قرآن پاک پر ہاتھ رکھوا کر پارٹی امیدوار کو ووٹ دینے کا حلف لیا جا رہا ہے۔ اُس کے بعد عزت دار ووٹر کو میز پہ رکھی نقدی پوری عزت سے پکڑائی جا رہی ہے اور اُن کا قومی شناختی کارڈ‘ نام اور نمبر لکھ کر جمع کیا جا رہا ہے تاکہ وہ بوقتِ ضرورت کام آوے۔ اس طرح ووٹ کو عزت دے کر باہر نکلنے والے خواتین و حضرات کیمرے پر انٹرویو دے کر بتا رہے ہیں کہ انہوں نے کس پارٹی سے کتنے پیسے لے کر اپنے حق رائے دہی کا سودا کیا ہے۔ یہ ہے لاہور شہر کے حلقہ این اے 133 کا پری پول انتخابی منظر نامہ جہاں جمہوریت کے نام پر آخر میں نقدی اور ریزگاری جیتے گی اور جیتنے والے کہیں گے کہ ملک کے 22 کروڑ عوام نے ان پر اعتماد کا اظہار کر کے ووٹ کو عزت دے دی ہے۔ ایسی بندوبستی کامیابی پر 1960ء کے عشرے کے ایک الیکشن پر شاعر نے دل کے پھپھولے یوں پھوڑے تھے:
دھاندلی‘ دھونس‘ دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا
اس وقت ساری دنیا میں انتخابی نظام الیکٹرانک میڈیم پر جا چکا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے مغربی دنیا کے سارے ملکوں میں کیش کرنسی کے بجائے ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ نے لے لی ہے۔ ان ملکوں میں کوئی بھی حکومت اب کاغذوں کے پلندے اور فائلوں کے انبار سے گورننس نہیں چلاتی۔ فائلیں ٹیکنالوجی پر منتقل ہو چکی ہیں‘ اور تو اور دنیا کا سب سے نازک بزنس‘ بینکاری سیکٹر بھی انٹرنیٹ بینکنگ اور ٹچ بینکنگ پر منتقل ہو چکا ہے۔ اسی طرح سے گلوبل ٹرانسپورٹ‘ ہوٹل بکنگ‘ ایئر ٹریول‘ ایئر ٹکٹس‘ ادائیگیاں‘ آن لائن شاپنگ‘ آن لائن ایجوکیشن‘ ای میڈیسن‘ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں مشین اور ٹیکنالوجی چھائی ہوئی نہیں ہے۔
ہمارے ووٹ کو عزت دینے والے‘ ووٹ کو عزت دینے کے عالمی اور عملی طور پر کس کیمپ میں کھڑے ہیں‘ اس کا اندازہ آپ کو دو انتہائوں سے ہو جائے گا جو آج کی دنیا میں ووٹنگ کے حوالے سے موجود ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق برازیل سمیت امریکہ‘ ناروے‘ ایسٹونیا‘ انڈیا اور سوئٹزرلینڈ میں touch screen کے ذریعے ووٹنگ کے عمل کا ٹرائل کیا گیا ہے۔ آرمینیا‘ کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ میں انٹرنیٹ کے ذریعے سے ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ ایسٹونیا میں انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا سلسلہ 2005ء سے جاری ہے۔ اسی طرح سے نمیبیا وہ پہلا افریقی ملک ہے جس میں 2014ء سے ووٹنگ مشین استعمال ہو رہی ہے۔ ون مین ون ووٹ کے ذریعے الیکشن منعقد کروانے والا انڈیا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں 1998ء سے ای وی ایم کا استعمال ہو رہا ہے۔ بھارت ان ملکوں میں شامل رہا ہے جہاں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ 1998ء کے بعد ہارنے والی ہر پارٹی نے الیکشن کا نتیجہ قبول کیا اور وہ اپوزیشن میں بیٹھی۔ ڈرم میں کینچے ڈال کر صدارتی نتیجہ کہاں نکالا گیا؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں