"ABA" (space) message & send to 7575

لائق نا لائق

سولر سسٹم کے نیچے اور کرہ ٔارض کے اوپر ہم وہ واحد قوم ہیں جس نے ایسی دریافت کرلی ہے جو باقی کسی اور قوم کے حصے میں نہیں آسکی۔اس عظیم انکشاف کا نام ہے کون ''لائق‘‘اور ''نالائق‘‘کون۔ اتنے عالی دماغ‘ ذہین و فطین‘لائق ترین خواتین و حضرات ہمیں 24گھنٹے یہ راز سمجھانے میں مصروف ہیں کہ'' لائق‘‘ راہبر کہاں پائے جاتے ہیں اور'' نالائق‘‘ مخلوق کس 'خدا کی بستی‘ میں بس رہی ہے۔
ہمارے اس سُپر انٹیلی جنٹ‘ایلیٹ کلب کے مطابق پاکستان کے سارے مسائل 20اگست2018ء کے دن پیدا ہوئے۔17اگست 2018ء سے لے کر 14اگست 1947ء تک نہ کوئی مسئلہ تھا اور نہ ہی حکومت نام کی کوئی چیز پائی جاتی تھی لہٰذا اس عرصے میں لائق‘ نا لائق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خاص طور سے پچھلے چار عشروں میں تو ہم سارے جنت کے باغوں میں جھولا جھول رہے تھے‘ اچانک عمران خان نے آکر ہمیں اس جھولے سے گرا دیا۔ظاہر ہے خوابوں کے باغِ عدن سے زمینی حقیقت کی طرف دھکیل کر لانے والا عمران خان نہیں تو اور کون ہے۔اس لیے لائق نا لائق کی تقسیم سیدھی سیدھی یوں سمجھی جاسکتی ہے۔
پہلا لائق: کسی زمانے میں کراچی کی سڑکوں پر بمبئی کی طرح ٹرام چلا کرتی تھی۔ظاہر ہے ٹرام کا خالق ''نالائق‘‘ آدمی تھاجس نے خواہ مخواہ ٹرام کی پٹریاں بچھائیں‘پھر اُس پر ٹرام کی بوگیاں دوڑائیں‘پھر شہرِ کراچی کے امن کو'' تباہ‘‘ کرنے کے لیے ٹرام میں خواہ مخواہ کی گھنٹیاں بجائیں۔سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں‘ جن میں چند آنے کے سکے میں لوگ سفر کیا کرتے تھے‘اُن بسوں کا سڑک پر رش لگوادیا۔یہ سب سوچنے والا کوئی ایسا ''نالائق‘‘ طبقہ تھا جس کے بچے امریکہ‘کینیڈا‘ فرانس‘ یوکے تک نہ جاسکے۔نہ ہی اُس ''نالائق‘‘ طبقے کو مے فیئر کی فیئر اینڈ ٹرانسپیرنٹ فضائوں میں زندگی گزارنے کا موقع مل سکا۔''لائق‘‘وہ تھا‘جس نے کراچی کی سڑکوں پر سے پٹری اُکھڑوائی‘ٹرام ہٹوائی‘بس چلوائی اور یوں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کردکھایا۔اب اپنی اپنی طرز کی موٹر سائیکل ہے اور بینک لون سے لی ہوئی علیحدہ علیحدہ موٹر کار۔
ہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے والی ہے کہ یورپ‘امریکہ‘کینیڈا بلکہ اب تو جاپان‘ چین‘کوریا‘روس جیسے'' نالائق‘‘ پلانرز نے پبلک ٹرین‘سرکولر ٹرین‘انٹر سٹی ٹرین‘انٹر پراونشل ٹرین‘بس اور میٹر وچلا کر لوگوں کوخواہ مخواہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔لوگ بھی ایسے نالائق جو لائن میں کھڑے ہوکر اپنی اپنی باری پر بس‘ ٹرین پر سوار ہوتے ہیں‘پورے پیسے کا ٹکٹ خریدتے ہیں اور لائن میں لگ کر بس سے اُتر جاتے ہیں۔
کراچی شہرِ پاکستان ہے‘آپ اُسے شہروں کا ہاتھی بھی کہہ سکتے ہیں۔اس لیے ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں والی مثال صادق آتی ہے‘لہٰذاپورے پاکستان میں ''لائق‘‘ لوگوں نے پبلک ٹرانسپورٹ بند کی اوراُس کی ہزاروں بسیں اُڑ کر کسی ہوائی جزیرے پر چلی گئیں‘جہاں صرف کباڑیے بستے ہیں‘لوہے کے کباڑیے۔ لوہے کے کباڑیے سے نہ صرف لوہا بردار جوناتھن بحری جہاز کا سکینڈل یاد آتا ہے بلکہ پوٹھوہار کا ٹرین ٹریک سکینڈل بھی یاد آگیا ہے۔ہوا یوں کہ انگریزوں کے زمانے میں چکوال کے مشہور قصبے بھون میں برٹش راج نے ایک چھوٹا ایئر پورٹ‘یعنی airstrip بنائی تھی۔ارد گرد کے علاقے میں تیل کی دولت اور قیمتی منرلزپائے جاتے ہیں جن کو جی ٹی روڈ کے ذریعے بندرگاہ تک پہنچانے کے لیے ایک ریلوے ٹریک بنایا گیاجو چکوال سے شروع ہوکر گجر خان کے علاقے مندرہ ریلوے سٹیشن پر آکر مین ریلوے ٹریک اور جی ٹی روڈسے مل جاتا تھا۔ مندرہ سے پہلے اس ٹریک پر بڑا تاریخی ریلوے سٹیشن آتا ہے جس کا نام رکھ تارا سنگھ ریلوے سٹیشن ہے جو متحدہ پنجاب کے مشہور سکھ لیڈرماسٹر تارا سنگھ سے منسوب ہے۔پنجابی زبان میں ''رکھ‘‘ایسی زمین کو کہتے ہیں جس میں درختوں کا بڑا ذخیرہ اُگایا گیا ہو۔ایک عدد مسلسل'' لائق‘‘ لیڈر صاحب کی حکومت نے چکوال تا مندرہ ٹرین سروس بند کی‘ پٹری اُکھاڑی‘اس کی لکڑی سے ایک محل تعمیر ہوا اور لوہے سے دوسرے محلات گلوبل گائوں کی چھاتی پر اُگائے گئے۔
اس لیاقت کی چوتھی فصل پک کر جوان ہو چکی ہے‘ان میں سے ایک بچے کی پاکٹ میں ڈکلیئر شدہ چارارب کے اثاثے نہ جانے کس نے ڈالے ہیں جبکہ دوسرے بچے کے ہاتھ میں 18‘ 20 کروڑ روپے کی ایس یو وی کی چابی ایسی خاتون لیڈرنے تھمائی ہے جن موصوفہ کی لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔یہ موصوفہ اپنے والد صاحب کے گھر میں رہتی ہیں اور ان کی گزر بسر اپنے خاوند کی کپتانی والی پنشن پر ہوتی ہے۔
دوسرا لائق: وہ پاور ہائوس ہے جسے 35سال اقتدار کے ملے‘اس دوران اُنہوں نے اپنے ابا جی کے نام پر پورا میڈیکل سٹی تعمیر کر دکھایا۔پورے ملک میں ایسے ہسپتال بنانے کا دعویٰ کیا جو لندن کے Cromwell HospitalاورQueen Mary Hospitalکی طبی تحقیق‘معیار اور سہولیات کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔پھر بیڑ اغرق ہو اُس مینڈکی کا جو زکام پھیلاتی ہے جس کے نتیجے میں پلیٹ لیٹس کی گنتی خراب ہوتی ہے۔اُسی کے ذریعے پلیٹ لیٹس جیسا کمر درد پھیلنا شروع ہوگیاجس کا مریض احتساب کی ٹرائل کورٹ میں پانچ منٹ بھی کھڑا نہیں ہوسکتا لیکن قومی اسمبلی میں اپنی سیٹ پر کھڑے ہوکر تین گھنٹے تقریر کر دکھاتا ہے۔ایسی بے چارگی پہ ماتم کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے کہ ان مظلوموں کے گھروں کے ڈرائیور‘مالی‘باورچی‘ پی اے اور گارڈ 40‘ 40اور 20‘20ارب روپے کما کر بے بس اور بے کس مالکان کے بینک اکائونٹس میں ڈالتے رہے۔شرلاک ہومز کے یہ بچے اتنے چالاک نکلے کہ انہوں نے معصوم مالکان کو کسی چیز کی خبر تک نہ ہونے دی۔اس تفصیل پر کتابیں چھپ چکی ہیں لہٰذا چلئے آگے بڑھتے ہیں نالائق کی طرف۔
پہلا نالائق:اس کے تین سال پانچ ماہ کے اقتدار میں بیمار صنعتیں‘پاور لومز‘آٹو موبائل‘کنسٹرکشن سمیت پروڈکشن انگڑائی لے کر اُٹھی اور جی ڈی پی گروتھ5.37فی صد تک جا پہنچی۔اُسی کے دور میں بلومبرگ سمیت بین الاقوامی ادارے کووڈکی پانچویں لہر کا سامنا کرنے کے باوجود‘پاکستان کا شمار مضبوط اور محفوظ معیشتوں میں کرنے لگے۔ملک کے بڑے بڑے مافیاز پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے اور چھوٹے چھوٹے گھروں تک 200ارب کی کیش نقدی پہنچائی گئی۔وہ سلطنت اور عوام کے اجتماعی مفاد میں کوئی فیصلہ اس لیے نہیں روکتا کہ وہ اَن پاپولر فیصلہ ہے۔اُسے ووٹ اور نوٹ کا لالچ نہیں‘نظام بدلنے کا جنون ہے۔اپنے گھر میں رہتا ہے‘پھر بھی طعنے سہتا ہے۔اُن کے طعنے‘جن کی نشاندہی شورش نے یوں کی تھی۔
کلایو کی زباں‘ ایڈن کا لہجہ‘ نُون کا نغمہ
یہ اک نظمِ مرصع ہے‘ پر اس کے بند ٹوڈی ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں