"ABA" (space) message & send to 7575

خواب نگر سے شاہیں نگر

ہمارے ایک عزیز سیکٹر F-8 اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ چند دن پہلے اُنہوں نے بتایا کہ وہ اپنا ایک خواب سنانا چاہتے ہیں۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ رات خواب میں دربار حضرت علی ابن عثمانؒ ہجویری کے سامنے کھڑے تھے کہ اتنے میں ایک بزرگ ہستی اُن کے پاس تشریف لائی جن سے وہ پہلے کبھی نہیں ملے۔ میرا نام لے کر فرمانے لگے کہ اُسے کہنا‘ وہ کچھ دن اپنی دادی کی قبر پر نہ جائے اور یہاں پر آئے۔
میرے لیے کئی اعتبار سے طارق کمال کا یہ خواب حیران کن تھا۔ پہلے یہ کہ طارق کو معلوم نہیں تھا کہ میں اپنی دادی اماں کی قبر پر ایک روز پہلے ہی حاضری دینے آبائی قبرستان کہوٹہ گیا تھا۔ طارق یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ میں نے پچھلے 10 دن کے دوران تین بار آبائی قبرستان حاضری دی۔ اُن کے خواب میں یہ اشارہ کیسے آیا؟ مجھے حاضری کا پیغام دینے والے بزرگ کون تھے‘ اُنہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں دادی اماںکی قبر پر کب کب گیا ہوں؟ میں نے خواب گھر میں سنایا اور لاہور جانے کا پروگرام والد صاحب سے ڈسکس کیا۔ کہنے لگے کہ ہمارے دوست حبیب اکرم کے صاحبزادے اور پیر صمصام بخاری کے بھائی کی فاتحہ خوانی کرنی ہے؛ چنانچہ اگلی صبح ورکنگ ڈے ہونے کے باوجود ہم موٹر وے کے ذریعے لاہور کے لیے نکل پڑے۔
ٹھوکر نیاز بیگ سے 20 منٹ کے فاصلے پر حبیب اکرم صاحب گیٹڈ کمیونٹی کے پُرسکون رہائشی علاقے میں ملے۔ ٹھوکر سے طارق گارڈنز تک ہوائی اڈے کے ایئر سٹرپ جتنی کھلی سڑک تھی‘ اس کے باوجود روایتی ٹریفک رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سڑک کو پرسنل پراپرٹی سمجھ کر استعمال کرنا اب ملک کے ہر علاقے میں روایت سے آگے بڑھ کر فیشن آف دی ڈے بن چکا ہے۔ مہذب معاشروں میں Road Users ٹریفک سگنل اور ٹریفک قانون کو سیفٹی کی گارنٹی سمجھتے ہیں اور اُس کی پاسداری اور پابندی کو اپنا فرض‘ مگر یہاں ہر گلی‘ ہر سڑک پر مشروم کی طرح اَن ریگولیٹڈ دکانیں‘ پلازے اور ڈھابے بن گئے ہیں۔ فٹ پاتھ‘ جو پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ وہاں مقامی تاجروں کا پکا قبضہ ہے۔ کسی زمانے میں میونسپل انسپکٹر ہوتے تھے‘ جنہیں بلدیات اور لوکل گورنمنٹ میں سیاست کی بے جا مداخلت کاری نے بھکاری بنا چھوڑا ہے۔ نہ اُن کی رِٹ‘ نہ اُنہیں قبضے ہٹانے کی خواہش اور نہ ہی مقبوضہ سڑک چھڑوانے کی ضرورت باقی رہی ہے۔ اب 100 فٹ کی ہر سڑک پر 40 سے 60 فٹ غیر قانونی پارکنگ لاٹ بن چکی ہے۔ کسی دکان‘ کسی پلازے‘ کسی شاپنگ مال کے ساتھ پارکنگ کی جگہ موجود نہیں اور نہ ہی ٹریفک کے ہاتھوں آفت زدہ علاقوں میں پارکنگ پلازہ بنے ہیں۔ نہ جانے کیوں آج ہمارے معاملے میں Christina Lamb کی کتاب Waiting for Allah یاد آ رہی ہے۔ یہ بھی یاد آیا کہ رش اور کمرشل علاقوں میں جو تھوڑی بہت سڑک بچتی ہے وہ گاڑی چلانے والوں کو ہتھ ریڑھی لگانے والوں کے ساتھ شیئر کرنا پڑتی ہے۔
حبیب اکرم صاحب کے بڑے بیٹے سے تعارف اور ملاقات اچھی لگی‘ جو قانون کے شعبے میں دوسرے سال کے طالب علم ہیں۔ یہاں سے ماڈل ٹائون‘ والد صاحب کے دوست شیخ طارق سعید کے گھر گئے۔ پرانے لاہور میں امیر زادوں کی یہ پہلی جدید بستی آج بھی نمایاں طور پر منظم نظر آئی۔ شاید ماڈل ٹائون سوسائٹی کی مینجمنٹ کے کمالِ ہنر کو اولڈ سٹی کے منیجرز کی نظر نہیں لگی۔
اگلی صبح کا سورج طلوع ہوا تو میں داتا دربار میں موجود تھا۔ پیر مسعود چشتی ایڈووکیٹ اور کچھ دوسرے دوست بھی ساتھ تھے۔ یہاں پہنچ کر کیفیت کھڑی شریف والے میاں محمد بخش کے بقول یوں ہوگئی؎
بال چراغ عشق دا میرا روشن کر دے سیناں
دل دے دیوے دی روشنائی جاوے وچ زمیناں
حاضری مکمل کرکے مال روڈ پر واپس آئے اور صمصام بخاری صاحب کے بھائی کی وفات پر اظہارِ تعزیت اور فاتحہ خوانی کے لیے لاہورِ جدید کے آسودہ ترین سیکٹر میں جا پہنچے۔ صمصام بخاری اور اُن کے بزرگوں کو فقر کی طرح سفر برائے شکار کا شوق بھی ورثے میں ملا ہے۔ تقریباً ڈھائی سال پہلے والد صاحب کے ایک دوست‘ جو پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین رہے‘ کی وفات پر تعزیت کے لیے اوکاڑہ گئے تھے‘ واپسی پر کرماں والا حاضری ہوئی‘ جہاں اُن کے شوقِ شکار کی نادر اور نایاب نشانیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارا اگلا پڑائو سرگودھا تھا۔
M2 سے شاہینوں کے شہر پہنچنے کا آسان راستہ بھلوال سے جاتا ہے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ بھلوال روڈ پر جاری تعمیرات کی وجہ سے ٹریفک کا بے ہنگم رش رہتا ہے اس لیے ہمیں پرانی متبادل سنگل سڑکوں سے ہوکر سرگودھا پہنچنا پڑا۔ اس دوران دیہاتی سرگودھا کے تین تھانوں کی حدود سے گزرے۔ سڑک کے دونوں جانب سٹرس کے باغ اور سٹرس گریڈنگ کی فیکٹریاں نظر آئیں۔ بہت ساری قسموں کے سرخ‘ سبز‘ سفید اور بلب امرود‘ ان سڑکوں کے کنارے گزرنے والوں کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ خریدنے کے لیے بھی روک رہے تھے۔
سرگودھا شہر کے کئی بازار گزرنے کے بعد ممتاز کاہلوں صاحب کا گھر نظر آیا۔ اُن کے بیٹے بیرسٹر عبداللہ کاہلوں میرے دوست ہیں جبکہ اُن کے چھوٹے بھائی عبدالرحمن میرے چھوٹے بھائی عبدالرحمن کے دوست۔ یہاں پہ سرگودھا کا لوکل میڈیا اور شہر کے بہت سے نامور خواتین و حضرات سے ملاقات ہوئی جو لنچ پہ بھی گپ شپ کی صورت میں جاری رہی۔ سرگودھا کے متحرک ایم این اے عامر سلطان چیمہ اور شہر کی معروف ڈاکٹر نادیہ عزیز سے بھی ملاقات ہوئی جو ممبر پنجاب اسمبلی بھی رہ چکی ہیں۔
سرگودھا شہر بھی ہمارے دوسرے شہروں کی طرح ٹریفک انجینئرنگ نہ ہونے اور ٹریفک مینجمنٹ کی عدم موجودگی کا نوحہ پڑھتا ہوا نظر آیا۔ ان دونوں خامیوں یا کمیوں کی بنیاد سوسائٹی اور سوک اداروں میں احساسِ زیاں کی شدت سے کمی ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ سڑک‘ گلی ‘ نالی‘ پارک‘ رہ گزر‘ سارے شہریوں کی مشترکہ ملکیت ہیں‘ لیکن بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی اور ضلع‘ تحصیل اور ڈویژن کے منیجرز کی بے دلی ہمیں اصلاحِ احوال کی طرف واپس نہیں جانے دیتی۔ اب تو ان تینوں درجوں پر پبلک سروس میں پرفارمنس دکھانے کا بہترین ذریعہ ''ٹِک ٹاک‘‘ ہے۔ آپ اس کا ثبوت دیکھنا چاہیں تو کسی بھی اعلیٰ سرکاری ملازم کا سوشل میڈیا اکائونٹ دیکھ لیں آپ کو پرفارمنس کے طوفانی نالے اور اُبلتی ہوئی ندیاں نظر نہ آئیں تو پھر شکایت کریں۔
پنجاب کے اگلے دو عشروں کا المیہ بے ڈھنگی پھیلتی ہوئی ہائوسنگ کالونیاں ہیں جو سرگودھا میں کسی طرف سے بھی داخلے پر آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ باقی شہروں میں بھی زرعی زمین اور باغات سکڑتے جا رہے ہیں۔ ملتان میں آم کے باغوں کی اسی حالتِ زار پر رونا آتا ہے۔ خالد صدیقی نے گائوں کے موضوع پر خوب کہا ؎
اک اور کھیت پکی سڑک نے نگل لیا
اک اور گائوں شہر کی وسعت میں کھو گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں